’میں اسرائیلی انٹیلیجنس سے بات کر رہا ہوں، ہمیں بمباری کا حکم ہے، آپ کے پاس دو گھنٹے ہیں‘: غزہ کے ڈاکٹر اور انٹیلیجنس اہلکار کے رابطوں کی کہانی

تصویر

،تصویر کا ذریعہBBC/Getty Images

  • مصنف, آلیس کڈی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، یروشلم

محمود شاہین کو یہ ٹیلی فون کال علی الصبح موصول ہوئی تھی۔ وہ 19 اکتوبر یعنی جمعرات کا دن تھا اور وقت تھا تقریباً صبح ساڑھے چھ بجے کا۔ اسرائیل کو غزہ پر مسلسل بمباری کرتے ہوئے 12 دن ہو چکے تھے۔

محمود شاہین شمالی غزہ میں ایک متوسط علاقے ’الزہرہ‘ کی ایک کثیرالمنزلہ عمارت کے تیسرے فلور پر پر اپنے تین بیڈ روم والے فلیٹ میں موجود تھے۔ اسرائیلی فضائیہ کی 12 روز کی لگاتار بمباری کے باوجود یہ رہائشی عمارت اب بھی بڑی حد تک محفوظ تھی۔

اسی دوران محمود کو عمارت کے باہر سے بڑھتے ہوئے شور کی آواز سنائی دی۔ باہر لوگ چیخ رہے تھے۔ کسی نے سڑک پر چیخ کر کہا ’تمھیں یہاں (عمارت) سے بچ نکلنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ (اسرائیل) ان عمارتوں پر بمباری کرنے والے ہیں۔‘

جیسے ہی محمود نے اپنے فلیٹ کی عمارت سے نکل کر کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں سڑک پار کی تو اُن کی فون کی سکرین آن ہوئی۔

یہ کسی پرائیوٹ نمبر سے آنے والی کال تھی۔

محمود نے کال اٹینڈ کی تو فون کرنے والے شخص نے کہا ’میں اسرائیلی انٹیلیجنس (خفیہ ادارے) سے تم سے مخاطب ہوں۔‘

یہ کال تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی اور یہ محمود کی زندگی کی سب سے ڈراؤنی فون کال تھی۔

’ہم تین عمارتوں پر بمباری کریں گے‘

اس شخص نے محمود کو اُن کے مکمل نام سے پُکارا اور وہ روانی سے عربی بول رہا تھا۔

محمود کے مطابق ’اُس نے مجھے بتایا کہ وہ تین عمارتوں کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔۔۔اور مجھے اِردگرد کے علاقے کو خالی کرنے کا حکم دیا۔‘

اگرچہ محمود کی عمارت قرب و جوار کی اُن تین عمارتوں میں شامل نہیں تھی جن کو نشانے بنانے کی بابت انٹیلیجنس ایجنٹ نے بتایا تھا لیکن اُن سینکڑوں لوگوں کو ان تین قریبی عمارتوں سے جلدبازی میں نکالنے کے ذمہ دار بن چکے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے ہاتھ میں لوگوں کی زندگیاں تھی۔‘

انھوں نے اپنے حواس مجتمع کیے اور اس شخص سے، جس نے اپنا نام ابو خالد بتایا تھا، کہا کہ وہ فون بند نہ کرے۔

40 سالہ ڈینٹسٹ محمود کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ انھیں اس کام (عمارتوں پر بمباری کی اطلاع فراہم کرنے) کے لیے کیوں منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن اس دن، انھوں نے اپنی کمیونٹی کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہMAHMOUD SHAHEEN

،تصویر کا کیپشن

محمود شاہین

دوسری جانب فون پر موجود اجنبی کی طرف سے ہدایات دی جا رہی تھیں جنھیں یہ تک پتا تھا کہ محمود کے فون کی بیٹری ختم ہونے کے باوجود اُن تک کیسے پہنچنا ہے۔ محمود نے فون پر بمباری روکنے کی التجا کی اور وہ اس وقت تک لوگوں کو نکالنے کے لیے چیختے رہے جب تک کہ ان کے گلے میں درد نہ ہوا تاکہ لوگ اس جگہ سے بھاگ جائیں۔

