سوڈان میں پھنسے پاکستانی: ’جب ہماری فیکڑی میں گولیاں گرنا شروع ہوئیں تو فیصلہ کیا کہ اب یہاں رُکنا مناسب نہیں‘

courtesy of Abdullah

،تصویر کا ذریعہAbdullah

،تصویر کا کیپشن

سوڈان پورٹ پر موجود پاکستانی۔ تصویر میں پاکستانی سفارتکار (درمیان) میر بہروز ریکی بھی موجود ہیں

  • مصنف, محمد زبیر خان
  • عہدہ, صحافی

’جب ہماری فیکڑی میں گولیاں گرنا شروع ہوئیں اور حالات بدتر ہونا شروع ہوئے تو اس وقت فیصلہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اب سوڈان میں ہمارا مزید رُکنا مناسب نہیں ہے۔ دارالحکومت خرطوم میں پاکستان کے سفارتخانے کی جانب سے قائم کردہ پاکستان ہاؤس تک مشکل سفر کیا تھا۔ اب پورٹ پر پہنچ کر انتظار میں ہیں کہ ہمیں کب جدہ (سعودی عرب) اور پھر پاکستان پہنچایا جاتا ہے۔‘

یہ کہنا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے اوزہیر احمد کے جو اِس وقت سوڈان پورٹ میں موجود ہیں اور جدہ کے لیے بحری سفر کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں۔

اوزہیر احمد کوبر کے صنعتی علاقے میں ایک پاکستانی صنعتکار کی فیکڑی میں اپنے بھائی کے ہمراہ ملازمت کرتے ہیں اور گذشتہ تین سالوں سے سوڈان میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق سوڈان میں موجود پاکستانی سفارت خانہ یہاں مقیم پاکستانیوں کے انخلا میں مدد فراہم کر رہا ہے اور پاکستانیوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اب سے کچھ دیر قبل کی گئی ٹویٹ میں وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ پورٹ سوڈان سے 37 پاکستانیوں کو لے کر ایک بحری جہاز جدہ پہنچا ہے۔

اس سے قبل وزیرخارجہ بلاول بھٹو زردرای نے بتایا تھا کہ 211 پاکستانیوں کا ایک قافلہ بحفاظت پورٹ سوڈان پہنچ گیا ہے۔ انھوں نے سوڈان میں پھنسے پاکستانوں کے انخلا کے حوالے سے سہولیات فراہم کرنے پر خطے کے دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا تھا۔

دارالحکومت خرطوم کا مرکزی ایئرپورٹ ان شدید جھڑپوں کا مرکز ہے اور یہ نیم فوجی گروہ آر ایس ایف کے زیرِ قبضہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انخلا کے لیے بحیرہ احمر میں بندرگاہِ سوڈان کا رخ کیا جا رہا ہے جو خرطوم سے 850 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

اس دوران متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو سوڈان سے نکالنے کے لیے آپریشنز کیے ہیں۔ سعودی عرب نے بحری جہاز کے ذریعے 150 افراد کا سوڈان سے انخلا ممکن بنایا جن میں غیر ملکی سفارتکار بھی شامل تھے۔

g

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اوزہیر احمد اور تقریباً 427 افراد کا قافلہ جس میں کچھ خاندان بھی شامل ہیں پورٹ سوڈان میں پاکستانی سفارت خانے کی ایک عمارت میں مقیم ہیں۔ یہ قافلہ طویل سفر کرکے پیر کے روز پورٹ سوڈان پہنچا ہے جبکہ دوسرا قافلہ جس میں 211 افراد شامل ہیں وہ منگل کے روز پورٹ سوڈان پہنچا تھا۔

پاکستانیوں پر مشتمل تیسرے قافلے نے منگل کی رات اپنا سفر شروع کیا ہے۔ اس میں کتنے افراد شامل ہیں، اس بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ سوڈان میں انخلا کے منتظر پاکستانیوں کے مطابق بسوں کے قافلے میں بیٹھنے کی جگہ دستیاب نہ ہونے پر کچھ لوگ کھڑے ہو کر بھی سفر کر رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ بدھ کی شام کسی وقت پورٹ سوڈان پہنچ جائے گا۔

اوزہیر احمد اور ان کے ساتھی نہیں جانتے کہ ان کا سعودی عرب کی طرف سفر کب شروع ہو گا۔ رابطے کے باوجود پاکستان میں وزرات خارجہ کی ترجمان اور سوڈان میں موجود سفارت خانے نے بھی اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دی ہیں۔

سوڈان میں موجود سفارت خانے کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت پاکستانیوں کو انخلا میں مدد فراہم کرنے میں مصروف بے حد مصروف ہیں اور یہ کہ اس ضمن میں تمام معلومات پاکستان میں وزارت خارجہ کے پاس موجود ہیں۔

