ویتنام جنگ: ایک جنگجو پادری جو 17 سال تک جنگل میں بھٹکتا رہا اور دنیا اس سے بے خبر رہی

ہن نائی

،تصویر کا ذریعہMICHAEL HAYES

،تصویر کا کیپشن

ہن نائی ایک فوجی ساتھ ایک پادری بھی تھے

  • مصنف, جارج رائٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، لندن

آج امریکہ کی ریاست شمالی کیرولائنا میں 75 سالہ پادری وائی ہن نائی اپنے چرچ کے آرامدہ ماحول میں انجیل کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ اپنی نوجوانی میں تقریباً دو دہائیوں تک جنگل میں بھٹکتے رہے اور ویت نام کی جنگ ختم ہونے کے کافی عرصے بعد تک ویتنام کی فوجوں سے لڑنے والے اپنے ساتھیوں میں تبلیغ کرتے رہے البتہ اس دوران ان کی رائفل اے کے-47 ان سے کبھی جدا نہیں ہوتی تھی۔

اپنے فرار کے دوران وہ دنیا سے کٹے ہوئے رہے۔ ہن نائی اور باغیوں کی ان کی یونٹ خوراک کی تلاش میں سرگرداں رہتی اور خمیر روگ کی حکومت کو ادائیگی کے واسطے شیر کی کھالوں کے لیے شکار کرتی۔ ان کی ’فراموش کردہ فوج‘ نے 1992 تک ہتھیار نہیں ڈالے جب تک کہ ہن نائی نے ان کی آزادی کے لیے مصالحت نہ کی۔

وائی ہن نائی پہلی بار 30 جنوری 1968 کی رات کو اس وقت تقریباً موت سے گلے ملے تھے جب ویت نام میں کمیونسٹ شمالی کے لیے لڑنے والے ویت کانگ نے نئے سال کے جشن کی آڑ میں امریکہ کے کنٹرول والے حصے میں ایک زبردست حملہ کیا تھا۔

ہن نائی ویتنام میں پلے بڑھے تھے اور وہ ویتنام کے وسطی پہاڑی علاقوں کے سب سے بڑے شہر بواون ماتھوت میں امریکی مسیحی مشنریوں کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے غربت کی وجہ سے انھیں مشنریوں کے پاس آٹھ سال کی عمر میں اس امید پر چھوڑ دیا تھا کہ ان کا بچہ بہتر زندگی گزارے۔

انھیں گود لینے والی ’گاڈ مدر‘ کیرولین گریسوالڈ اس وقت سو رہی تھیں جب راکٹ کا حملہ ہوا۔ مشنریوں کی الگ الگ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کمیونسٹ فوجیوں نے گھر کے اندر بھی حملے کیے۔

کیرولن کے والد لیون اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔ ہن نائی اس رات ایک دوست کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے وہ بھاگتے ہوئے اپنے گھر پہنچے اور کیرولن کو ملبے سے نکالا لیکن وہ دم توڑ گئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میری گاڈ مدر تکلیف کی وجہ سے مر گئی۔ خدا نے میری جان بچائی۔‘

بہت سے دوسرے مشنری مارے گئے یا پکڑے گئے جبکہ ہن نائی بنکرمیں چھپ گئے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکہ نے ویت نام میں لڑنے کے لیے مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا تھا

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اپنے نقصان کے باوجود ہن نائی نے ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھتے رہے۔ بائبل سکول میں پڑھنے لگے اور چرچ میں کام کرتے۔

وہ مارچ سنہ 1975 کی ایک فیصلہ کن جنگ تک جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ اس جنگ میں امریکی حمایت یافتہ جنوبی افواج کو تباہ کر دیا گیا اور انھیں بواون ماتھوت سے پسپائی پر مجبور ہونا پڑا۔

بموں کی بارش کے دوران ہن نائی اور بائبل سکول کے 32 طلباء میلوں پیدل چلتے ہوئے فرار ہوگئے۔

یہ وہ وقت تھا جب ہن نائی سے مظلوم نسلوں کی آزادی کے لیے لڑنے والے یونائیٹڈ فرنٹ (فرلو) کے جنگجوؤں نے رابطہ کیا۔ فرلو ایک مسلح باغی تحریک تھی جو مونٹاگنارڈز نامی نسلی اقلیتوں کی خودمختاری کی حمایت کرتی تھی۔ ان پہاڑی علاقوں کے لوگوں کو طویل عرصے سے ویتنام میں ان کے مسیحی عقیدے اور دیگر وجوہات کے سبب ظلم و ستم کا سامنا تھا۔

انھیں امید تھی کہ امریکی مشنریوں کے ساتھ ہن نائی کے قریبی روابط اور اس کی انگریزی کی وجہ سے انھیں امریکی فوجیوں سے مدد حاصل کرنے میں فائدہ مل سکتا ہے۔

