’معجزوں‘ سے مریضوں کو صحتیاب کرنے والا پادری جو دنیا بھر سے آئی خواتین کا ہفتے میں کئی بار ریپ کرتا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ٹی بی جوشوا نائجیریا اور پوری دنیا میں ایک بااثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے
- مصنف, چارلی نارتھکاٹ اور ہیلن سپونر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، افریقہ آئی
ٹی بی جوشوا ایک بااثر اور مقبول نائجیرین پادری تھے جنھوں نے نائجیریا کے شہر لاگوس میں دنیا کے سب سے بڑے ایونجیلیکل گرجا گھروں میں سے ایک کی بنیاد رکھی تھی۔ بی بی سی کی جانب سے کی گئی تحقیقات، جو تین براعظموں پر محیط ہیں، کے مطابق انھوں نے بڑے پیمانے پر جنسی جرائم کا ارتکاب کیا۔ درجنوں متاثرین سے کیے گئے انٹرویوز کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا کہ پادری جوشوا نے دنیا بھر کی نوجوان خواتین کا متعدد مرتبہ ریپ کیا اور یہ سلسلہ بلاروک ٹوک 20 سال تک جاری رہا۔
انتباہ: اس رپورٹ میں تشدد، ریپ اور خودکشی جیسے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو کچھ قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔
سنہ 2002 میں برطانیہ میں موسمِ سرما کے وسط میں 21 سالہ رے لاپتہ ہو گئیں۔
ان کے دوستوں نے انھیں آخری مرتبہ برائٹن میں اُن کی یونیورسٹی میں دیکھا تھا۔ یونیورسٹی میں وہ گرافک ڈیزائن کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور ساحلِ سمندر سے 25 منٹ کے فاصلے پر واقع ایک مکان میں رہ رہی تھیں جہاں دیگر افراد بھی ان کے ہمراہ رہائش پزیر تھے۔ اپنے دوست احباب میں رے مقبول بھی تھیں اور ذہین بھی۔
رے کی اُس وقت کی بہترین سہیلی کارلا کے مطابق ’میرے لیے یہ (رے کا لاپتہ ہو جانا) ایسے ہی تھا جیسے وہ مر گئی ہوں لیکن میں اس ’موت‘ کا سوگ نہیں منا سکتی تھی۔‘
کارلا کو معلوم تھا کہ رے کہاں گئی ہیں لیکن اس حوالے سے دوستوں کو سچائی کو بتانا بہت مشکل تھا۔ رے کے ’لاپتہ‘ ہونے سے چند ہفتے قبل کارلا اور رے اکٹھی نائجیریا گئی تھیں، ایک ایسے پُراسرار شخص کی تلاش میں جس کے ہاتھوں میں جادوئی شفا تھی اور وہ بظاہر اپنے ہاتھوں سے لوگوں کے دکھ درد اور بیماریوں کا علاج کر دیتا تھا۔
وہ پراسرار شخص ایک مسیحی پادری تھا جس کے چہرے پر کالی داڑھی سجی تھی اور جو سفید چوغے میں ملبوس ہوتا تھا۔ اُن کا نام ٹی بی جوشوا تھا اور اُن کے ماننے والے انھیں ’دی پرافٹ‘ (پیغمبر) کہا کرتے تھے۔
اگرچہ رے اور کارلا نے ایک ہفتے کے لیے ٹی بی جوشوا کے چرچ ’دی سائناگاگ چرچ آف آل نیشنز‘ جانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن رے اس سفر سے کبھی واپس نہ لوٹیں۔ نائجیریا پہنچ کر وہ جوشوا کے کمپاؤنڈ میں رہنے لگیں۔
کارلا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جب انھوں نے بی بی سی کو یہ بتایا کہ ’میں نے اسے وہیں چھوڑ دیا۔ میں نے کبھی بھی خود کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے معاف نہیں کیا۔‘
