بھوٹان اور چین کے درمیان سرحدی معاہدے کا امکان: کیا انڈیا کو یہ قبول ہو گا؟

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, انبراسن ایتھیراجن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

بھوٹان کی ہمالیائی قوم ایشیا کی دو بڑی طاقتوں چین اور انڈیا کے درمیان میں واقع ہے۔ اور اسے اس منفرد جغرافیائی پوزیشن کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔

بھوٹان ان دو ممالک میں سے ایک ہے جن کے ساتھ چین نے ابھی تک اپنا زمینی سرحدی تنازع حل نہیں کیا ہے۔ دوسرا ملک انڈیا ہے جس کا چین کے ساتھ ہمالیہ کی سرحد پر طویل عرصے سے اختلاف جاری ہے۔

چین دن بدن عالمی دنیا میں عروج حاصل کر رہا ہے اور اسی وجہ سے بھوٹان پر چین کے ساتھ معاہدے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، لیکن اس حوالے سے کسی بھی پیش رفت کے لیے بھوٹان کو اپنے اتحادی انڈیا کی منظوری چاہیے ہو گی۔

بھوٹان اور دہلی کے درمیان گہرے تعلقات قائم ہیں اور انڈیا اس ملک کو کروڑوں ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد کی پیشکش کرتا رہا ہے۔

بھوٹان اور چین کے درمیان شمال اور مغرب میں ہمالیہ کے علاقے پر تنازعات ہیں۔

سب سے اہم ایک سٹریٹجک سطح مرتفع ہے جسے ’ڈوکلام‘ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ انڈیا بھوٹان اور چین کے درمیانی سنگم کے قریب واقع ہے۔ بھوٹان اور چین دونوں اس علاقے پر اپنی اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور انڈیا بھوٹان کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔

انڈیا کے پاس بھوٹان کی حمایت کرنے کی اپنی وجوہات ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے حوالے سے ڈوکلام سطح مرتفع انڈیا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ چین کی طرف سے خطے پر کسی بھی طرح کا تسلط سلی گوری کوریڈور کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

سلی گوری کوریڈور کو ’چکنز نیک‘ کہا جاتا ہے، یہ 22 کلومیٹر (14 میل) طویل حصہ ہے جو انڈیا کو بھوٹان کی شمال مشرقی ریاستوں سے ملاتا ہے۔

بھوٹان کے وزیراعظم لوٹے شیرنگ کی طرف سے بیلجیئم کے ایک اخبار لا لیبر کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے بتایا ہے کہ ان کے ملک کے ہاتھ کس طرح بندھے ہوئے ہیں۔

bbc

لوٹے شیرنگ نے کہا ’اس مسئلے کو حل کرنا اکیلے بھوٹان پر منحصر نہیں ہے۔ ہم تین ملک ہیں جں میں کوئی بڑا یا چھوٹا ملک نہیں ہے، تینوں برابر ہیں، ہر ایک ملک کو ایک تہائی گنا جانا چاہیے۔ ہم تیار ہیں۔ جیسے ہی باقی دو فریق تیار ہوں جائیں، ہم بات کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ بھوٹان اور چین ایک یا دو ملاقاتوں میں چند مقامات پر سرحدی حد بندی کر سکیں گے۔

دونوں ممالک سنہ 1984 سے سرحدی مذاکرات کر رہے ہیں۔

شیرنگ نے یہ بھی کہا کہ ان کی سرزمین میں چینی مداخلت نہیں ہوئی ہے۔

شیرنگ کے تبصروں نے انڈیا میں، خاص طور پر میڈیا میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے، بہت سے مبصرین نے بھوٹان اور چین کے مابین ڈوکلام کے حوالے سے کسی معاہدے کے امکان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ بھوٹان ڈوکلام پر اپنے ملکیتی دعووں پر زیادہ زور نہیں دے رہا ہے۔

ایک سابق سینئر انڈین سفارت کار اور ہمالیائی امور کے ماہر پی سٹوبدان نے کہا کہ ’انڈیا کو تشویش ہے کہ چین نئی دہلی پر دباؤ بڑھانے کے لیے بھوٹان کے ساتھ سرحدی تنازع حل کرنے کے لیے زور دے رہا ہے۔‘

سٹوبدان نے کہا کہ ’واضح طور پر بھوٹانی اپنے اختلافات کو حل کرنے کے عمل کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور حال ہی میں اس تنازعے کو حل کرنے میں چین کے کردار کے حوالے سے بھوٹان کے موقف میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔‘

انڈین میڈیا میں اٹھنے والے شور کے بعد شیرنگ نے اس ماہ کے شروع میں اپنے تبصروں کی وضاحت کی۔

وزیراعظم نے بھوٹانی ہفتہ وار اخبار کو بتایا کہ ’میں نے کوئی نئی بات نہیں کہی اور نہ ہی (بھوٹان کی) پوزیشن میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔‘

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جہاں بہت سے بھوٹانی انڈین میڈیا میں شیرنگ کے تبصروں پر ردعمل سے حیران تھے، وہیں چین کا خیال ہے کہ تھمپو کے لیے دہلی کی حمایت کے بغیر کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہو گا۔

شنگھائی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینئر فیلو لیو زونگی کا کہنا ہے کہ ’یہاں انڈیا ہی رکاوٹ ہے۔ اگر چین بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدی مسئلے کو حل کر لے تو پیچھے صرف انڈیا ہی رہ جائے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ انڈیا ایسا ہونے دے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ چین اور بھوٹان 1996 میں ایک حتمی معاہدے تک پہنچنے کے قریب تھے، لیکن انڈیا کی مداخلت کی وجہ سے ناکام ہو گئے۔

بھوٹان اور چین کے سرحدی مسائل دہائیوں پرانی انڈیا اور چین سرحدی کشیدگی سے جڑے ہوئے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان میں ایک ایسی سرحد ہے جس کی مکمل حد بندی نہیں کی گئی ہے اور اس کے مختلف علاقائی دعوے دار موجود ہیں۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ 3488 کلومیٹر طویل ہے جبکہ چین اسے تقریباً 2000 کلومیٹر طویل سمجھتا ہے۔

ڈی فیکٹو سرحد انڈیا کے شمال میں لداخ کے علاقے سے شروع ہوتی ہے اور مشرق میں ریاست اروناچل پردیش (جسے چین جنوبی تبت کہتا ہے) تک ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت پر بہت سے بھوٹانیوں کی گہری نظر ہے او وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیجنگ کے ساتھ جلد ہی معاہدہ طے پانا ملک کے لیے بہتر ہو گا۔

ایک بھوٹانی ماہر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ’چین ایک حقیقت ہے۔ لیکن کیا بھوٹان کے پاس چین کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ رکھنے کا کوئی جواز ہے؟ میرے خیال میں یہ مناسب طریقہ کار نہیں ہو گا۔‘

انڈیا اور بھوٹان نے سنہ 1949 میں ایک خصوصی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں دہلی کے سیکورٹی خدشات کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ سنہ 2007 میں ایک نظرثانی شدہ معاہدے نے بھوٹان کو خارجہ پالیسی اور فوجی خریداری کے شعبوں میں مزید آزادی دی۔

سینکڑوں انڈین فوجی بھوٹان کے اندر تعینات ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ وہ بھوٹانی فوجیوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں۔ انڈیا کا فوجی ہیڈکوارٹر ڈوکلام سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر مغربی قصبے ہا میں موجود ہے۔

وانگچا سانگے جیسے بھوٹانی مبصرین کا خیال ہے کہ بھوٹان چین کے ساتھ سرحدی تصفیہ حاصل کر سکتا ہے لیکن ایسا تبھی ممکن ہے اگر دہلی کی طرف سے یہ اصرار نہ ہو کہ بھوٹان ڈوکلام پر اپنا دعویٰ برقرار رکھے۔

g

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ڈوکلام پر کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ڈوکلام کا جو حصہ ہمارے پاس ہے، وہ اب بھی ہمارا ہی ہے۔ جو حصہ ہمارے پاس نہیں ہے، ہم اسے چین سے کیسے چھین سکتے ہیں۔‘

سانگے جیسے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھوٹان اس وقت اپنی زیادہ تر ضروریات، خاص طور پر تیل کے لیے انڈیا سے درآمدات پر انحصار کرتا ہے، لیکن بھوٹان کو دوسرا راستہ کھول کر اپنے شمالی پڑوسی چین سے سے بھی سپلائی حاصل کرنی چاہیے۔

بھوٹانی وزیر اعظم کے تبصروں پر انڈیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے محتاط ردعمل سامنے آیا ہے۔

انڈین وزارت خارجہ کے مستقل سکریٹری ونے موہن کواترا نے اپریل کے شروع میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ انڈیا اور بھوٹان ہمارے مشترکہ قومی مفادات بشمول سیکورٹی مفادات کے، قریبی رابطے میں ہیں۔‘

کواترا نے کہا تھا ’میں اپنے پہلے دے گئے بیانات دہراؤں گا جو ٹرائی جنکشن (ڈوکلام) باؤنڈری پوائنٹس کے تعین کے بارے میں ہمارے موقف کو واضح کرتے ہیں۔‘

انڈیا ڈوکلام کی انتہائی اہم سٹریٹجک اہمیت کے باعث اس کے ارد گرد کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتا۔ دوسری طرف، بھوٹان جیسے ملک کے لیے مشکل ہے کہ وہ چین پر اپنا دعویٰ ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔

جس وقت ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ یہ صدی ایشیا کی صدی ہے، ایسے وقت میں ایشیا کی دو ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں کے ساتھ سرحد کا اشتراک بھوٹان کی اہمیت بڑھا سکتا ہے۔ لیکن دہلی اور بیجنگ کے درمیان نہ ختم ہونے والی کشیدگی کے باعث بھوٹان خود کو تیزی سے غیر محفوظ صورتحال کی طرف جاتا دیکھ رہا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