انھوں نے اپنے پڑوسیوں کی بڑے پیمانے پر انخلا میں مدد دی اور پھر اپنے محلے کو اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتے دیکھا۔

اس تنازع کے دوران اسرائیلی فوج نے بعض اوقات غزہ والوں کو فون کر کے انھیں ہوائی حملوں سے پہلے خبردار کیا ہے۔

محمود کا اس حوالے سے بیان اس قسم کی ٹیلیفون کالز کی بے مثال تفصیلات سے آگاہ کرتا ہے۔

بی بی سی نے غزہ کے رہائشی علاقے الزھرہ کے متعدد رہائشیوں سے یہ تصدیق کرنے کہ محمود ہی وہ شخص ہیں جنھیں انتباہی کال موصول ہوئی تھی، سے رابطہ کیا ہے۔

ہم اس کال کی تفصیلات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکتے جسے انھوں نے تقریباً تین ہفتے بعد دوبارہ یاد کر کے بتایا ہے تاہم اس کال سے متعلق تفصیلات ایک کمیونٹی فیس بک گروپ پر موجود تصاویر اور اس دن بم دھماکے سے پہلے اور بعد کی سیٹلائٹ تصاویر سے مماثلت رکھتی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ اس دن سینکڑوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے کیونکہ اسرائیلی فوج نے کم از کم 25 رہائشی عمارتوں پر بمباری کی تھی جس میں سینکڑوں رہائشی اپارٹمنٹس تھے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ جو کچھ سامان لے جا سکتے تھے لے کر بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے اور بالآخر غزہ کے دیگر علاقوں میں منتشر ہوئے تھے۔

اسرائیل فوج کا کہنا ہے کہ وہ عسکری اہداف کو نشانہ بناتی ہے اور یہ حملے ’بین الاقوامی قانون کی متعلقہ دفعات‘ کے تحت ہیں۔

’آپ سچ کہہ رہے ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے ایک وارننگ شاٹ فائر کریں‘

محمود یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب اس آدمی نے فون پر بمباری سے متعلق آگاہ کرنا شروع کیا تو ابتدا میں اُن کو یقین نہیں آیا۔

ان کے ارد گرد موجود لوگوں نے خبردار کیا کہ یہ کال جعلی ہو سکتی ہے۔ جب سے جنگ شروع ہوئی تھی، کمیونٹی فیس بک گروپ میں ایسے پیغامات گردش کر رہے تھے جن میں جعلی کالز کی وارننگ دی گئی تھی اور اسرائیل کے انخلا کے حقیقی احکامات کی شناخت کے بارے میں تجاویز پیش کی گئی تھیں۔

محمود نے یہ جاننے کے لیے یہ انتباہی کال اصلی ہے، فون پر موجود شخص سے کہا کہ خود کو سچ ثابت کرنے کے لیے ایک انتباہی فائر کریں۔ انھوں نے سوچا کہ اگر اب بھی سوئے ہوئے لوگوں نے سڑکوں سے ان کے چیخنے کی آواز نہیں سنی ہو گی تو میزائل کی آواز سُن کر وہ جاگ جائیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ بظاہر کہیں سے ایک وارننگ شاٹ، شاید ڈرون کے ذریعے سے داغا گیا جو ان تین عمارتوں میں ایک عمارت پر آ کر گرا جس کے بارے میں محمود کو بتایا گیا تھا۔

محمود کہتے ہیں ’میں نے اس (اسرائیلی ایجنٹ) سے کہا کہ بمباری شروع کرنے سے قبل ایک اور انتباہی گولہ برساؤ۔ اور پھر ایک اور آ کر لگا۔‘