افریقہ کے سب سے بڑے شہر لاگوس کے ایک علاقے اکوتن میں یہ چرچ بظاہر ایک پُراسرار مندر کی طرح دِکھتا ہے۔ جوشوا نے اس چرچ کے ساتھ موجود کمپاؤنڈ (رہائشی عمارت) کی تمام 12 منزلیں ڈیزائن کی تھیں جہاں وہ اپنے متعدد ماننے والوں کے ساتھ رہتے تھے۔
انھوں نے اپنے بیڈروم تک جانے والی متعدد سیڑھیوں کی تعمیر خود کروائی تھی۔ اس کمرے کے تین دروازے تھے۔ عمارت میں ایک خفیہ عبادت گاہ بھی تھی جس میں چھوٹے چھوٹے شیشے تھے اور اُن کا ایک اپنا ’کلینک‘ بھی۔
ہم نے 25 سے زیادہ ایسے افراد سے بات کی ہے جو اس رہائشی عمارت کے مکین رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ ایک کنکریٹ سے بنی بھول بھلیاں تھی اور ایک ڈراؤنے خواب جیسی دنیا، جس میں حقیقت کہیں دور رہ جاتی ہے اور خوفناک واقعات پیش آتے ہیں۔
متعدد خواتین نے بتایا کہ جوشوا نے اُن پر جنسی حملے کیے، جبکہ بہت سی خواتین کا دعویٰ ہے کہ اس عمارت کے بند کمروں میں متعدد بار ان کا ریپ کیا گیا۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ انھیں ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہونے کے بعد اسقاطِ حمل کروانے پر مجبور کیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہCarla Sturt
تصویر میں کارلا (بائیں طرف) رے کے ساتھ ہیں اور کہتی ہیں کہ انھیں اس بات پر بہت افسوس ہے کہ وہ اپنی دوست کے بغیر نائجیریا سے گھر واپس آ گئیں
آج کل رے انگلینڈ میں واقع اپنے گاؤں میں ایک چھوٹے سے خوبصورت گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ بظاہر ان کے چہرے پر مسکراہٹ سجی رہتی ہے لیکن اندر سے وہ خاصی بے چین ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بظاہر میں بالکل ٹھیک نظر آتی ہوں لیکن میں (ٹھیک) نہیں ہوں۔‘
جب رے لاگوس میں گزرے اپنے وقت کے بارے میں بات کرتی ہیں تو ان کے ہونٹ اکڑ جاتے ہیں۔ بات کرتے کرتے ان کی سانس پھولنے لگتی ہے۔ کبھی کبھار ان کے چہرے کا رنگ فق ہو جاتا ہے۔ انھوں نے 12 سال جوشوا کے کمپاؤنڈ میں گزارے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کہانی ایک ڈراؤنی فلم کی طرح ہے۔ یہ ایسا ہے کہ آپ کوئی کہانی افسانے کے طور پر سُنیں لیکن حقیقت میں وہ سچ ہو۔‘
اس ضمن میں دو سال پر محیط تحقیقات کو بی بی سی نے بین الاقوامی میڈیا پلیٹ فارم ’اوپن ڈیموکریسی‘ کے اشتراک سے مکمل کیا گیا ہے جس میں تین براعظموں میں بی بی سی کے 15 سے زیادہ صحافیوں کی خدمات شامل تھیں۔
انھوں نے پرانی ویڈیو ریکارڈنگز، دستاویزات اور سینکڑوں گھنٹوں کے انٹرویوز کر کے رے کی جانب سے دیے گئے بیان کی تصدیق کی ہے اور متعدد خوفناک کہانیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
25 سے زیادہ عینی شاہدین جن کا تعلق برطانیہ، نائجیریا، گھانا، امریکہ، جنوبی افریقہ اور جرمنی سے ہے، نے جوشوا کے کمپاؤنڈ کے بارے میں بیانات دیے ہیں اور اس دوران ان کے تازہ ترین تجربات سنہ 2019 کے ہیں۔
