مذہبی فرقے کا ’جنت تک رسائی‘ کا جھانسا: بھوکے رہ کر موت کو گلے لگانے والے 89 افراد کی لاشیں برآمد

کینیا

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, ڈیمیئن زین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

کینیا کا یہ جنگل ساحل سے زیادہ دور نہیں جہاں تازہ مٹی کے ڈھیر ماہرین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

اس مقام پر 14 سے زیادہ قبریں کھودی جا چکی ہیں اور حسین خالد نے پچھلے چار دن ان قبروں سے درجنوں افراد کی لاشیں نکلتے ہوئے دیکھی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہاں سے آنے والی بُو ناقابلِ برداشت ہے۔‘

ان قبروں سے برآمد ہونے والے مردہ افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ’گڈ نیوز انٹرنیشنل چرچ‘ کے رکن تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان افراد کو دنیا کے ختم ہو جانے سے پہلے پہلے جنت پہنچنے کے لیے فاقہ کشہ پر مائل کیا گیا تھا۔

حسین خالد ’ہاکی افریقہ‘ نامی تنظیم چلاتے ہیں جس نے حکام کو گذشتہ ہفتے اس وقت ان قبروں کے بارے میں مطلع کیا جب انھیں مقامی افراد سے اس بارے میں پتہ چلا۔

یہ مقام شکاہولا جنگل کے اندر کافی چھپا ہوا ہے اور خالد بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم کے اراکین کو یہاں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے گھنی جھاڑیوں کو کاٹنا پڑا تھا۔

اب تک یہاں سے 89 لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ لیکن ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ 112 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ خالد کا اندازہ ہے کہ یہاں 60 کے قریب ایسی قبریں ہیں جن میں سے اب تک صرف ایک چوتھائی قبریں ہی کھودی جا سکی ہیں۔

کینیا

،تصویر کا ذریعہReuters

پولیس کے مطابق اس علاقے کے قرب و جوار سے 29 افراد زندہ حالت میں ملے ہیں لیکن ان میں سے اکثریت خود کو زندہ بچانا نہیں چاہتی تھی۔ ان کو دنیا کے ختم ہونے کے بارے میں جو بھی بتایا گیا تھا، وہ اس پر کامل یقین رکھتے تھے۔

اتوار کے دن خالد کا سامنا ایک ایسی نوجوان خاتون سے ہوا جو بہت کمزور ہو چکی تھیں لیکن وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی ان کی زندگی بچانے میں ان کی مدد کرے۔

خالد بتاتے ہیں کہ ’جب ہم نے ان کو ایک چمچ سے پانی پلانے کی کوشش کی تو انھوں نے انکار کر دیا اور اپنا منھ سختی سے بند کر لیا۔ وہ بتا رہی تھیں کہ اُن کو کسی قسم کی مدد نہیں چاہیے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس خاتون کو ہسپتال پہنچایا جا چکا ہے۔

ان کا ایک 40 سالہ مرد سے بھی سامنا ہوا جس نے اُن سے کہا کہ ’مجھے بچانے کی کوشش مت کرو۔ وہ ہوش و حواس میں تھا اور جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اس نے ہمیں اپنا دشمن تک قرار دیا اور کہا کہ وہ جنت جانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

مالنڈی کمیونٹی ہیومن رائٹس کے وکٹر کاڈو قبروں سے لاشیں نکالنے میں مدد کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے خیال میں ڈیڑھ سو لاشیں موجود ہیں۔

وکٹر کے مطابق ان سے ایک شخص نے رابطہ کیا تھا جو اپنے تین بچوں کو بچانا چاہتا تھا۔

وکٹر کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے ہم صرف ایک کو بچا سکے جس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور وہ ایک گھر میں موجود تھا۔‘

’اس بچے کی عمر تقریبا چھ سال تھی۔ اس کا بھائی اور بہن مر چکے تھے۔ ان کو ہمارے پہنچنے سے ایک دن پہلے دفنایا گیا تھا۔‘

کینیا

،تصویر کا ذریعہEPA

جنگل سے دور ملک میں اس واقعے پر تشویش پائی جاتی ہے کہ کیسے درجنوں افراد اپنی مرضی سے فاقہ کشی سے خود کشی کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ کینیا کی اکثریت مذہبی رجحان رکھتی ہے اور 85 فیصد آبادی مسیحی مذہب سے اپنی شناخت کرتی ہے۔

ملک کے صدر ولیم روٹو نے گڈ نیوز انٹرنیشنل چرچ سربراہ پال میکنزی نتھینگ کو ایک ایسے شخص کے طور پر بیان کیا جن کا ’کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے۔‘

ملک کے وزیر داخلہ کیتھوری کنڈکی نے اس واقعے کو ’قتلِ عام‘ قرار دیا ہے۔

گذشتہ ماہ پال میکنزی نتھینگ کو دو بچوں کی ہلاکت کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ اب وہ ایک بار پھر پولیس کی حراست میں ہیں۔

کینیا کی سینیٹ کے سپیکر امیسون کنگی نے سوال اٹھایا ہے کہ اس قدر حیران کن واقعہ کا کیسے کسی کو پتہ نہیں چلا۔

یہ بھی پڑھیے

دوسری جانب یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کوئی شخص فاقہ کشی سے کیسے خود کو ہلاک کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر جیمز کپسینگ نے بی بی سی کو بتایا کہ کینیا میں بہت سے چھوٹے چرچز وجود میں آ چکے ہیں جن پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان چرچوں کے سربراہ لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں جو عام افراد کی اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی خواہشوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘

جنگل میں حسین خالد کو بتایا گیا ہے کہ کچھ فاصلے پر ایک جگہ ہے جہاں لوگ اکھٹے ہو کر دعا مانگتے ہیں۔ انھوں نے حکام سے درخواست کی ہے کہ تلاش کی مہم کا دائرہ وسیع کیا جائے۔

واضح رہے کہ یہ جنگل 800 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

مقامی افراد ان قبروں پر آ کر حکام کو اپنے ایسے رشتہ داروں کے بارے میں بتا رہے ہیں جو اب بھی لاپتہ ہیں۔

ایک شخص نے خالد کو بتایا کہ ان کا بھائی ان کے تین بیٹوں کو چرچ میں شامل کروانے کے لیے لے گیا تھا۔ ان کو ڈر ہے کہ اب وہ تینوں زندہ نہیں ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