اب جب محمود کو یہ یقین ہو گیا کہ کال اور اس پر موجود اسرائیل انٹیلیجنس کا اہلکار اصلی ہے تو انھوں نے اس آدمی سے صبر کرنے کو کہتے ہوئے روکنے کی کوشش کی۔ ’میں نے اس سے کہا کہ ’ہمیں دھوکہ نہ دیں اور اس وقت بمباری نہ کریں جب لوگ وہاں سے نکل رہے ہیں۔‘

اس آدمی نے کہا کہ وہ محمود کو وقت دے گا۔ محمود یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے کہا کہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بیگناہ حملے میں مارا جائے۔

محمود کے مطابق اس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی زخمی بھی ہو۔

محمود نے فون کال جاری رکھی اور ساتھ ساتھ محلے کے لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کی چیخ چیخ کر تاکید کرتے رہے۔ ان کے ایک ہمسائے نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ محمود ’چیختے جا رہے تھے‘ اور بعدازاں دیگر لوگ بھی اس میں شامل ہو گئے۔

محمود کہتے ہیں کہ ’میں نہیں چاہتا تھا کہ وہاں کوئی ایسا نہ رہے جسے میں بچا نہ پاؤں۔‘

تصویر

اس صبح سینکڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ عام طور پر یہ علاقہ پرسکون ہوتا ہے جہاں زیادہ شور شرابہ نہیں ہوتا مگر اس روز اس علاقے کے رہائشی چیخ رہے تھے اور بھاگ رہے تھے، ان میں سے کچھ نے رات کے کپڑے یا نماز کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔

یہ علاقہ وادی غزہ کے بالکل شمال میں ایک ایسا مقام ہے جہاں سے اسرائیل جنگ کے ابتدائی دنوں میں شہریوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے جنوب کی طرف جانے کا حکم دیتا رہا تھا۔

یہ علاقہ کثیرالمنزلہ فلیٹوں پر مشتمل جدید عمارتوں کے ساتھ ساتھ دکانوں، کیفے، یونیورسٹیوں، سکولوں اور پارکس پر مشتمل تھا۔ لوگ پناہ کی غرض سے قریبی پارکوں میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔

محمود سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ ان کا محلہ کیوں نشانہ بن گیا ہے۔ ’میں نے اسے روکنے کی پوری کوشش کی۔ میں نے پوچھا ’آپ بمباری کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‘

’اس نے کہا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہم جانتے ہیں مگر آپ کو معلوم نہیں۔‘ اس آدمی نے وضاحت نہیں کی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔

محمود کے مطابق اس شخص نے مزید کہا کہ ’یہ حکم اوپر سے آیا ہے، ہمیں بمباری کا حکم ہے۔‘

جب عمارتوں کے آس پاس کے علاقے خالی ہو گئے تو اس شخص نے محمود کو اطلاع دی کہ بمباری شروع ہونے لگی ہے۔

محمود گھبرا گئے کہ اگر غلطی سے غلط عمارت پر بمباری کر دی گئی تو کیا ہو گا؟

اس آدمی نے ان سے کہا کہ ’تھوڑا انتظار کرو۔‘ اور پھر ایک اسرائیلی طیارہ اُن کے سر کے اوپر چکر لگا رہا تھا۔

محمود نے ان تین ٹاورز کو دیکھا جو اس کے اپنے اپارٹمنٹ بلاک کے قریب تھے۔ پھر ان میں سے ایک پر بمباری شروع ہو گئی۔

’یہ وہی ٹاور ہے جس کو ہم نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اس سے دور رہو۔‘ محمود کے مطابق عمارت پر بمباری ہوتے ہی فون پر موجود شخص نے چیخ کر محمود سے کہا۔

اس کے بعد دو دیگر عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا گیا۔

الزہرہ میں اس صبح لی گئی تصاویر میں ان تینوں اپارٹمنٹ ٹاورز کی جگہ ملبہ دکھایا گیا ہے، جبکہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ رہائشیوں کو صدمے اور حیرانی کی حالت میں قریبی علاقوں میں گھومتے ہوئے دیکھا جا رہا تھا۔ یہ حملے کے فوری بعد کا منظر تھا۔