’دی سائناگاگ چرچ آف آل نیشنز‘ نے ان الزمات پر کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے لیکن کہا ہے کہ ماضی میں کیے گئے (اسی نوعیت کے) دعوے بے بنیاد ثابت ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ جوشوا کے سابق پیروکاروں (مریدوں) نے ماضی میں اس زیادتی کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اُن کا کہنا ہے کہ انھیں چرچ کی جانب سے یا تو زور زبردستی خاموش کروا دیا گیا یا انھیں بدنام کروایا گیا۔ جوشوا کے دو سابق پیروکار ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے آواز اٹھائے جانے کے بعد ان پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔
جب ’بی بی سی افریقہ آئی‘ کی جانب سے چرچ کے باہر فلمنگ کی جا رہی تھی تو ایک سکیورٹی گارڈ نے فلم بنانے والوں کے سر کے تھوڑا اوپر فائر کیا کیونکہ وہ فلم کیا گیا مواد سکیورٹی گارڈ کو دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔
اکثر افراد جنھیں ہم نے انٹرویو کیا ہے انھوں نے شناخت چھپانے کے اپنے قانونی حق کو استعمال نہیں کیا اور کہا ہے کہ ان کا اصل نام تحریر میں شامل کیا جائے مگر خاندانی نام ظاہر نہ کیا جائے۔ دیگر افراد کی جانب سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے کیونکہ انھیں سخت ردِعمل کا ڈر ہے۔
چرچ کا مرکزی کردار دراصل افریقی تاریخ کا سب سے زیادہ بااثر پادری ٹی بی جوشوا تھا۔ جون 2021 میں اچانک ان کی موت ہو گئی، یہ وہ وقت تھا جب ہم نے اس تحقیق کے لیے اپنے پہلے انٹرویوز ریکارڈ کر لیے تھے۔
ان کی آخری رسومات کے دن لاگوس میں سوگواران کے ہجوم کے باعث گلیوں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
ٹی بی جوشوا کی جانب سے قائم کردہ ’سائناگاگ چرچ آف آل نیشنز‘ کے اندر کا منظر
قریب 50 ہزار سے زیادہ ماننے والے ہر جوشوا کی ہفتہ وار سروسز سے فائدہ اٹھاتے تھے اور اُن کا قائم کردہ چرچ نائجیریا آنے والے غیر ملکیوں کے لیے بھی ایک مقبول جگہ بن گئی تھی۔ ان کا گلوبل ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر مقبول چینلز اور پیجز دنیا میں مذہبی مسیحی نیٹ ورکس میں سب سے مقبول تھا اور کروڑوں دیکھنے والے یورپ، امریکہ، جنوب وسطی ایشیا اور افریقہ سے انھیں دیکھتے تھے۔ ان کے یوٹیوب چینل پر نشر ہونے والی ہر ہر ویڈیو کو کروڑوں افراد دیکھتے تھے۔
ان کا چرچ آج بھی خاصا مقبول ہے اور اب اسے اُن کی بیوہ اویلن جوشوا شاگردوں کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر چلا رہی ہیں۔
سنہ 2013 میں نیلسن منڈیلا کی بیٹی سے کیے گیے انٹرویو میں جوشوا کی تصویر سابق جنوبی افریقی صدر کے ڈیسک پر پڑی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی زندگی میں جوشوا درجنوں سیاست دانوں اور مقبول شخصیات کو اپنے چرچ میں مدعو کرنے میں کامیاب رہے جن میں چیلسی فٹبال کلب کے لیجنڈ ڈڈیئر ڈرگبا، اور نو افریقی صدور شامل ہیں۔
ان کے اکثر مداحوں کو ان کی جانب سے کیے گئے فلاحی کام اپنی جانب راغب کرتے تھے لیکن زیادہ تر کو ان کی جانب سے دکھائے جانے والے ’معجزوں‘ میں دلچسپی تھی۔ جوشوا نے اپنے پورے کریئر میں حیرت انگیز طور پر لوگوں کا ’صحتیاب‘ ہوتے ہوئے فلمایا ہے۔ جوشوا کی جانب سے ان کے بارے میں دعا کرنے کے بعد متعدد افراد نے کیمرے پر یہ کہا کہ انھیں کینسر، ایچ آئی وی/ایڈز اور آدھے سر کے درد اور بینائی کی کمزوری اور اندھے پن سے نجات ملی ہے۔