خيال رہے کہ امریکہ نے 1973 میں جنگ سے دستبرداری سے قبل دسیوں ہزار پہاڑی باشندوں کو فرنٹ لائن جنگجو کے طور پر بھرتی کیا تھا۔

ہن نائی کا کہنا تھا کہ وہ ان جنگجوؤں میں شامل ہونے کے لیے راغب ہوئے جو ان جیسے عقیدت مند مسیحی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، اس بات نے میرے دل کو چھو لیا۔‘

10 مارچ سنہ 1975 کو انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں راہ فرار اختیار کی۔ پہلے چار سال وہ ویتنام کی حدود کے اندر رہے، اور مسلسل فوج سے چھپتے ہوئے بھاگتے رہے۔

ہن نائی کہتے ہیں ‘گولی چلاؤ اور بھاگو، گولی چلاؤ اور بھاگو۔ ہمارے پاس اچھے ہتھیار نہیں تھے۔’ انھوں نے مزید کہا کہ وہ خود براہ راست لڑائی میں شامل نہیں تھے، لیکن اپنے دفاع اور شکار کے لیے اے کے-47 لے کر چلتے تھے۔

نقشہ

سنہ 1979 تک ویتنامی فوج نے فلرو کی تلاش میں اپنی کارروائیاں بڑھا دی تھیں۔ اس لیے یہ گروپ ویتنام کے مغرب میں کمبوڈیا بھاگ گیا۔

وہ کہتے ہیں: ’ہم وہاں ٹھہر نہیں سکتے تھے، اس لیے ہم نے سرحد عبور کی اور یہ بہت خطرناک تھا۔‘

لیکن ویتنام سے نکلنا نئی مشکلات کا سبب بنا۔ پول پوٹ کی نسل کش خمیر روج ملیشیا کے گوریلا کمبوڈیا کی مشرقی سرحد کے کئی حصے کو کنٹرول کرتے تھے۔

کمبوڈیا میں چار سال کی دہشت گردی کے دوران ایک اندازے کے مطابق 17 لاکھ لوگ مارے گئے تھے اور ان کی ذمہ دار حکومت کو ویتنام کی حمایت یافتہ افواج کے ہاتھوں تختہ الٹنے کے بعد وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

فلرو کو قیام کے لیے خمیر روج سے اجازت درکار تھی اس لیے ہن نائی نے مونڈولکیری صوبے کے جنگلوں میں ان کے مقامی کمانڈروں سے ملاقات کی۔

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے بتایا کہ ہم ایک ہی چیز پر متفق تھے۔ میں نے کہا کہ ‘ہمارا ایک ہی دشمن ہے’ اگر کمیونسٹ ویتنام سے اس طرف آتے ہیں، تو ہم ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔’

خمیر روج نے ہن نائی اور ان کی بٹالین کو رہنے کی اجازت دی۔ لیکن انھوں نے بڑی مقدار میں شیر اور اژدھے کی کھال اور ہرن کے سینگ کی صورت میں ماہانہ ’ٹیکس‘ کا مطالبہ کیا۔

ہن نائی کا کہنا ہے کہ ان کی یونٹ نے شیروں کو جال میں پھنسایا۔ اگرچہ شیروں کا خوف حقیقی تھا کیونکہ اس نے کیمپ میں تین افراد کو مار ڈالا تھا لیکن خمیر روج کا خوف اس سے بھی زیادہ تھا۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ بہت ناراض تھے، انھوں نے سب کچھ گنا تھا۔ کئی بار انھوں نے ہمیں دھمکی دی تھی کہ اگر آپ ٹیکس نہیں دیتے تو آپ کو واپس جانا پڑے گا۔‘

کمبوڈیا کے جنگل میں فلرو سروس

،تصویر کا ذریعہNATE THAYER COLLECTION

،تصویر کا کیپشن

کمبوڈیا کے جنگل میں فلرو سروس

فلرو اب بھی گشت کرتے تھے اور ویتنام کی افواج کے ساتھ کبھی کبھار آمنا سامنا ہو جاتا تھا کیونکہ ان کی یونٹ ایک جنگل سے دوسرے جنگل میں منتقل ہوتی رہتی تھی اور کبھی ایک مہینے سے زیادہ کہیں نہیں ٹھہرتی تھی۔

ہن نائی کو ان کی ’جنگل کی زندگی‘ یاد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلرو جنگجو جانوروں کی طرح گھومتے پھرتے تھے۔ درختوں کے پتے سمیت جو کچھ بھی ملتا اسے کھا لیتے تھے۔ ہم چلتے جاتے تھے اور چلتے ہی رہتے تھے۔۔۔ ہم ہاتھیوں کو گولی مارتے، جو کچھ بھی ہم دیکھ سکتے ان پر گولی چلا دیتے۔‘