کمیونٹی فیس بک گروپ پر مقامی وقت کے مطابق 08:28 پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ تین ٹاورز کو ’مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔‘

محمود فون پر موجود شخص کی آواز کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب بمباری رک گئی تو اس نے کہا ہم نے اپنا کام ختم کر لیا ہے۔۔۔تم واپس جا سکتے ہو۔‘

تصویر

محمود کی سمجھ میں نہیں آیا کہ انھوں نے ابھی اپنی آنکھوں کے سامنے کیا دیکھا ہے۔ وہ غزہ کے اس محلے میں 15 سال سے مقیم تھے، یہاں دانتوں کا ایک کلینک چلا رہے تھے اور یہیں اپنے بچوں کی پرورش کر رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اسے بتایا کہ الزہرہ ایک شہری علاقہ ہے۔ یہاں کوئی بھی اجنبی نہیں ہے۔۔۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کوئی سرحدی علاقہ نہیں ہے، ہماری ماضی میں جھڑپیں نہیں ہوئیں۔ یہ ہمیشہ سے کسی بھی تنازع سے پاک علاقہ رہا ہے۔‘

اس صبح حملے کے بعد کمیونٹی فیس بک گروپ پر ایک پوسٹ میں پڑوسیوں پر زور دیا گیا کہ وہ بے گھر ہونے والوں کو بستر، کھانا اور پانی فراہم کریں۔

لوگوں نے پناہ گاہ یا بھاگنے کے لیے جگہیں تلاش کیں۔ مقامی حکام نے سڑکوں سے ملبہ ہٹانا شروع کر دیا، اور ملبے میں لگی آگ بجھانا شروع کر دی۔

جن کے گھر بچ گئے تھے وہ واپس وہاں چلے گئے۔ کچھ لوگوں نے تحفظ کا احساس محسوس کیا۔ ایک رہائشی نے ہمیں بتایا کہ ’ہم یہ سوچ کر [گھر] واپس چلے گئے کہ وہ دوبارہ بمباری نہیں کریں گے۔‘

ایک پرائیوٹ نمبر سے مس کال

اُسی دن بعدازاں جب محمود اپنے فلیٹ میں عشا کی نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوئے تھے تو انھوں نے اپنے موبائل پر ایک پرائیویٹ نمبر سے مس کال دیکھی۔

اس مس کال کو دیکھتے ہی محمود کا دل ڈوب گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فوری طور پر میں سمجھ گیا کہ وہاں سے انخلا اور بمباری کی اطلاع کا کہا گیا ہو گا، لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہدف کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ میرا گھر ہو سکتا ہے، یہ میرے ساتھ والا گھر ہو سکتا ہے۔‘

کچھ ہی دیر میں اُن کا فون دوبارہ بجنے لگا۔ اس مرتبہ لائن پر ایک مختلف آدمی تھا۔

فون پر موجود آدمی نے کہا کہ صبح کے واقعات کے بعد انھیں احساس ہوا کہ محمود ایک ’عقل مند آدمی‘ ہیں، اسی لیے وہ اسے دوبارہ فون کر رہے ہیں۔

اس شخص نے اپنا تعارف ’داؤد‘ کے نام سے کروایا۔

اس شخص کے پاس محمود کی زندگی سے متعلق جس قسم کی تفصیلات تھیں وہ سب جان کر محمود گھبرا گئے۔ اس آدمی نے ان سے مخاطب ہو کر ان کے بیٹے کا نام بتایا۔

محمود کے بیان کے مطابق اس شخص نے پھر یہ سمجھانے کی کچھ کوشش کی کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے۔ ’اس نے مجھے بتانا شروع کیا کہ کیا تم نے دیکھا کہ کس طرح انھوں (حماس) نے اُن (اسرائیلی) بچوں کو چھریوں سے ذبح کیا؟۔۔۔‘

