اتوار 2؍صفر المظفر 1445ھ20؍اگست 2023ء

نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کیس، کل کی سماعت کا حکم نامہ جاری

سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کےخلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔ حکم نامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا 2 صفحات پر مشتمل نوٹ بھی شامل ہے۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے 16مئی کے حکم نامہ کے تحت عدالتی سوالات کے تحریری جوابات جمع کروائے، وفاقی حکومت کے وکیل نے نیب ترامیم کے خلاف کیس خارج کرنے کی استدعا کی، بظاہر 16 مئی کے عدالتی حکم نامے پر عملدر آمد نہیں کیا گیا، کیس کی تیز سماعت کیلئے وفاقی حکومت کے وکیل کو تحریری جواب جمع کروانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ  29 اگست کو وفاقی حکومت کے وکیل دلائل دیں۔

 جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ 

جسٹس منصور علی شاہ  کے نوٹ میں کہا گیا کہ ہم 19 جولائی 2022 سے نیب ترامیم کے خلاف کیس سن رہے ہیں، 16مارچ کو کیس کی 46ویں سماعت کے دن پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ کیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 3 کے مطابق 184(3) کے مقدمات کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی کمیٹی بینچ بنائے گی۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر 47 ویں سماعت کے موقع پر چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔

نوٹ میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 4 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت کم از کم 5 رکنی لارجر بینچ کرے گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ ہونے کے بعد میں ترامیم کی گزشتہ سماعت 16مئی کو ہوئی۔ سماعت سے قبل میں نے کیس سننے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، 16 مئی کو کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ میری رائے تھی کہ نیب ترامیم کیس کی مزید سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے فیصلے کے بعد کی جائے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کا فیصلہ کیے بغیر نیب ترامیم کیس سماعت کیلئے مقرر کیا گیا، نیب ترامیم کیس سمیت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون تمام زیر التوا مقدمات پر بھی لاگو ہوتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ 8 رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر حکم امتناع جاری کر رکھا ہے، اس قانون کے خلاف حکم امتناع عبوری حکم ہے۔

نوٹ میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو آئینی طور پر درست یا غلط قرار دیے جانے کا یکساں امکان ہے، اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو درست قرار دیا جاتا ہے تو قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ کی بجائے اپنی نافذ کی گئی تاریخ سے لاگو ہوگا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون درست قرار دیا گیا تو نیب ترامیم کےخلاف کیس کا فیصلہ قانون کی نظر میں کالعدم قرار پائے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں مزید لکھا کہ میرا مؤقف ہے کہ کسی بھی بےضابطگی سے بچنے کیلئے 184(3) کے مقدمات پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کا فیصلہ ہونے تک نہ سنے جائیں، آرٹیکل 184(3) کے مقدمات سننے ضروری بھی ہوں تو فل کورٹ تشکیل دی جائے، میں نے فوجی عدالتوں کے خلاف کیس میں 22 جون کو اپنی رائے دی تھی، چیف جسٹس پاکستان سے درخواست ہے نیب ترامیم کےخلاف کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ بنایا جائے، امید ہے چیف جسٹس میری درخواست پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔

نیب ترامیم کیس کے فریقین کے وکلا سے بھی بینچ بنانے پر رہنمائی لی جائے،  موجودہ بینچ نیب ترامیم کیس سنے یا پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کا فیصلہ کیا جائے یا فل کورٹ بنائی جائے، فریقین کے وکلا آئندہ سماعت پر اس قانونی نکتے پر تیاری کے ساتھ آئیں۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.