اسرائیل میں نتن یاہو کے 12 سالہ اقتدار کا خاتمہ، پارلیمان نے نئی اتحادی حکومت کی منظوری دے دی
دائیں بازو کے قوم پرست نفتالی بینیٹ مختلف جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بنا سکے ہیں
اسرائیل کی پارلیمان نے اتوار کو نئی اتحادی حکومت کے قیام کی منظوری دے دی اور اس طرح بنیامن نتن یاہو کے 12 سالہ اقتدار کا اب خاتمہ ہو گیا ہے۔
دائیں بازو کے قوم پرست نفتالی بینیٹ نئے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے اور حکومت کی تبدیلی کی قیادت کی ہے۔
انھوں نے اپنے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ سیاسی تعطل کے دو سالوں میں چار انتخابات میں حصہ لینے والی قوم کو متحد کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت تمام لوگوں کے لیے کام کرے گی اور اس کی ترجیحات تعلیم ، صحت اور اصلاحات ہوں گی۔
اپنے خطاب 49 سالہ نفتالی بینیٹ نے کہا کہ ’یہ غم کا دن نہیں۔ جمہوریت میں حکومت کی تبدیلی ہوتی ہے اور بس۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم جو کر سکے کریں گے اور کسی کو بھی خوف محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ اور میں ان لوگوں سے کہوں گا جو آج رات کو جشن منانے والے ہیں کہ وہ لوگوں کی تکلیفوں پر ڈانس مت کریں۔ ہم دشمن نہیں ہیں، ہم ایک لوگ نہیں۔‘
اقتدار کی شراکت سے متعلق معاہدے میں یامینا پارٹی کی سربراہی کرنے والے نفتالی بینیٹ، ستمبر 2023 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے جبکہ مزید دو سالوں کے لیے اقتدار سینٹرسٹ یش اتید کے رہنما، یائیر لاپڈ کے حوالے ہو گا۔
نئی حکومت جو مختلف پارٹیوں کا اتحاد ہے صرف ایک نشت کی معمولی اکثریت رکھتی ہے۔
پارلیمینٹ میں بحث کے دوران نتن یاہو نے وعدہ کیا کہ وہ واپس لوٹیں گے۔ انھوں نے ووٹ کے عمل کے بعد فتالی بینیٹ سے ہاتھ ملایا۔
دوسری جانب فلسطینیوں کے نمائیندوں نے نئی حکومت کو مسترد کر دیا ہے۔
فلسطین کے صدر محمود عباس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’یہ اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہمارا موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ 1967 میں یروشلم کے دارالحکومت کی حیثیت سے سرحدوں پر واقع فلسطینی ریاست ہو۔
غزہ پر کنٹرول رکھنے والے اسلام پسند گروہ حماس کے ایک ترجمان نے کہا یہ ایک قبضہ اور نوآبادیاتی وجود ہے ، جس سے ہمیں اپنے حقوق واپس لینے کے لیے طاقت کے ساتھ مزاحمت کرنی چاہیے۔
امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم کو مبارکباد کا پیغام بھجوا چکے ہیں اور انھوں نے ان کے ساتھ کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اتوار کو بینیٹ نے سالوں تک اسرائیل کی خدمات کے لیے مسٹر نتن یاہو کا شکریہ ادا کیا۔
انھوں نے کہا کہ نیا اتحاد ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی اجازت نہیں دے گا۔
نتن یاہو سب سے طویل عرصے تک اسریئل کے وزیر اعظم رہے ہیں جو سالوں تک سیاسی افق پر چھائے رہے۔ نتن یاہو لیکود پارٹی کے رہنما برقرار رہتے ہوئے حزبِ اختلاف میں رہیں گے۔
انھوں نے پہلے ممکنہ حکومت کو ’فراڈ اور ایک خطرناک اتحاد‘ قرار دیتے ہوئے بہت جلد اسے ’ختم کرنے’ کے عزم کا اظہار کیا۔
دریں اثنا ان کے خلاف رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد کو نقصان پہنچانے کے الزامات کا مقدمہ جاری ہے۔
نتن یاہو بارہ سال اقتدار میں رہے ہیں
اتحاد کی جانب سے امن برقرار رکھنے کی کوشش
اس سے قبل نیا اتحاد یہاں کنیسیٹ کے راہداریوں میں آخری لمحے کی محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ نفتالی بینیٹ اور یائیر لاپڈ سیاسی مجبوریوں کے باوجود ماحول کو پرسکون رکھنے کی کوشش میں دکھائی دیے۔
یہ بھی پڑھیئے
سنیچر کی رات نامزد وزیر اعظم نے نتن یاہو کے گھر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ ’اشتعال انگیزی‘ سے بچیں۔
انھوں نے نتن یاہو کی جانب سے متعدد الزامات کے بعد بھی خود پر کنٹرول رکھا۔
نتن یاہو نے پانچ مرتبہ یہ عہدہ سنبھالا ہے جو ایک ریکارڈ ہے ۔پہلی بار 1996 سے 1999 تک ، پھر 2009 سے لے کر 2021 تک ۔
انھوں نے اپریل 2019 میں ایک الیکشن کرایا لیکن نئی مخلوط حکومت تشکیل دینے کے لیے خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد دو اور انتخابات ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔
تیسرا انتخابات نیشنل یونیٹی کی حکومت کے حق میں آیا جہاں نتن یاہو نے اس وقت کے حزب اختلاف کے رہنما بینی گانٹز کے ساتھ اقتدار بانٹنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن یہ معاملہ دسمبر میں ختم ہو گیا، جس کے نتیجے میں چوتھے انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا۔
اگرچہ لیکود 120 نشستوں والی پارلیمان میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن نتن یاہو دوبارہ حکومت کے لیے اتحاد بنانے میں ناکام رہے اور یہ کام لاپیڈ کے حوالے کیا گیا جن کی پارٹی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔
نتن یاہو کے اقتدار میں رہنے کی مخالفت صرف بائیں بازو اور سینٹر میں ہی نہیں بلکہ دائیں بازو کی جماعتوں میں بھی بڑھ گئی ہے جو عام طور پر نظریاتی طور پر لیکود سے جڑے ہوئے ہیں جس میں یامینا بھی شامل ہے۔
اگرچہ یامینا انتخابات میں صرف سات نشستوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی تاہم مخلوط حکومت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے اس کی حمایت اہم تھی۔ ہفتوں کے مذاکرات کے بعد لاپیڈ پارٹیوں کے اُس اتحاد میں یامینا کو شامل کرنےمیں کامیاب رہے جس کا واحد مشترکہ مقصد مسٹر نتن یاہو کو عہدے سے ہٹانا تھا۔
اکثریت کے لیے درکار 61 نشستوں کے ساتھ آٹھ گروپوں سے وابستہ معاہدے پر 2 جون کو ڈیڈ لائن ختم ہونے سے محض آدھا گھنٹہ قبل دستخط کیے گئے تھےجس نے نتن یاہو کی قسمت پر مؤثر طریقے سے مہر لگا دی۔
فتالی بینیٹ اور یئر لاپیڈ ماحول کو پرسکون رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نئی حکومت کیسی ہوگی؟
بظاہر بینیٹ کی حکومت اسرائیل کی 73 سالہ تاریخ میں آنے والی حکومتوں کے برعکس ہوگی۔ اس اتحاد میں ایسی جماعتیں ہیں جن میں وسیع نظریاتی اختلافات ہیں اور ممکنہ طور پر سب سے نمایاں طور پر پہلی آزاد عرب پارٹی بھی شامل ہے جو ممکنہ حکمران اتحاد ’رام‘ کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس میں آٹھ خواتین وزرا کی ریکارڈ تعداد بھی متوقع ہے۔
رام اور بائیں بازو کی غیر عرب اسرائیلی جماعتوں کو شامل کرنے کا مطلب ہے کہ فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی پالیسیوں جیسے معاملات پر تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یامینا اور ایک اور دائیں بازو کی جماعت ‘نیو ہوپ’ اسرائیلی مقبوضہ علاقے غربِ اردن میں اسرائیلی بستیاں بسانے کی حق میں ہیں، اس کے علاوہ سماجی پالیسیوں پر بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ کچھ جماعتیں ہم جنس پرستوں کے حقوق کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں جیسا کہ جنسی شادیوں کو تسلیم کرنا، اسلامی جماعت، رام اس کے خلاف ہے۔
اس کے علاوہ کچھ جماعتیں مذہبی پابندیوں میں نرمی لانا چاہتی ہیں۔
مسٹر بینیٹ نے اشارہ کیا ہے کہ ان کی حکومت متنازع معاملات سے گریز کرتے ہوئے ان معاملات پر زیادہ توجہ دے گی جہاں معاہدہ ممکن ہے مثلا معاشی معاملات یا کورونا وائرس کی وبا۔
انھوں نے حال ہی میں کہا کہ ’کسی کو بھی اپنا نظریہ ترک نہیں کرنا پڑے گا، لیکن سب کو اپنے کچھ خوابوں کی تعبیر کو ملتوی کرنا پڑے گا … ہم اس بات پر توجہ دیں گے کہ کیا حاصل کیا جا سکتا بجائے اس پر بحث کہ کیا نہیں کیا جا سکتا۔‘
ٹام بیٹمین کا تجزیہنامہ نگار برائے مشرق وسطی
پرانی عادتیں مشکل سے چھوٹتی ہیں۔
جب اسرائیلی پارلیمان میں اعتماد کے ووٹ کا اعلان ہوا تو بنیامن نتن یاہو ایوان میں وزیر اعظم کے لیے مخصوص کرسی میں واپس جا کر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر ایوان کے عملے نے انھیں یاد دہانی کرائی اور انھیں حزب اختلاف کی بینچوں تک لے گئے۔
یہ اسرائیل کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور یادگار لمحہ تھا۔ نتن یاہو کو تقریباً زبردستی ان کی کرسی سے ہٹایا گیا اور اس کے بعد اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے نتن یاہو کی وزارت عظمی کا دور ختم ہوا۔
لیکن فی الوقت ان کا سیاسی سفر ابھی جاری ہے اور وہ کہیں نہیں جا رہے۔ وہ حزب اختلاف میں رہیں گے اور جیسا کہ انھوں نے خود کہا ہے، اس حکومت کو توڑ گرانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اس حکمراں اتحاد کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
گذشتہ 12 سال کے بعد اسرائیل میں کسی نئے وزیر اعظم کو موقع ملا ہے حکومت کا لیکن یہ حکومت متعدد جماعتوں پر مشتمل ہے اور یہی اس کی کمزوری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
نفتالی بینیٹ کے لیے یہ آسان نہیں ہوگا کہ اس اتحاد کو قائم رکھ سکیں۔
Comments are closed.