محمود یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے اسے بتایا کہ ہمارے اسلامی مذہب کے مطابق یہ حرام ہے۔‘ انھوں نے ’اجتماعی سزا‘ کے خلاف آواز اٹھانے پر زور دیا، لیکن محمود جانتے تھے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

محمود کا کہنا ہے کہ اس شخص نے انھیں بتایا تھا کہ اس رات مزید عمارتیں تباہ ہو جائیں گی اور دانتوں کے ڈاکٹر کو اپنے پڑوسیوں کو ایک بار پھر وہاں سے نکلنے کا حکم دینا ہو گا۔

پہلے تو انھیں بتایا گیا کہ ان کا ہدف ان تین عمارتوں کے ساتھ مزید دو عمارتیں ہیں جو اس صبح تباہ ہو گئی تھیں اور ساتھ ہی ٹاورز کا دوسرا بلاک بھی تھا۔

’اس نے مجھ سے کہا، ہم چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کے لیے مطلع کریں۔ میں نے کہا، آپ کو مجھے وقت دینا چاہیے۔‘

محمود کا کہنا ہے کہ ’ہم نے تمام لوگوں کو نکال لیا اور یہاں تک کہ ایک تیسرے بلاک کو بھی خالی کروا لیا کیونکہ یہ سیکنڈ بلاک کے بہت قریب تھا۔‘

اس وقت الزہرہ زیادہ تر اندھیرے میں تھا۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ بجلی نہیں ہے اور وہ روشنی کے لیے فون اور ٹارچ کا استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ نے اپنے گھروں سے نکلتے وقت پہلے سے پیک شدہ بیگ اٹھا لیے جن میں اضافی کپڑے، پانی، فون اور فرسٹ ایڈ کٹس جیسی چیزیں تھیں۔ کچھ نے ایسا نہیں کیا۔

ایک رہائشی عبداللہ الخطیب کا کہنا ہے کہ ’یہ انتہائی خوفناک تھا۔ہم نہیں جانتے تھے کہ کہاں جانا ہے۔ ہم حقیقتاً صرف باہر بھاگے، کچھ ساتھ نہیں لیا۔‘

’ایک اور شخص نے واٹس ایپ میسج کے ذریعے اس رات کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہا ’کچھ واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بس ہم نے جگہ خالی کی۔ میری توجہ صرف خاندان کے ساتھ محفوظ رہنے پر تھی۔‘

تصویر

محمود زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتے تھے اور اپنے آپ کو داؤد کہنے والے شخص سے اس وقت تک بات کرتے رہے جب تک کہ ہر کوئی علاقے سے نکل نہیں گیا اور اپنی گاڑیوں میں سوار نہیں ہو گیا۔

اور پھر مزید تین عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ جب محمود نے تباہی دیکھی تو فون پر اس شخص نے بتایا کہ مزید تین عمارتوں پر بمباری کی جائے گی اور اس کے بعد رہائشیوں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔

لیکن احکامات میں اچانک تبدیلی آئی۔

محمود کو بتایا گیا کہ وہ سڑک کے مشرقی حصے میں اپارٹمنٹ بلاکس کی پوری قطار پر بمباری کریں گے۔

یہ 20 سے زیادہ ٹاور بلاکس تھے جن میں سینکڑوں گھر تھے۔

’انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے تھے جنھیں ہم نے ابھی تک باہر نہیں نکالا تھا کیونکہ ان عمارتوں کے بارے میں کوئی انتباہ نہیں تھا۔ میں نے اس سے کہا، کم از کم ہمیں صبح تک کا وقت تو دے دو، لوگ کہاں جائیں گے؟ ‘

’اس کا جواب یہ تھا کہ احکامات موصول ہو چکے ہیں اور ہم دو گھنٹے کے اندر اندر تمام ٹاورز کو اڑا دیں گے۔‘

