فن تعمیر کا اعلیٰ ترین اعزاز ’کنگز رائل گولڈ میڈل‘ حاصل کرنے والی پاکستانی ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری کون ہیں؟

www.architecture.com

،تصویر کا ذریعہwww.architecture.com

پاکستانی ماہرِ تعمیرات پروفیسر یاسمین لاری کو برطانیہ میں فنِ تعمیر کے حوالے سے دنیا کا اعلیٰ ترین اعزاز ’کنگز رائل گولڈ میڈل‘ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کسی شخصیت کو اس کے کام کے اعتراف میں دیے جانے والے اس میڈل کی منظوری شاہ برطانیہ خود دیتے ہیں۔ یہ ایوارڈ کسی ایسے شخص یا گروپ کو دیا جاتا ہے جن کے کام سے فن تعمیر میں اہم پیش رفت ہوئی ہو۔

ریبا (RIBA) کی ویب سائٹ کے مطابق جب یاسمین کو بتایا گیا کہ انھیں ایوارڈ دیا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ خبر سُن کر بہت حیران تو ہوئی مگر بہت خوش بھی ہوئی۔‘

یاسمین کا کہنا تھا کہ ’جب میں اپنے ملک کے سب سے پسماندہ لوگوں پر توجہ مرکوز کر رہی تھی اور نامعوم رستوں پر بھٹک رہی تھی، تب میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اسی کے لیے مجھے تعمیرات کے اعلیٰ ترین اعزاز کا حقدار سمجھا جا سکتا ہے۔‘

ریبا نے ماہرِِ تعمیرات کو مراعات یافتہ طبقے کے ساتھ ساتھ انسانیت پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دی ہے، خاص کر ایسے افراد پر جو جنگوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔

یاسمین لاری کون ہیں اور ان کے کام میں خاص کیا ہے؟

www.architecture.com

،تصویر کا ذریعہwww.architecture.com

یاسمین لاری کا کریئر کنکریٹ اور سٹیل کے گرد گھومتا رہا ہے۔

انھوں نے کراچی کی ایف ٹی سی بلڈنگ سمیت کئی بلند و بالا عمارتوں کی بنیاد رکھی، لیکن اب وہ اس مٹیریل سے بغاوت کر چکی ہیں اور ماحول دوست مکانات بنانے کے مشن پر گامزن ہیں۔

یاسمین لاری لاہور کے شاہی قلعے کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے سائنس، تعلیم اور ثقافت یونیسکو کی مشیر بھی رہی ہیں۔

اسی دوران 2005 میں کشمیر میں زلزلہ آگیا اور بقول یاسمین لاری کے یہ زلزلہ ان سمیت کئی لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لایا۔

پاکستان میں 2010 اور 2011 میں آنے والے سیلاب اور بعد میں زلزلوں نے یاسمین لاری کو ’کم قیمت‘ مکانات کی تعمیر کا موقع فراہم کیا۔

’میں نے جو کچھ سیکھا ہے، وہ پرانی قدروں سے سیکھا ہے‘

،ویڈیو کیپشن

یاسمین لاری: عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہرِ تعمیرات جن کی سوچ 2005 کے زلزلے نے بدل دی

سنہ 2020 میں بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں یاسمین لاری کا کہنا تھا کہ ’ہر کوئی ’سٹار آرکیٹیکٹ‘ بننا چاہتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں بنائیں‘ ان کا بھی وہ ہی حال تھا اور تقریباً 36 سال انھوں نے یہی کیا۔

