وہ خاتون جس نے بچے کو جنم دینے کے لیے سات گھنٹے اونٹ پر سفر کیا

مونا اور جراح صدام

،تصویر کا ذریعہSadam Alolofy/Unfpa

،تصویر کا کیپشن

یمن میں مونا اپنے بیٹے جراح کے ساتھ

  • مصنف, شارلین این روڈریگز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

جب مونا کو درد زہ شروع ہوا تو ایک اونٹ نے انھیں ایک بڑی مشکل سے بچا لیا۔ 19 سال کی مونا کو 40 کلومیٹر دور ہسپتال تک کا سفر طے کرنا تھا۔ اس کے لیے پہاڑ پر واقع ان کے گھر سے عام طور پر چار گھنٹے لگتے تھے۔

وہاں کوئی سڑک نہیں اور درد اور خراب موسم کی وجہ سے اس روز انھیں ہسپتال پہنچنے میں سات گھنٹے لگے۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’اونٹ کے ہر قدم کے ساتھ میں اندر ہی اندر ٹوٹ رہی تھی۔‘

پھر ایک ایسا وقت آیا جب اونٹ بھی مزید آگے جانے کے قابل نہ رہا۔ یوں مونا اپنے شوہر کے ساتھ پیدل ہی ہسپتال کی طرف چلنے لگیں۔

شمال مغربی یمن کے محویت صوبے میں بنی سعد ہسپتال ہزاروں خواتین کے لیے قائم واحد طبی مرکز ہے۔ گاؤں میں مونا کے گھر سے اس ہسپتال تک کا راستہ پہاڑوں کے بیچ سے گزرتا ہے جسے صرف پیدل یا کسی اونٹ پر طے کیا جاسکتا ہے۔

جب مونا اونٹ پر سوار ہو رہی تھیں تو انھیں پیدائش سے قبل اپنے بچے کی فکر لاحق ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’راستہ پتھریلا تھا اور یہ جسمانی اور ذہنی طور پر تھکانے والا سفر تھا۔‘

’میں بار بار خدا سے دعا کرتی تھی کہ مجھے اپنے پاس بلا لے مگر میرے بچے کو بچا لے تاکہ میں اس درد سے نجات حاصل کر سکوں۔‘

حاملہ خواتین اونٹوں پر سوار

،تصویر کا ذریعہSadam Alolofy/Unfpa

،تصویر کا کیپشن

بنی سعد ہسپتال آنے والی حاملہ خواتین جو اونٹ پر سوار ہیں

وہ ہسپتال کیسے اور کس حال میں پہنچیں، مونا کو اس بارے میں کچھ یاد نہیں مگر انھیں یہ ضرور یاد ہے کہ دائیوں اور سرجنز کے ہاتھوں میں اپنے بچے کو روتا سن کر ان کا دل امید سے بھر گیا۔

انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ اپنے بیٹے کا نام جراح رکھا۔ اس سرجن کا بھی یہی نام ہے، جس نے ان کی جان بچائی۔

قریبی دیہی علاقوں سے ہسپتال آنے والی سڑکیں کافی تنگ ہیں اور کچھ کی حالت خراب ہے جبکہ بعض کو سعودی قیادت میں حکومت حامی فورسز اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان آٹھ سال سے جاری جنگ کے باعث بند رکھا گیا ہے۔

پہاڑی راستوں سے ہسپتال آنے والی حاملہ خواتین کے ساتھ اکثر ان کے شوہر اور خاندان کے دیگر افراد ہوتے ہیں۔

33 سال کی سلمیٰ عبدو ایک حاملہ خاتون کے ہمراہ ہسپتال تک جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ رات کے وقت سفر کے آدھے راستے میں ہی حاملہ خاتون کی وفات ہو گئی تھی۔

سلمیٰ چاہتی ہیں کہ ان خواتین اور بچوں پر رحم کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں سڑکوں، ہسپتالوں اور فارمیسیوں کی ضرورت ہے۔ ہم اس وادی میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ جن کی قسمت اچھی ہو صرف وہی محفوظ انداز میں بچوں کی پیدائش ممکن بنا پاتے ہیں مگر باقی اس دشوار سفر سے ہی مر جاتے ہیں۔‘