اسی دوران انھوں نے ایچ بیوہ سے شادی کی جو اس گروپ کا حصہ تھیں۔ جنگل میں ان کے تین بچے ہوئے، لیکن ایک کی موت ہو گئی۔

کیمپ میں مذہب ایک مستقل چیز تھی۔

ہن نائی کا گروپ جب بھی کسی نئے مقام پر پہنچتا تو سب سے پہلے وہ ایک صلیب وہاں لگاتے۔ اس کے بعد وہ فوجیوں، عورتوں اور بچوں سے خطاب کرتے اور وعظ و نصیحت کرتے۔

کرسمس ہمیشہ منایا گيا۔ یہ ایک جشن تھا جو ان کے لیے نمایاں تھا۔ 1982 میں وہ ایک رات کو کیرول گا رہے تھے جسے کچھ مقامی خمیر روج نے دور سے سنا۔ ان میں سے مٹھی بھر لوگ ان کی طرف چل پڑے۔

ہن نائی کہتے ہیں کہ ’ایک جنرل نے پوچھا کہ کیا وہ ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ نغمہ بہت خوبصورت تھا اور وہ کیمپ میں ہمارے ساتھ رہنے لگے۔ ہم نے گایا اور میں نے دو زبانوں خمیر اور بنونگ میں وعظ کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ویت نامی کمیونسٹوں نے بھی گانا سنا اور قریب آئے، لیکن فلرو اور خمیر روج نے ان کو مار بھگایا۔

فلرو پادری ہونے کے ساتھ ساتھ ہن نائی اس کے چیف رابطہ افسر بھی تھے۔ ان کا کام مقامی خمیر روج کے ساتھ معاملات طے کرنا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ہر صبح شارٹ ویو ریڈیو پر بی بی سی، وائس آف امریکہ اور ویتنامی ریڈیو کی نشریات کو سنا کرتے تاکہ یہ جان سکیں کہ اس دنیا میں کیا ہو رہا ہے جو انھیں بھول گئی ہے۔

’سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تو سب کچھ اس طرح سے بدل گیا تھا کہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔‘

1991 کے آتے اس وقت کے وزیر اعظم ہن سین ایک خطرہ بن گئے تھے۔ انھوں نے رواں ماہ ہی 38 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد اپنے بیٹے کو ملک کی باگ ڈور سونپی ہے۔

وائی ہن نائی

،تصویر کا ذریعہY HIN NIE

،تصویر کا کیپشن

وائی ہن نائی کیمپ کا دورہ کراتے ہوئے

لیکن چند مقامی خمیر روج اور کمبوڈیا کے بعض سپاہیوں کے علاوہ شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ فلرو جنگجو ابھی بھی جنگل میں ہیں۔ ان کے سابق ساتھیوں کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ آیا وہ اب بھی زندہ ہیں۔ اور نہ ہی بین الاقوامی برادری کو ان کے بارے میں کچھ معلوم تھا۔

اس لیے جب سنہ 1992 میں ہن نائی نے اقوام متحدہ کے حکام کے ساتھ بات چیت شروع کی تو لوگوں کو بڑا تعجب ہوا۔ وہ نسل کشی کے تناظر میں امن مشن کے ایک حصے کے طور پر کمبوڈیا کے قومی انتخابات کا انتظام کرنے کے لیے پہنچے تھے۔

ہن نائی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اقوام متحدہ کے ایک مقامی اہلکار سے ملاقات کی اور فرانسیسی زبان میں کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا کہ ’ہم فلرو ہیں، ہم آزادی کے انتظار میں ہیں اور آپ کی مدد کے منتظر ہیں۔‘

دو ماہ بعد اقوام متحدہ کے اہلکاروں کا ایک گروپ ہن نائی سے ملنے آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ مجھ سے ایک ہفتے تک پوچھ گچھ کرتے رہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ میں جنگل میں کیوں رہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا وہ خمیر روج ہے۔ انھوں نے ان سے کہا کہ وہ خمیر روج نہیں ہیں۔‘

اس کے بعد اقوام متحدہ کے نمائندوں کے ساتھ ایک اور میٹنگ ہوئی۔ ہن نائی نے ‘کمیونسٹوں سے لڑنے کے لیے’ مزید ہتھیاروں کی درخواست کی لیکن انھیں بتایا گیا کہ یہ ممکن نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان کا جواب یہ تھا کہ ‘آپ کے پاس صرف 400 [جنگجو] ہیں جبکہ ویتنام میں لاکھوں فوجی ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ سب مارے جائیں۔’