اوزہیر احمد کہتے ہیں کہ ’جب تنازع شروع ہوا تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اپنی ملازمت کو چھوڑ کر جائیں مگر عید سے ایک ہفتہ پہلے تو حالات بہت زیادہ خراب ہونا شروع ہوئے۔ ہر وقت میزائل اور راکٹوں کی آوازیں آتی تھیں، سرکاری فوج کے جیٹ طیارے بھی فضاؤں میں اڑتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری فیکڑی کے ساتھ ہی آرمی سپر مارکیٹ تھی، وہاں پر بھی بم گرائے گئے تھے۔ اب صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ گولیاں ہماری فیکڑی میں گرنا شروع ہوئیں تو مالک نے کہا کہ کام بند کرو اور واپسی کا انتظام کرو۔‘

’دوران سفر 15 مقامات پر روکا گیا‘

اوزہیر احمد بتاتے ہیں کہ پاکستانی سفارت خانے نے پاکستانیوں کے لیے واٹس ایپ گروپ بنایا اور اس میں اعلان کیا گیا کہ جو لوگ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں ان کو مدد فراہم کی جائے گی اور وہ خرطوم میں پاکستان ہاؤس پہنچ جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگوں کو فیکٹری کے مالک نے ایک گاڑی میں بٹھایا اور ہم سب ایک ساتھ چل پڑے تھے۔ بظاہر تو پاکستان ہاؤس تک ہمارا سفر مشکل نہیں تھا مگر اس دوران حکومت مخالف مسلح گروہوں نے جگہ جگہ پر اپنی چیک پوسٹیں قائم کی ہوئی تھیں۔ وہ ہر چیک پوسٹ پر گاڑی کو روکتے،، لوگوں کی شناخت پوچھتے اور یہ دیکھتے تھے کہ ہم کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔‘

اوزہیر احمد کا کہنا تھا کہ ’سفر کے دوران ہمیں 15 مقامات پر روکا گیا تھا۔ پاکستانی شناخت دیکھ کر وہ جانے دیتے ایک دو چیک پوسٹوں پر انھوں نے کہا ہم سے پوچھا کہ ہم میں کوئی مصر کا شہری تو موجود نہیں ہے۔ شک پڑنے پر انھوں نے چند مسافروں کے کاغذات چیک بھی کیے اور پھر جانے دیا تھا۔‘

courtesy of Abdullah

،تصویر کا ذریعہcourtesy of Abdullah

،تصویر کا کیپشن

پورٹ پر موجود وہ پاکستانی جن کی رہائش کا فی الحال بندوبست نہیں ہو سکا ہے

محمد احسن سمیع کیمیکل انجینیئر ہیں اور اپنے خاندان کے ہمراہ سفر کر کے سوڈان پورٹ تک پہنچے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت سوڈان میں سفر کرنا بہت مشکل ہے۔ پہلا مسئلہ تو بسوں کی عدم دستیابی ہے، جو دستیاب ہیں وہ بہت زیادہ کرایہ مانگتی ہیں، دوسرا مسئلہ پیڑول اور ڈیزل کی عدم دستیابی کا بھی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے جن بسوں میں سفر کیا انھوں نے منھ مانگے کرائے وصول کیے تھے، راستے میں ان بس والوں نے غیر روایتی طریقوں سے ایندھن بھی حاصل کیا۔‘

محمد احسن سمیع کا کہنا تھا کہ ’غیر سرکاری فوجوں نے سویلین آبادی میں پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔ وہاں پر بھاری اسلحہ بھی چھپایا ہوا ہے۔ کسی وقت اعلان تو کیا جاتا ہے کہ سیز فائر ہے مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے، ہر وقت فائرنگ جاری رہتی ہے۔‘

’ان حالات کے سبب ہم لوگ تقریباً 24 گھنٹے کا مشکل سفر کر کے پورٹ سوڈان پہنچے ہیں۔ جہاں پر ہمیں ایک عمارت میں ٹھہرایا گیا ہے۔‘

محمد احسن سمیع اور اوزہیر احمد تو خوش قسمت ثابت ہوئے کہ انھوں کو پورٹ سوڈان میں رہائش کے لیے جگہ مل گئی ہے۔ مگر دوسرا قافلے کے افراد اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے اور وہ ابھی تک رہائش کا انتظام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

courtesy of Abdullah

،تصویر کا ذریعہcourtesy of Abdullah

عبداللہ کا تعلق پشاور سے ہے۔ وہ دوسرے قافلے کے ہمراہ پورٹ سوڈان پہنچے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں پورٹ سوڈان پہنچے ہوئے کافی وقت گزر چکا ہے اور جن لوگوں کے ہمراہ خاندان موجود تھے انھیں تو رہائش دی گئی ہے مگر باقی لوگوں کو رہائش کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہوئی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہم لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے خود ہی کوئی رہائش حاصل کر لیں مگر ابھی تک ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ ہمیں کوئی رہائش مل سکے گی۔ سفارت خانے کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی کوشش کررہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

عبداللہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی سفارت خانے نے ہم سے کرائے کے کوئی پیسے نہیں لیے ہیں۔ مناسب کھانا پینا بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہ مشکل وقت تھا جس میں یہ سہولت ملنا بہت بڑی مدد تھی۔ مگر اب رہائش نہیں ہے تو کھلے آسمان تلے کیسے زندگی رات بسر کر سکتے ہیں۔ یہ بھی نہیں پتا کہ کتنے دن اور رات اِدھر رکنا پڑے گا۔‘

اس حوالے سے سوڈان میں پاکستانی سفارت خانے اور وزارت خارجہ کے ترجمان سے رابطہ قائم کیا گیا ہے مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

مگر محمد احسن سمیع کہتے ہیں کہ ’یہ جنگ کی صورتحال ہے۔ پورٹ سوڈان پر غیر ملکیوں کا رش ہے۔ لگ نہیں رہا کہ وہاں پر کوئی عمارت خالی ہو گئی۔ اس طرح ان حالات میں ہر چیز کے کرائے اور قیمتیں بھی بہت بڑھ چکی ہیں اور بینک بھی بند ہیں، ایسے میں پیسوں کا انتظام کرنا بھی مشکل ہے۔‘

عبداللہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سوڈان میں پیسوں کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صورتحال ناخوشگوار ہے۔ یہ صورتحال حادثات کو جنم دے سکتی ہے۔ کھلے آسمان تلے لوٹ مار کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ ہم نے سارے سفر میں اپنا موبائل باہر نہیں نکالا کہ کوئی لوٹ نہ لے۔‘

’پاکستانی لوٹ مار کا بھی نشانہ بنے ہیں‘

re

،تصویر کا ذریعہReuters

اوزہیر احمد کہتے ہیں کہ ’ان حالات میں چند پاکستانیوں کے ساتھ لوٹ مار کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔ ایک پاکستانی صنعتکار کی ماچس فیکڑی کو لوٹا گیا ہے۔‘

محمد احسن سمیع بتاتے ہیں کہ ’ایک پاکستانی کی سٹیل فیکڑی میں بھی واقعہ ہوا ہے۔ اس طرح کچھ لوگوں کے گھروں میں بھی وہ دیواریں کود کر اندر داخل ہو گئے تھے۔ ان لوگوں سے پکا ہوا کھانا، راشن، موبائل اور جو بھی نقدی وغیرہ تھی سب لوٹ کر لے گئے تھے۔‘

اوزہیر احمد کہتے ہیں کہ ’ہمارے ساتھ ایسے پاکستانی موجود ہیں جن کے پاسپورٹ وغیرہ چوری کی واردات کے دوران چھین لیے گئے ہیں۔ کسی پاکستانی کا زیادہ نقصان نہیں ہوا کیونکہ سب کو اندازہ تھا کہ اس طرح ہو سکتا ہے اس لیے انھوں نے زیادہ نقدی وغیرہ ساتھ نہیں رکھی تھی۔‘

جن کے پاسپورٹ چھن گئے یا گم ہو چکے ہیں، ان کے پاسپورٹ پاکستانی سفارتی عملہ پورٹ سوڈان پر تیار کر رہا ہے۔

سوڈان میں ہو کیا رہا ہے؟

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور ملک کے بہت سے دوسرے حصوں میں خانہ جنگی کے بعد زندگی نے اچانک بد سے بد تر قسم کا انتہائی ڈرامائی موڑ لے لیا ہے۔

اس کے مرکز میں دو جرنیل ہیں: عبدالفتاح البرہان، سوڈانی مسلح افواج ایس اے ایف کے سربراہ، اور ’حميدتی‘ کے نام سے مشہور جنرل محمد حمدان دقلو، نیم فوجی دستوں ’ریپڈ سپورٹ فورسز‘ آر ایس ایف (RSF) کے سربراہ۔

دونوں نے اکھٹے فوج میں کام کیا ہے اور اب مل کر بغاوت بھی کی۔ اب ان کی بالادستی کی جنگ سوڈان کو بری طرح سے متاثر کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ سوڈان کی آزادی کے بعد کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں فوج اقتدار پر قابض رہی ہے۔

اس جاری خانہ جنگی اور بالادستی کی جنگ میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