معیشت، عسکری قوت، سفارتی اثرورسوخ: چین اور امریکہ طاقت کے توازن کے اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں؟
- مصنف, ریم شیخ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں 16 مارچ کو امریکی مصنف ڈیوڈ اگنیشئس کا ’طاقت کے مراکز والے مشرق وسطیٰ کی راہ ہموار کرنے والا بیجنگ‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا۔
اپنے اس مضمون میں اگنیشئیس نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی ثالثی کے ذریعے حاصل کی گئی سفارتی کامیابی پر تبصرہ کیا اور ساتھ ہی سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر کے ماضی میں کہے جانے والے الفاظ کا بھی حوالہ دیا کہ امریکہ اب دنیا میں واحد ناگزیر طاقت نہیں ہے اور یہ کہ چین کے پاس ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کی طاقت ہے۔
اور رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے اپنے دورۂ چین کے بعد کچھ ایسے بیانات دیے جنھوں نے ایک بڑے تنازعے کو جنم دیا۔ میکخواں نے اپنے بیان میں اس ضرورت پر زور دیا کہ یورپ امریکہ کا ماتحت نہ بنے۔
بعدازاں یورپی کونسل کے صدر نے ان بیانات پر یہ کہتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’یورپی یونین کے رہنما امریکہ سے متعلق تزویراتی آزادی کے حوالے سے میکخواں سے اتفاق کرتے ہیں۔‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کے حالیہ سفارتی اقدامات اور سال 2023 کے لیے اپنے عسکری بجٹ میں اضافے کے اعلان نے چین کے امریکہ کے متوازی طاقت کا مرکز بننے کے امکان کے حوالے میں بہت سے سوالات کو جنم دیا۔
چین اس مقام تک کیسے پہنچا جہاں وہ آج ہے، اور عالمی سطح پر اس کے مقام کو بڑھانے کے لیے کون سے طریقے استعمال کیے گئے؟
معاشی قوت
51 سال قبل 21 فروری 1972 کو دنیا ایک تاریخی دورے سے حیران رہ گئی تھی، جسے بعد میں ’دنیا بدل دینے والے ہفتے‘ کے نام سے جانا گیا۔
امریکہ کے 37 ویں صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کیا تھا جس سے دونوں ممالک کے درمیان دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری کشیدگی کا خاتمہ ہوا تھا اور 1979 میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا آغاز ہوا تھا۔
گذشتہ برسوں کے دوران چین، امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔
’دنیا کی فیکٹری‘ کہلائے جانے والا ملک کاروں سمیت بہت سی بڑی مصنوعات جیسے الیکٹرانک آلات، کپڑے، الیکٹریکل آلات، طبی آلات کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن گیا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2001 میں جب چین نے عالمی تجارتی تنظیم ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں باضابطہ شمولیت اختیار کی تھی، اس وقت چین میں تیار ہونے والی مصنوعات کی مجموعی مالیت 1.34 کھرب ڈالر سے بڑھ گئی تھی اور سنہ 2021 میں یہ 17.73 کھرب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
یہ اعداد و شمار امریکہ کے جی ڈی پی کے مقابلے میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ کی سنہ 2021 میں ملک میں تیار مصنوعات کی مالیت کا کل حجم 23.32 کھرب ڈالر تھا۔
چین میں سستی لیبر فورس اور اس کی کاریگری بہت سی غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ہمیشہ توجہ کا مرکز رہی ہے۔ مثال کے طور پر امریکی کمپنی ایپل کی سب سے بڑی آئی فون فیکٹری چین میں کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ چین دنیا کے بہت سے ممالک کے لیے سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور اس کا تجارتی حجم سنہ 2022 میں 400 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔
شاہراہ ریشم کی بحالی کا منصوبہ
سنہ 2013 میں جب شی جن پنگ چین کے صدر بنے تو وہ بہت پُرعزم خارجہ پالیسی لے کر سامنے آئے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ نامی سٹریٹجک ترقیاتی منصوبے کے تحت قدیم شاہراہ ریشم کو بحال کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔
یہ اقدام جس پر چین اب تک اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے ایک وسیع انفراسٹرکچر کا منصوبہ ہے جس کا مقصد چین کے تجارتی روابط کو بڑھانا ہے۔