محمود علاقے کو خالی کرنے کے لیے چلائے اور ایک بلاک سے دوسرے بلاک تک بھاگتے رہے۔

رہائشیوں نے بڑوں کے چیخنے اور بچوں کے رونے کے افراتفری کے مناظر بیان کیے ہیں۔ کچھ والدین اور بچے اس افراتفری میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔

گھبراہٹ کے باوجود، محمود پورے وقت فون پر رہے اور بمباری کو مؤخر کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے۔

فون کے دوسرے سرے پر جذبات سے عاری آواز نے اپنی بات جاری رکھی۔

’اس نے مجھ سے یہ بھی کہا ’اپنا وقت لے لو۔ جب تک آپ مجھے اجازت نہیں دیں گے میں بمباری نہیں کروں گا۔‘

’میں نے کہا، ’نہیں، میری اجازت نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم کسی عمارت پر بمباری کرو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں وہاں سے نکل جاؤں تو میں لوگوں کی حفاظت کے لیے وہاں سے نکل جاؤں گا، لیکن اگر آپ بمباری کرنا چاہتے ہیں تو مجھے یہ مت بتائیں کہ آپ کو میری اجازت کی ضرورت ہے۔‘

’یہ محمود شاہین نہیں ہے جو الزہرہ پر بمباری کرے گا۔‘

اپارٹمنٹ کی عمارتوں کے آخری بلاک میں ایک عمر رسیدہ معذور خاتون رہتی تھیں۔

تصویر

محمود اور اس کے آس پاس کے لوگوں نے مقامی لوگوں سے کہا کہ وہ اس تک پہنچنے اور اسے باہر نکالنے کے لیے ’تیزی سے گاڑی چلائیں‘۔

وہ اور دیگر لوگ مقامی معمر افراد کے کیئر ہوم کے بارے میں بھی فکرمند تھے۔ محمود کے مطابق فون پر موجود شخص نے کہا کہ ’وہ رہائشی عمارتوں کو تباہ کر دے گا۔‘

محمود کا کہنا ہے کہ انھوں نے اور ان کے ہمسایوں نے اس رات جو کچھ دیکھا وہ ’کوئی چھوٹی بمباری نہیں تھی‘ بلکہ ’عمارتوں کی مکمل تباہی‘ تھی، کیونکہ رہائشی بلاکس کو ایک ایک کرکے زمین بوس کیا گیا تھا۔‘

’یہ الزہرا کے تمام لوگوں کے لیے بہت مشکل رات تھی۔‘

کمیونٹی کے رہائشیوں کی طرف سے پوسٹ کی گئی تصاویر اور ویڈیو فوٹیج میں اس شام ہونے والی بمباری کے بعد کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔

فیس بک گروپ پر مقامی وقت کے مطابق لگ بھگ سوا نو بجے ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’لزہرہ ٹاورز پر اس وقت بمباری ہو رہی ہے۔ خدا رحم کرے۔‘

ایک رہائشی نے واٹس ایپ پیغام کے ذریعے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گلیوں میں اس وقت ہونے والی افراتفری کو یاد کیا۔ ’ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمیں کہاں جانا چاہیے۔ کچھ نے کہا کہ ہمیں سکولوں میں جا کر پناہ لینی چاہیے، کچھ نے کہا کہ ہمیں النصیرات (جنوب میں ایک پناہ گزین کیمپ) جانا چاہیے۔ اور اسی دوران بم آن گرے۔‘

محمود نے فون پر اس شخص سے پوچھا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو کہاں لے جائیں۔

فون پر موجود شخص نے کہا ’یا تو انھیں مشرقی علاقوں کی طرف لے جاؤ یا مغربی علاقے کی طرف۔‘ میں نے کہا ’انھیں مشرق کی طرف لے جانا مشکل ہو گا، کیونکہ الزہرہ کے مشرق میں المغراقہ ہے جو پہلے سے ہی غیر محفوظ علاقہ ہے۔ لوگ پہلے ہی وہاں جانے سے ڈرتے تھے۔