’اس وقت دنیا اور تھی۔ کھپت مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ خیال نہیں آیا کہ ہم دنیا کے وسائل ختم کرتے جا رہے ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ کیا تباہی آئی ہے۔ ہم نے زمین کو بری طرح سے استعمال کیا ہے۔ قدرتی آفات بڑھ گئی ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے سیلاب آ رہے ہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے یہ سوچا کہ تعمیرات میں مقامی طریقوں اور زمین کو کیسے استعمال کروں؟ اس میں چونے کا بڑا ہاتھ تھا۔ جو تاریخی عمارتیں ہیں، ان کے تحفظ میں چونے کا استعمال ہوتا ہے۔ وہ میں نے وہاں سے سیکھا اور بعد میں زلزلے سے متاثرہ علاقے میں یہی استعمال کیا۔ اس کی وجہ سے ہمارے گھر بڑے سستے بنتے تھے اور لوگ خود بنا سکتے تھے۔ لکڑی ہو یا پتھر، اس سے ہم نے تعمیرات کیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے جو کچھ سیکھا ہے، وہ پرانی قدروں سے سیکھا ہے۔ میں جو بھی ڈیزائن کرتی ہوں وہ ورنیکیولر روایات (دیسی طرزِ تعمیر) ہیں یا تاریخی عمارتوں کی مرمت سے سیکھا۔‘

’مٹی، چونے اور بانس کا استعمال‘

bbc

یاسمین لاری نے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں مکلی قبرستان کے قریب اپنا ماڈل ولیج بنایا ہے اور ہیریٹیج فاؤنڈیشن نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے زیرو کاربن یا ماحول دوست تعمیرات کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔

ان کی تعمیرات میں مٹی، چونے اور بانس کا استعمال عام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مٹی ہر جگہ موجود ہے۔ چونا ایک قدیم میٹریل ہے جو اہرامِ مصر، رومن طرز تعمیر اور جو بڑے بڑے قلعے ہیں، ان میں بھی استعمال ہوا۔‘

’1990 کی دہائی سے چوںکہ سیمنٹ کا دور دورہ شروع ہو گیا اس لیے عام لوگ صرف سیمنٹ کو جانتے ہیں حالانکہ چونے میں سے سب کم کاربن کا اخراج ہوتا ہے اور یہ ہوا سے کاربن کو جذب بھی کرتا ہے۔ مٹی دوبارہ جا کر مٹی میں مل سکتی ہے اور بانس کی فصل ہر دو سال کے بعد مل جاتی ہے۔ لکڑی استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

www.architecture.com

،تصویر کا ذریعہwww.architecture.com

یاسمین لاری نے پنج گوشہ اور اگلو سٹائل سمیت جیومیٹری کی مختلف اشکال کے گھر بنائے ہیں جو ایک کمرے سے لے کر تین کمروں تک پر مشتمل ہیں، جن کی دیواریں مٹی جبکہ چھت، دروازے، کھڑکیاں اور دروازے بانس سے بنے ہوئے ہیں۔

یاسمین لاری کے مطابق یہ بانس کا پری فیب یا پہلے سے تیار شدہ گھر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو ایک ڈھانچہ دیتے ہیں جس کی فنیشنگ وہ خود کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ٹوائلٹ جو بھی بانس سے بنتا ہے اور ہینڈ پمپ جو پانچ لوگ شیئر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ چولھا بھی ہوتا ہے جس کو پاکستان چولھے کا نام دیا ہے اور اس کو عالمی ایوراڈ مل چکا ہے۔ ان سب چیزوں کی لاگت تقریبا 27 ہزار روپے بنتی ہے۔‘

یاسمین لاری کے مطابق یہ گھر گرمی میں ٹھنڈا بھی رہتا ہے جبکہ کنکریٹ بہت زیادہ گرم ہوجاتا ہے۔ ’دیہاتوں میں ماحول مختلف ہے، وہاں ضرورت ہی نہیں ہے کہ کنکریٹ یا سٹیل کا استعمال کریں۔ جو تعمیرات کے پرانے طریقے ہیں، ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ہم ایسی چیزیں کریں جو غریبوں کے لیے مناسب ہوں۔ ہمیں یہ فکر نہیں کرنی چاہیے کہ یہ امیروں کے لیے اچھی ہیں یا نہیں؟‘

BBCUrdu.com بشکریہ