اس منصوبے میں شامل ایشیا، افریقہ، عرب دنیا سمیت تقریباً 70 ممالک میں بندرگاہوں، ریلوے سٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور صنعتی کمپلیکس کی تعمیر کے ذریعے چین کو یورپ تک زمینی اور سمندری رسائی حاصل ہو گی۔
دوحہ انسٹیٹیوٹ فار گریجویٹ سٹڈیز میں بین الاقوامی تنازعات کے پروفیسر ابراہیم فریحت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر چین نئی شاہراہ ریشم کی تعمیر میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور سکیورٹی کے معاملات میں بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔‘
تاہم، فریحت کا کہنا ہے کہ انھیں مستقبل قریب میں اس منصوبے کے مکمل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا اور اس کی وجہ اس کی بے پناہ وسعت اور حجم ہے جس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے۔
چین کی تیزی سے بڑھتی اقتصادی طاقت کے بارے میں امریکی امور اور بین الاقوامی تعلقات میں ماہر صحافی ایہاب عباس دونوں ممالک کے درمیان تجارتی توازن کے کردار کی اہمیت اور اس کے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی توازن میں سینکڑوں ارب کی تجارت کے باعث چین کو فوقیت حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ممالک میں معیشت کے حجم کے فرق کے باوجود چین کا امریکہ کی اندرونی معیشت پر، امریکہ کے چین کی اندرونی معیشت سے زیادہ اثر ہے۔‘
عسکری قوت
’گلوبل فائر پاور‘ انڈیکس 2023 کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی، امریکہ اور روس کے بعد دنیا کی تیسری سب سے طاقتور فوج ہے۔
گلوبل فائر انڈیکس دنیا کی طاقتور فوجوں کی درجہ بندی کے لیے 60 سے زیادہ عوامل کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے۔
چینی فوج عددی اعتبار سے بھی سب سے بڑی فوج ہے جس میں فوجیوں کی تعداد 16 لاکھ ہے اور بجٹ کے لحاظ سے امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
جب سے صدر شی جن پنگ نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے فوج کو ترقی دینے اور جدید بنانے کا عمل تیزی سے جاری ہے، کیونکہ چینی صدر اسے سنہ 2049 تک ایک ’عالمی معیار کی طاقت‘ میں تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بحری جنگی جہازوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت بننے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ یہ بحری برتری 484 امریکی بحری یونٹوں کے مقابلے میں 730 چینی بحری یونٹوں تک محدود ہے۔
تاہم امریکہ کو بہت سی بحری صلاحیتوں میں فوقیت حاصل ہے کیونکہ اس کے پاس 11 طیارہ بردار بحری جہاز ہیں، جبکہ چین کے پاس صرف دو بحری جہاز ہیں۔
اسی طرح امریکہ کے پاس چین کے مقابلے میں زیادہ آبدوزیں، لڑاکا بحری جہاز، کروزر اور ایٹمی صلاحیت کے حامل بڑے جنگی جہاز ہیں۔
ہائپرسونک میزائل کی دوڑ میں چین نے سینکڑوں ہائپر سونک بیلسٹک میزائلوں کے تجربے کیے ہیں جن کی نگرانی اور ٹریک کرنا فضائی دفاعی نظام کے لیے مشکل ہے کیونکہ ان کی رفتار آواز کی رفتار سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ہے، اور ان میں پرواز بدلنے اور راستہ بدلنے کی صلاحیت بھی ہے۔
بیجنگ سے ایشیائی امور کے ایک محقق حسین اسماعیل، امریکہ کے مقابلے میں چینی فوجی طاقت کی صلاحیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’چینی عسکری قوت اگلے چند سالوں میں امریکی فوجی طاقت کے برابر ہو سکتی ہے، کیونکہ چینی فوجی میں ترقی اور جدت کی رفتار نے امریکہ اور یہاں تک کہ کچھ بین الاقوامی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔‘
اسماعیل کا مزید کہنا ہے کہ چینی فوجی طاقت اس کے سٹریٹجک مفادات کے علاقوں یعنی جنوب مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل کے علاقے میں تعینات ایک قوت ہے جبکہ امریکی فوج پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے چین کو بحر الکاہل اور تائیوان کے جزیرے کے علاقوں میں فوجی تصادم کے نتیجے میں برتری حاصل ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت
ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کے پاس تقریباً 350 جوہری ہتھیار ہیں، اور اس حقیقت سے کسی کو اختلاف نہیں کہ چین اب بھی امریکی جوہری ہتھیاروں کی تعداد تک پہنچنے سے بہت پیچھے ہے۔ امریکہ کہ پاس 5500 جوہری وار ہیڈز ہے۔