’اُس نے مجھ سے کہا ’انھیں مغرب کی طرف فلسطین سٹریٹ لے جاؤ۔‘ میں نے فلسطین یونیورسٹی کا مشورہ دیا تو اس نے ’ہاں‘ کہا۔‘

محمود نے اس ہجوم کی قیادت کی، جس میں نہ صرف ٹاور بلاکس کے رہائشی تھے، بلکہ دوسرے بے گھر افراد بھی شامل تھے جنھوں نے شمالی غزہ میں اپنے گھروں سے کسی اور جگہ فرار ہونے کے بعد الزہرہ کے علاقے میں پناہ حاصل کی تھی۔

دیگر رہائشیوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ اُس روز بمباری سے بچنے کے لیے فلسطین یونیورسٹی گئے تھے، اور فیس بک گروپ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں لوگوں کو اُس سمت چلتے اور گاڑی چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

محمود کا کہنا ہے کہ لوگ ڈر کے مارے یونیورسٹی میں انتظار کر رہے تھے، باہر دھماکوں کی آوازیں سن رہے تھے۔ گلیوں میں خوفزدہ کتوں نے خواتین اور بچوں کے درمیان لیٹنے کی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔

ایک موقع پر، محمود کا کہنا ہے کہ فون پر آنے والی آواز نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس کتنی بیٹری رہ گئی ہے۔ اس کے پاس 15 فیصد تھا۔ اُنہوں نے اُسے محفوظ رکھنے کے لیے کہا اور بتایا کہ وہ دوبارہ کال کریں گے۔

اس کے بعد انھیں متواتر چھوٹی چھوٹی کالز آتی رہیں۔

محمود بتاتے ہیں کہ ’وہ مجھے یہ بتانے کے لیے کال کرتے کہ اب ہم فلاں عمارت پر بمباری کریں گے، اب ہم دوسری عمارت پر بمباری کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک فون کرتے رہیں گے جب تک ہم اس علاقے میں اپنا کام ختم نہیں کر لیتے۔‘

جب محمود کی بیٹری ختم ہوئی تو اسی دوران ان کے ساتھ موجود ان کے ایک پڑوسی کے فون کی گھنٹی بجی اور فون کرنے والے نے کہا کہ فون محمود شاہین کو دے دو۔

محمود اس روز پورا دن اپنی بیوی اور پانچ بچوں سے ایک مناسب فاصلے پر رہے کیونکہ اُن کو ڈر تھا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس کے اہلکاروں کے ساتھ رابطے کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

فلسطین یونیورسٹی پہنچ کر وہ اپنی بیوی اور بچوں سے ملے یہ جاننے کے لیے وہ ٹھیک ہیں اور اس چھوٹی سی ملاقات کے بعد وہ دوبارہ ان سے الگ ہو گئے۔

الزہرہ کے مکینوں نے وہ رات جاگتے ہوئے گزاری۔ جان بچا کر اپنی عمارتوں سے نکلنے والے تمام افراد اب اپ ڈیٹس اور سوالوں کے جواب کے لیے محمود کی جانب دیکھ رہے تھے۔

محمود کہتے ہیں کہ ’(وہ) رہائشی کہہ رہے تھے ڈاکٹر، کیا انھوں نے آپ کو فون پر بتایا کہ اب ہم واپس جا سکتے ہیں؟ کیا انھوں نے آپ کو بتایا تھا کہ اب اگلا حملہ وہ کہاں کریں گے؟‘

اب صبح کی پُو پھوٹ چکی تھی۔ کمیونٹی کے فیس بک گروپ پر بمباری کی تصاویر شیئر کی جا رہی تھیں، علاقہ مکینوں کی جانب سے بنائی گئی بمباری کی ویڈیوز میں رات کے وقت آسمان نارنجی نظر آ رہا تھا، جب کہ علی الصبح بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں عمارتوں سے بلند ہوتے سرمئی دھوئیں اور شعلے نظر آ رہے تھے۔