صحافی تھایر نے کیمپ کا 1992 میں دورہ کیا

،تصویر کا ذریعہMICHAEL HAYES

،تصویر کا کیپشن

صحافی تھایر نے کیمپ کا 1992 میں دورہ کیا

پھر اگست 1992 میں امریکی صحافی نیٹ تھائر نے کیمپ کا دورہ کیا اور آخری فلرو جنگجو کی کہانی بیرونی دنیا کو معلوم ہوئی۔

تھائر نے نوم پین پوسٹ میں خبر دی کہ یہ گروپ ابھی تک اپنے لیڈر کی ہدایات کا انتظار کر رہا ہے اور وہ اس بات سے ناواقف ہے کہ 17 سال پہلے خمیر روج نے انھیں پھانسی دے دی تھی۔

فلرو کے کمانڈر انچیف وائی پینگ ایون نے پوچھا کہ ‘کیا براہ کرم آپ ہمارے صدر، وائی بھم اینول کو تلاش کرنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں؟ ہم 1975 سے اپنے صدر کے ساتھ رابطے اور احکامات کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟’

گروپ کے کچھ لوگ رو پڑے جب انھیں بتایا گیا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ فلرو صدر کی موت کی خبر ہن نائی کو ان کے شارٹ ویو ریڈیو سیٹ پر کبھی نہیں پہنچی تھی۔

انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے سنا تھا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی ایک غیر حقیقی امید تھی کہ شاید امریکہ دوبارہ رابطہ کرے گا اور مدد فراہم کرے گا۔ اگرچہ وہ سرحد پر پھنسے ہوئے تھے تاہم فلرو جنگجو اپنے وطن کے لیے جدوجہد ترک کرنے اور پناہ گزین بننے سے بیزار تھے۔

ہن نائی سے پوچھا گیا کہ وہ امریکہ کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ‘میں ناراض نہیں ہوں، لیکن بہت دکھ کی بات ہے کہ امریکی ہمیں بھول گئے۔ امریکی ہمارے بڑے بھائی کی طرح ہیں، اس لیے جب آپ کا بھائی آپ کو بھول جاتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔’

اپنے لیڈر کی موت کے علم کے بعد فلرو جنگجو اپنے ہتھیار ڈالنے پر راضی ہو گئے اور امریکہ میں پناہ کی درخواست کی۔

ہن نائی

،تصویر کا ذریعہY HIN NIE

،تصویر کا کیپشن

ہن نائی اب امریکہ میں مقیم ہیں

اس گروپ کو عام پناہ گزینوں کے چینلز سے نہیں گزرنا پڑا اور چند ہی ماہ میں یہ طیارے پر سوار تھے۔ صحافی تھایر جنھوں نے فلرو کی کہانی دنیا کو بتائی تھی وہ ان کے ساتھ ہرمقام پر تھے۔

نومبر 1992 میں جب وہ امریکہ کی سرزمین پر اترے تو ہن نائی کا استقبال ایک بینر کے ساتھ کیا گیا جس پر ’فارگاٹن آرمی‘ یعنی فراموش کردہ فوج لکھا تھا۔ وہ اور ایچ بیوہ اپنے بچ جانے والے بچوں کے ساتھ گرینزبورو چلے گئے اور اب امریکہ میں ہی مقیم ہیں۔

جلد ہی ہن نائی نے امریکی کانگریس میں شواہد دیتے ہوئے اپنے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔ اپنی تبلیغ کی وجہ سے وہ آج تک ویتنامی ریاستی میڈیا میں ایک ہدف بنے ہوئے ہیں۔

ویتنام کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ فلرو اب بھی موجود ہے اور ہن نائی جیسے جلاوطن سابق ارکان پر ویتنام میں بغاوت کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔

سنہ 2021 میں وی او وی نیوز ایجنسی نے کہا کہ وہ ’مرکزی پہاڑی سرزمین میں ایک مذہبی فرقے کے بھیس میں ایک مسلح تنظیم کے پیچھے تھے، جس کا مقصد مقامی لوگوں کو متحدہ ویتنام کی ریاست کو سبوتاژ کرنے پر اکسانا تھا۔’

ہن نائی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

کمیونسٹ حکمرانی کے تحت مونٹاگنارڈز کو اب بھی ویتنام میں بڑے پیمانے پر خطرات کا سامنا ہے۔ انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا جاتا اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔

ویتنام کی حکومت نے اس کے متعلق سوالات کا جواب نہیں دیا۔

گرینزبورو میں ہن نائی کے یونائیٹڈ مونٹاگنارڈ کرسچن چرچ کے اجتماعات میں سینکڑوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ وہ ان کو انگریزی، ویتنامی اور راڈ میں تبلیغ کرتے ہیں۔ اور بعض اوقات مرکزی پہاڑی زبانوں میں گیت گاتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ اب بھی میرے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں لیکن فلرو ختم ہو گیا ہے۔ سب مر چکے ہیں۔ ویتنام اپنے لوگوں کے منھ بند کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن میں یہاں ہوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