افریقہ میں مذہب پر رپورٹ کرنے والے صحافی سولومن اشومز کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔ اُن کی پراسراریت اور اُن کے راز ہی وہ چیزیں تھیں جن کے باعث لوگ ان کی پیروی کرتے تھے۔‘
متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایسے مرد حضرات جن کے عضو تناسل شدید انفیکشن کا شکار تھے، جوشوا کی جانب سے دعا کی غرض سے ہاتھ فضا میں اٹھاتے ہی مکمل طور ٹھیک ہو جاتے۔ دیگر ویڈیوز میں خواتین کو بچے پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا اور جوشوا کے آتے ہی وہ بچہ پیدا کر دیتیں۔ ہر ایسے واقعے کے بعد ان ویڈیوز میں موجود افراد بیان ریکارڈ کرواتے کہ کیسے انھیں بچا لیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہJourneyman Pictures
جوشوا کے ایک سابق پیروکار کے مطابق ٹی بی جوشوا جان بوجھ کر مغربی شہریت رکھنے والے افراد کو اپنے برانڈ کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے تھے
جوشوا کی جانب سے لوگوں کے صحتیاب کرنے کے حوالے سے ویڈیوز سنہ 1990 اور 2000 کے اوائل میں افریقہ اور یورپ کے ایونجیلک گرجا گھروں سے شیئر کی جا رہی تھیں۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والی رے کا بچپن ایک قدامت پسند مسیحی ماحول میں گزرا تھا اور انھوں نے یہ ویڈیوز دیکھنے کے بعد لاگوس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ویڈیوز پہلی مرتبہ انھیں اُن کی جنوبی افریقی دوست نے دکھائی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہم جنس پرست تھی اور میں ایسا نہیں ہونا چاہتی تھی۔ میں سوچتی تھی شاید یہی میرے مسائل کا حل ہے۔ شاید یہ شخص مجھے ہم جنس پرستی سے نجات دلا دے یعنی اگر وہ میرے لیے دعا کرے تو میں ہم جنس پرست نہ رہوں۔‘
ایک اور برطانوی خاتون انیکا کا کہنا ہے کہ وہ بھی ان ویڈیوز سے بہت متاثر ہوئی تھیں۔
انیکا بھی ان خواتین میں شامل تھیں جو ان ’معجزاتی‘ ویڈیوز سے بہت متاثر ہوئی تھیں
وہ اس وقت 16 برس کی تھیں جب انھوں نے یہ ویڈیو ٹیپس دیکھی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’پورا کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔‘
انھوں نے سوچا کہ ’حضرت عیسیٰ ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے۔‘ انیکا نے بھی نائجیریا کا سفر کیا تھا۔
نہ ہی رے اور نہ ہی انیکا اور نہ دیگر نوجوان خواتین و مرد جنھوں نے جوشوا سے ملنے کے لیے نائجیریا کا رخت سفر باندھا انھیں اس سفر کے لیے اپنی جیب سے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑا۔ انگلینڈ بھر سے چرچ گروپس نے فنڈ اکٹھے کیے اور لاگوس میں ان مغربی شہریوں کو بھیجا تاکہ وہ افریقہ میں ہونے والے ان ’معجزوں‘ کا خود مشاہدہ کر سکیں۔
چرچ میں رہنے والے سینیئر سابق اہلکاروں کے مطابق جوشوا نے اپنے چرچ کے چندے کے پیسے بھی اس کام میں ڈالے۔ تاہم جب چرچ کو بہتر انداز میں چلایا جانے لگا تو انھوں نے یہاں آنے والوں سے بھاری رقم وصول کرنا شروع کر دیں۔