محمود اور فون پر موجود وہ شخص، جس نے اپنا نام داؤد بتایا تھا وہ صبح تک بات کرتے رہے۔ اس کے بعد الزہرہ کے رہائشیوں کے لیے کسی مزید ہدایت کے بغیر کالیں آنے کا سلسلہ اچانک بند ہو گیا۔

محمود کہتے ہیں کہ آخری کام پر ’انھوں نے ہمیں اپنے گھروں کو واپس جانے، یا علاقہ خالی کرنے کے حوالے کوئی ہدایت نہیں دی۔ اس لیے لوگ دوپہر تک انتظار کرتے رہے اور پھر وہ نقل مکانی کرنے لگے۔‘

اس کے بعد کے گھنٹوں اور آنے والے دنوں میں، الزہرہ کے رہائشی غزہ کے دیگر لوگوں کی طرح مختلف علاقوں میں منتشر ہو گئے۔

محمود رہائشی عمارت کے جس بلاک میں رہتے تھے اسے بمباری سے تباہ نہیں کیا گیا، تاہم قرب و جوار میں ہونے والی بمباری کے باعث اسے شدید نقصان پہنچا تھا۔ وہ علاقہ جہاں وہ 15 سال سے رہائش پذیر تھے اور اپنا کلینک چلا رہے تھے اب تقریباً تباہ ہو چکا تھے۔ الزہرا میں اُن کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔

وہ اپنے خاندان کو لے کر غزہ کے ایک اور علاقے میں چلے گئے، جہاں اب وہ اپنے ایک دوست کے گھر میں مقیم ہے۔ وہ پناہ لیے اور بہت سے لوگوں کا ہجوم بھی موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے کلینک یا اپنے گھر کے بارے میں نہیں سوچتا، میں صرف دعا کرتا ہوں کہ میں زندہ رہوں۔‘

’دنیا میں موجود مادی اشیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے، آپ ابھی کسی بھی لمحے مر سکتے ہیں۔ ہم کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے۔‘

اسرائیل کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس نے بمباری سے پہلے غزہ کے باشندوں کو کال کرکے، انتباہی پرچے اور کتابچے چھوڑ کر خبردار کیا تھا۔ لیکن کچھ معاملات میں عام شہریوں کا کہنا ہے کہ انھیں وقت سے پہلے خبردار نہیں کیا گیا تھا۔

اسرائیلی ڈیفنس سروس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حماس نامی دہشت گرد تنظیم کو ختم کرنے کے اسرائیل غزہ کی پٹی میں فوجی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ غزہ میں کیے جانے والے فوجی اہداف پر حملے بین الاقوامی قانون کی متعلقہ دفعات کے تابع تھے جبکہ شہری ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے تمام تر ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں۔

غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کے ہاتھوں 10,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں سے ایک تہائی زیادہ بچے ہیں۔

محمود کی کوششوں کی بدولت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن اس کا کوئی پڑوسی نہیں مرا۔ لیکن اُن کی بات چیت سے فلسطینی کمیونٹی کی گھبراہٹ اور پریشانی کا پتہ چلتا ہے جب انہوں نے اپنے گھروں اور ان کی پسند کی ہر چیز کو اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتے دیکھا۔

اس رپورٹ کے دوسرے حصے میں، ہم آپ کو ان لوگوں کی زندگیوں کی کہانیاں سنائیں گے جو کبھی الزہرا کو اپنا گھر کہتے تھے۔ ایک خوشحال اور متحرک کمیونٹی کی کہانی جو راتوں رات ختم ہو گئی تھی۔

اضافی رپورٹنگ: معاذ الخطیب اور بی بی سی نیوز عربی کی دیما الببیلی

ویژوئل جرنلزم: مائیک ہلز

ویڈیو کی تصدیق: شایان سردارزادہ

ایڈیٹنگ: سموئیل ہورٹی

BBCUrdu.com بشکریہ