تاہم، چین کی جانب سے جوہری ہتھیاروں میں تیزی سے اضافے نے امریکہ کو ناراض کر دیا ہے، جس سے توقع ہے کہ چین موجودہ دہائی کے آخر تک اپنے جوہری ہتھیاروں کے حجم کو تین گنا کرتے ہوئے سنہ 2035 تک تقریباً 1,500 جوہری صلاحیت کے ہتھیار حاصل کر لے گا۔
چین نے اس متعلق امریکی الزامات کو ’بے بنیاد اور جانبدارانہ قیاس آرائیاں‘ قرار دیا ہے۔
لیکن سٹاک ہوم میں انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے حالیہ برسوں میں اپنے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
چین کی تمام تر فوجی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چین نے 1979 میں ویتنام میں مداخلت کرنے کے بعد سے کوئی جنگ نہیں لڑی۔ اور اس وجہ سے اس کی فوجی صلاحیتیں بڑی حد تک غیر تجربہ شدہ ہیں۔
امریکی امور اور بین الاقوامی تعلقات میں ماہر صحافی ایہاب عباس کہتے ہیں کہ ’کسی ملک کے پاس جوہری ہتھیاروں اور بڑی تعداد میں گولہ بارود ہونے کا مطلب ہے کہ وہ ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔ جدید اور مہلک ہتھیار چند لمحو ں میں دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں۔‘
بین الاقوامی تنازعات میں تصفیہ کے پروفیسر اور اقوام متحدہ کی ماہرین کی کمیٹی کے سابق رکن محمد الشرقاوی کا ماننا ہے کہ امریکی فوجی ٹیکنالوجی چین سے بہت بہتر ہے۔ اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ اب بھی ’یورپ کی قومی سلامتی کو اپنی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘
ڈیجیٹل اور تکنیکی مہارت
چین نے حالیہ برسوں میں مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ جیسے متعدد تکنیکی شعبوں میں ایک بہت ترقی کی ہے۔
سنہ 2022 میں چینی نیشنل انٹلیکچوئل پراپرٹی اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق چین فائیو جی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے بنیادی پیٹنٹ کے تقریباً 40 فیصد کے مالک ہونے کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں بھی سرفہرست ہے۔ جبکہ امریکہ کا نمبر دوسرا ہے۔
سنہ 2019 میں چین نے فائیو جی سروس شروع کی، جسے سات چینی کمپنیوں نے تیار کیا تھا جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر ہواوے ٹیکنالوجی تھی۔
تاہم ڈیٹا کی منتقلی کے لیے تیز رفتار فراہم کرنے والی یہ سروس امریکہ کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھی، جس نے اپنے مغربی اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ اپنے نیٹ ورکس کی تیاری کے لیے ہواوے کو استعمال نہ کریں۔ کیونکہ بیجنگ ان کمپنیوں کو ان ممالک کے مواصلات اور ڈیٹا ٹریفک کی نگرانی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
خلا میں برتری چین کا خواب
چین کا ایک پرجوش اور جدید خلائی پروگرام ہے۔ امریکہ کی جانب سے چین کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں شرکت سے روکنے کے بعد چین نے گذشتہ سال کے آخر میں اپنا ایک مستقل خلائی سٹیشن ’تیانگونگ‘ کو تیار کرنے کا جشن منایا۔ خلائی سٹیشن ’تیانگونگ‘ کے نام کا مطلب ’آسمانی محل‘ ہے۔
اس طرح چین امریکہ اور روس کے بعد خلا میں اپنا خلائی سٹیشن بنانے والا دنیا کا تیسرا ملک بن گیا ہے۔
اگر سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو چینی اپیلی کیشن ٹک ٹاک، جسے دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی ایپلی کیشنز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس نے فیس بک جیسی بہت سی امریکی ایپلی کیشنز کے مقابلے میں اپنی کامیابی ثابت کی ہے۔
ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ چینی ایپلی کیشنز مغربی پلیٹ فارمز کو متاثر کر رہی ہیں اور اگر وہ آگے بڑھتی رہیں تو انٹرنیٹ کی دنیا اس سے بالکل مختلف نظر آئے گی جو ہم آج جانتے ہیں۔
بین الاقوامی تنازعات امور کے پروفیسر اور اقوام متحدہ کی ماہرین کی کمیٹی کے سابق رکن محمد الشرقاوی کا کہنا ہے کہ چین اب بھی تحقیق کے میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔
’کورونا کی وبا نے چینیوں کو یہ ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا کہ وہ امریکی کردار کو نظرانداز کرتے ہوئے دنیا کے ڈاکٹر بننے کے قابل، لیکن یہ مختصر مدت کی کوششیں ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
سفارتی اثر و رسوخ
چین نرم سفارت کاری کا طریقہ اپناتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ بین الاقوامی تنازعات میں غیرجانبدار ہوتا ہے اور اس کے حکام کے مطابق وہ دنیا کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔
حال ہی میں چین نے یوکرین پر روسی جنگ میں امن ثالث کے طور پر کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور گذشتہ شب ایک طویل انتظار کے بعد یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ انھوں نے چینی ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ اور یہ اقدام ان کے لیے نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور فروغ دے گا۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق، گذشتہ ماہ کے دوران چین نے مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کر کے ایک قابل ذکر سفارتی پیش رفت حاصل کی۔ دونوں ممالک کے درمیان 2016 سے سفارتی تعلقات منقطع تھے۔
الشرقاوی اس بارے میں کہتے ہیں کہ چین نے کچھ سفارتی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
’امریکی صدر بائیڈن کے لیے بدقسمتی یہ ہے کہ پرانے مخالف تہران اور ریاض ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر راضی ہے اور یہ مصالحت بیجنگ میں ہوئی ہے۔ یہ امریکی ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے ایک زہریلی مثلث ہے اور اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ چین پر قابو پانے کی پالیسی اب تک بے ثمر رہی ہے۔‘
جبکہ دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ سٹڈیز کے پروفیسر ابراہیم فریحات اس سفارتی پیش رفت کی اہمیت سے زیادہ متفق نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مصالحت میں بغداد اور عمان نے بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔ ان کے مطابق چین اس سب میں اپنے معاشی مفاد کو ترجیح پر رکھنا چاہتا ہے۔
کیا امریکہ کو عالمی قیادت کے تخت سے ہٹایا جا سکتا ہے؟
حالیہ برسوں میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بہت سے اقتصادی، فوجی اور تکنیکی شعبوں میں شدید تناؤ دیکھا گیا ہے۔
حال ہی میں تائیوان کے مسئلے نے دونوں ممالک کے درمیان ایک کشیدہ ماحول پیدا کیا جس کی وجہ سے بحیرۂ جنوبی چین میں فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔
ان واقعات نے نے کئی سوالات کو جنم دیا کہ طاقت کا موجودہ توازن کس حد تک تبدیل ہو سکتا ہے۔
صحافی ایہاب عباس اور محقق حسین اسماعیل، دونوں امریکی امور اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ چین کا مستقبل میں امریکہ سے آگے نکلنے اور اس کے مقابلے میں ایک عالمی قوت بننے کا امکان ہے۔
ایہاب عباس کہتے ہیں کہ چین کو عالمی قوت بننے کے لیے کچھ شرائط پوری کرنا ہوں گی۔
’چین کو اپنے ملک میں بڑھتی عمر کے مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔ کیونکہ چین میں شرح پیدائش میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ معاشی ترقی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔‘
کمیونسٹ پارٹی کو اقتدار میں رہنا چاہیے، کیونکہ یہ چین کی ترقی کے عمل کو تیز کر رہی ہے۔
ایک اور اہم چیز کہ ملک کے ارد گرد کا جغرافیائی ماحول مستحکم رہے، یعنی کوئی فوجی تنازع شروع نہ ہو، چاہے وہ جزیرہ نما کوریا، آبنائے تائیوان، یا بحیرۂ جنوبی چین کے کسی بھی حصے میں ہی کیوں نہ ہو۔‘
جبکہ محمد الشرقاوی کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں چین کے دنیا کی قیادت کرنے کے امکانات روشن نہیں ہیں۔
پروفیسر ابراہیم فریحت اس سلسلے میں الشرقوی سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’چین کے پاس امریکہ کی طرح ’جمہوریت اور انسانی حقوق کو فروغ‘ دینے کا کوئی پیغام موجود نہیں ہے۔‘
فریحات کا مزید کہنا ہے کہ ان کی تقریباً دو ہفتے قبل ایک چینی اہلکار سے بات ہوئی تھی جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ’چین کی دنیا کی قیادت کرنے یا یہاں تک کہ سکیورٹی کا کردار ادا کرنے کی کوئی خواہش یا صلاحیت نہیں ہے، اور یہ کہ ملک صرف دنیا بھر میں اقتصادی توسیع کا خواہاں ہے۔‘
ان تمام حقائق کی روشنی میں امریکہ اور چین کے تعلقات میں شراکت داری یا تصادم کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دنیا بھر میں وسیع تر اثر و رسوخ کے لیے چینی عزائم اور عروج کے امریکی خدشے کے درمیان دونوں ممالک میں تعلقات احتیاط اور توقع کے تحت چل رہے ہیں۔
Comments are closed.