بسولا ایک نائجیرین خاتون ہیں اور انھوں نے اس جوشوا کے کمپاؤنڈ میں 14 سال گزارے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ مغربی ممالک سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا سب سے اہم تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے سفید فام افراد کو اپنے برانڈ کو مارکیٹ کرنے کے لیے استعمال کیا۔‘
چرچ کے سابق اہلکاروں کا اندازہ ہے کہ جوشوا نے یہاں آنے والے افراد اور دیگر ذرائع آمدن جیسے فنڈ ریزنگ، ویڈیوز کی فروخت اور بیرونِ ملک سٹیڈیمز میں جا کر بھی کروڑوں ڈالر کمائے۔ وہ شدید غربت سے نکل کر افریقہ کے امیر ترین پادری بن گئے تھے۔
آگوموہ پال کا کہنا ہے کہ وہ ’معجزات‘ کی پروڈکشن کے کام کو دیکھتے تھے
آگوموہ پال کو جوشوا کا نائب تصور کیے جاتا تھا اور انھوں نے کمپاؤنڈ میں دس سال گزارے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ شخص ایک جینیئس تھا۔۔۔ وہ جو بھی کرتا وہ پہلے سے منصوبے کے تحت کرتا۔‘
آگوموہ پال نے ان ’معجزوں‘ کی فلمنگ کی نگرانی کی تھی جو جوشوا کی جانب سے حقیقت کی طرح پیش کیے جاتے تھے اور ان کی جانب سے کی گئی منصوبہ بندی کا ایک بڑا حصہ یہی ’معجزے‘ ہوتے تھے۔
آگوموہ اور دیگر افراد بتاتے ہیں کہ جنھیں ’شفا‘ ملتی انھیں دراصل اس دوران فنکاری کرنے یا مبینہ صحتیابی سے پہلے اپنی علامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے پیسے دیے جاتے تھے۔ ان کے مطابق کئی مرتبہ تو لوگوں کو بتائے بغیر ادویات دی گئیں یا ایسی چیزیں پلائی گئیں کہ ان کے گرجا گھر میں رہتے ہوئے صورتحال بہتر ہو جائے اور پھر ان سے صحتیابی سے متعلق بیان ریکارڈ کروا دیا جاتا۔ کچھ کے ساتھ غلط بیانی کی جاتی کہ ان کا ایچ آئی وی/ ایڈز کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور پھر جوشوا کی وجہ سے اب وہ وائرس سے مکمل طور پر نجات پانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
جب رے لاگوس کی تپتی ہوئی گرمی میں چرچ پہنچیں تو انھیں بھی وہاں معجزے نظر آئے۔ درجنوں افراد نے آ کر بیانات دیے کہ انھیں بیماری کے بعد شفا مل گئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس پر میرا ردِعمل بہت غیر ارادی تھا۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا۔‘
یہ وہ موقع تھا جب رے کو چنا گیا۔ جوشوا نے انھیں ان پیروکاروں کے ایلیٹ گروپ کے لیے چُنا جو اُن کی خاطر تواضع کرتا تھا اور ان کے ساتھ کمپاؤنڈ میں رہتا تھا۔
رے کا خیال تھا کہ وہ جوشوا سے یہ تعلیم حاصل کریں گی کہ وہ اپنے ہم جنس پرستی کے مسئلے سے ’صحتیاب‘ ہو سکتی ہیں۔
حقیقت اس سے بہت مختلف تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سب نے سوچا کہ ہم جنت میں ہیں لیکن اصل میں ہم جہنم میں تھے۔ اور جہنم میں بہت ِخوفناک چیزیں ہوتی ہیں۔‘
21ویں صدی کی سب سے زیادہ طاقتور شخصیات میں سے ایک کے کمپاؤنڈ میں متعدد افراد کا خوفناک بھول بھلیوں کا سفر جس میں خوفناک تشدد کیا جاتا تھا۔