کچھ ہی خاندان ہسپتال کا خرچ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم ان کے پاس بھی ہسپتال پہنچنے کے لیے مالی وسائل نہیں ہوتے۔

یمن میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے ہشام ناہرو کے مطابق ملک میں ہر دو گھنٹے میں ایک خاتون کی موت بچوں کی پیدائش کے دوران ان مسائل ہی وجہ سے ہوتی ہے، جن سے نمٹا جاسکتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ یمن کے دور دراز علاقوں میں اکثر حاملہ خواتین باقاعدگی سے چیک اپ نہیں کروا پاتیں اور نہ ہی وہ شدید درد اور خون بہنے کے دوران طبی مدد حاصل کر پاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بنی سعد ہسپتال

،تصویر کا ذریعہSadam Alolofy/Unfpa

،تصویر کا کیپشن

بنی سعد جیسے ہسپتالوں کے لیے امداد محدود ہوگئی ہے

یو این ایف پی اے کے مطابق یمن میں صرف نصف مواقع ایسے ہوتے ہیں جن کی نگرانی باصلاحیت ڈاکٹر کرتے ہیں جبکہ محض ایک تہائی کیسز ہسپتال پہنچ پاتے ہیں۔ آبادی کے کل پانچ میں سے دو حصے ایسے بھی ہیں جو قریب واقع فعال سرکاری ہسپتال سے ایک گھنٹے سے زیادہ کی مسافت پر رہائش پذیر ہیں۔

جنگ سے قبل بھی یمن کا صحت کا نظام بحران سے گزر رہا تھا مگر اب اس لڑائی نے ملک کے ہسپتالوں اور سڑکوں بھی بُری طرح نقصان پہنچایا ہے جس کے لوگوں کے لیے مشکل کے بغیر سفر ناممکن ہوچکا ہے۔

ہسپتالوں میں باصلاحیت عملہ، سامان، ادویات کا فقدان ہے۔ سڑکوں اور انفراسٹرکچر کے لیے سرمایہ کاری بھی رُک گئی ہے۔

یو این ایف پی اے کے مطابق مجموعی طور پر ہسپتالوں کا صرف پانچواں حصہ ایسا ہے جو قابلِ اعتماد زچگی کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔

’مجھے لگا اب بچنا ناممکن ہے‘

یمن میں حاملہ خواتین کس مشکل سے گزرتی ہیں، اس تناظر میں مونا کی کہانی متعدد مثالوں میں سے ایک ہے۔ ملک میں عام لوگوں کے لیے کار خریدنا پہنچ سے باہر ہے کیونکہ 80 فیصد آبادی امداد پر منحصر ہے۔

حائلہ کے شوہر نے سعودی عرب میں ملازمت سے کچھ پیسے بچائے تھے تاکہ ان کی بیوی کو ادھار کے موٹر سائیکل پر ہسپتال لے جایا جاسکے۔

ان کے دیور نے انھیں موٹر سائیکل سے باندھ دیا اور ہسپتال کی جانب چل پڑے مگر راستے میں وہ موٹر سائیکل سے گِر گئیں۔

ہسپتال آمد پر حائلہ کو فوراً سرجری کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

30 سال کی حائلہ یاد کرتی ہیں کہ ’مجھے یہ اپنی زندگی کا اختتام محسوس ہوا۔ مجھے لگتا تھا کہ میرا اور میرے بچے کا بچنا اب ناممکن ہے۔‘

انھیں حمل کے ابتدائی حصے میں متنبہ کیا گیا تھا کہ خون کے شدید بہنے اور دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے گھر میں بچے کی پیدائی ممکن نہیں ہو گی۔

ہسپتال میں ڈاکٹر نے حائلہ سے کہا کہ مشکل گھڑی میں بچے کو بچا لیا گیا ہے۔

انھوں نے اپنی بیٹی کا نام امل رکھا۔ عربی میں اس کے معنی امید ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے بچے کو کھونے کے قریب تھی۔ اس جنگ نے زندگی بھلا دی تھی لیکن اس بچے نے مجھے امید دی۔‘

عالمی امداد محدود ہونے سے بنی سعد جیسے ہسپتال مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ عملے کو ماؤں اور بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔ اب وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ترجیحی بنیادوں پر کس کو بچایا جائے۔

فواد راجح اور محمد القالیسی کی اضافی رپورٹنگ

BBCUrdu.com بشکریہ