رے سمیت جن سابق پیروکاروں سے ہم نے انٹرویو کیے انھوں نے جوشوا کی جانب سے ریپ اور جنسی تشدد کرنے کے الزامات عائد کیے۔ اکثر کا کہنا ہے کہ یہ ان کی کمپاؤنڈ میں موجودگی کے دوران متعدد مرتبہ ہوتا، کئی دفعہ ایک ہفتے میں 2 سے چار مرتبہ۔ کچھ نے پرتشدد ریپ کی کہانیاں سنائیں جس کے باعث انھیں سانس لینے میں دشواری ہوئی یا اُن کا خون بہنے لگا۔
اکثر خواتین کا ماننا تھا کہ وہ یہ سمجھتی رہیں کہ یہ جنسی تشدد صرف انھی پر کیا جا رہا ہے چنانچہ وہ اپنی کہانیاں دوسرے پیروکاروں یا مریدوں سے شیئر کرنے کی جرات نہیں کرتی تھیں کیونکہ اُن سب کو ایک دوسرے کی شکایتیں لگانے کا کہا جاتا تھا۔
وکٹوریا جن کا نام ان کی حفاظت کی غرض سے تبدیل کیا جا رہا ہے نے اس کمپاؤنڈ میں پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا۔ وہ بتاتی ہیں کہ جوشوا چرچ میں عبادت کے عمل کے دوران جنسی تشدد کے لیے خواتین کا انتخاب خود کرتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں بھی چرچ کے سنڈے سکول میں جاتے ہوئے ایک دن چن لیا گیا تھا اور ان کے والدین نے انھیں جوشوا کے زیرِ سرپرستی دینے کی اجازت دی تھی۔ پھر کئی ماہ تک جوشوا نے انھیں اپنے نجی کوارٹرز میں جا کر ریپ کیا اور اس کے بعد انھیں کمپاؤنڈ میں رہائش دے دی گئی۔
وکٹوریا کا کہنا ہے کہ جوشوا نائجیریا کے مقامی اور اپنے سب سے زیادہ بااعتماد لوگوں کو نئے متاثرین چننے کا کام دیتا تھا۔ اس گروپ کو غیر رسمی طور ’دی فشنگ ڈیپارٹمنٹ‘ کا نام دیا گیا تھا اور وہ کہتی ہیں کہ انھیں بھی اس ڈیپارٹمنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجبور کر لیا گیا۔
ایک اور مرید جسے اس گھناؤنے چناؤ کا کام دیا گیا تھا وہ بسولا تھیں۔
بسولا کا کہنا ہے کہ جوشوا نے انھیں نوجوان لڑکیاں چننے کے لیے مجبور کیا تاکہ وہ ان پر تشدد کر سکیں
وہ کہتی ہیں کہ ’ٹی بی جوشوا نے مجھے کنواری خواتین رکھنے کی ہدایت کی۔ تاکہ وہ انھیں اپنا شاگرد بنا کر ان کا کنوارپن ختم کر سکے۔‘
وہ اس کام میں حصہ دار دو وجوہات کی بنا پر بنیں: ایک تو یہ کہ ان کے ’ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی‘ اور دوسرا ان کو تشدد کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں بھی جوشوا نے متعدد مرتبہ ریپ کیا تھا۔
اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ وہ رضامندی کی قانونی عمر جو لاگوس میں 18 برس ہے، سے چھوٹی تھیں جب انھیں ریپ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نائجیریا میں ریپ کے جرم پر سزائے موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔
جیسیکا کیمو اب نمبیا میں براڈکاسٹ صحافی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس وقت 17 سال کی تھیں اور کنواری تھیں جب جوشوا نے انھیں اپنے پینٹ ہاؤس کے باتھ روم ریپ کیا تھا۔ انھیں جوشوا کی شاگردی اختیار کیے ابھی چند ہی ہفتے ہوئے تھے۔
جیسیکا کائمو کہتی ہیں کہ ٹی بی جوشوا نے انھیں متعدد مرتبہ ریپ کیا
وہ کہتی ہیں کہ ’میں چیخ رہی تھی اور وہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ مجھے ایک بچی کے جیسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ میں بہت خوفزدہ ہو گئی تھی، میں رو بھی نہیں سکی۔‘
جیسیکا کہتی ہیں کہ ایسا ان کے ساتھ بار بار ہوا، ان کے پیروکار رہنے کے پانچ سال تک۔ ان کی کہانی ان دیگر خواتین کی کہانیوں کے عین مطابق ہے جنھوں نے بی بی سی سے بات کی ہے۔ اس کے علاوہ جوشوا کے چار مرد نوکروں نے بھی ان کی کہانی کی تصدیق کی ہے جنھیں انھوں نے اس قسم کے تشدد کے شواہد مٹانے کے لیے رکھا ہوا تھا۔
ہم نے جن افراد کے انٹرویوز کیے ہیں ان میں سے اکثر کے بیانات کی تفصیلات اس قدر افسوسناک ہیں کہ انھیں شائع نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں ایسی خواتین کی جانب سے دیے گئے بیانات ہیں جن میں انھیں ننگا کیا گیا اور انھیں مختلف چیزوں کی مدد سے ریپ کیا گیا۔ ان میں سے ایک خاتون کے مطابق ان کے ساتھ یہ 15 سال کی عمر سے پہلے دو مرتبہ کیا گیا۔
یہ خاتون اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت تکلیف دہ تھا، اس نے میرا استحصال کیا۔ میں الفاظ میں شاید کبھی نہ بتا پاؤں۔ اس نے مجھ پر زندگی بھر کے لیے ان مٹ نقوش چھوڑ دیے۔‘
متعدد خواتین جن سے ہم نے انٹرویوز کیے بتاتی ہیں کہ کیسے ان کا جوشوا نے ریپ کیا اور پھر انھیں کمپاؤنڈ میں ہی اسقاطِ حمل پر مجبور کیا گیا، جو ایک ایک ایسے ایریا میں کیا گیا جسے ’میڈیکل ڈیپارٹمنٹ‘ یا ’کلینک‘ کہا جاتا ہے۔
سہلی کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے اور وہ بھی جوشوا کی پیروکار رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں انھیں تین مرتبہ چرچ میں اسقاطِ حمل پر مجبور کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سب کچھ رازداری میں کیا جاتا تھا۔‘
’آپ کو کوئی مشروب پینے کو دیا جاتا ہے اور پھر آپ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ یا وہ آپ کی اندام نہانی میں دھات کے ٹکڑے ڈالتے تھے اور باہر کچھ بھی کھینچ لیتے تھے۔ آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کہیں انھوں نے (غلطی سے) آپ کی بچہ دانی تو باہر نہیں کھینچ لی۔‘
سہلی کے ساتھ جیسیکا بھی اپنے انٹرویو کے دوران روتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں پانچ مرتبہ زبردستی اسقاطِ حمل کے مراحل سے گزرنا پڑا۔
بسولا کے مطابق انھوں نے چرچ میں 14 سال کے دوران درجنوں مرتبہ اسقاطِ حمل ہوتے دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی مرتبہ میں کمپاؤنڈ کی سب سے اونچی منزل پر چڑھ کر رو دیتی اور خدا سے دعا کرتی کہ وہ مجھے بچا لے۔
ان کے پیروکار ان کی ہر ضرورت پوری کرتے۔ ان کی مالش کرتے، انھیں کپڑے پہنانے میں مدد کرتے، جب وہ کمرے میں داخل ہوتے تو ان پر پرفیوم چھڑکتے۔ وہ ان کے ہاتھوں پر پلاسٹک گلوز پہناتے تاکہ وہ بغیر کسی چیز کو چھوئے کھانا کھا سکیں۔
انھیں ان کے نام سے پکارنے کی بجائے انھیں کہا جاتا تھا کہ وہ انھیں ’ڈیڈی‘ کہہ کر پکارا کریں۔ نائجیریا میں پادریوں کو اس لقب سے پکارنا کوئی نئی بات بھی نہیں ہے لیکن ان کے پیروکاروں کے مطابق وہ اس بات پر زور دیتے تھے۔
انیکا کہتی ہیں کہ ’میرا دماغ مکمل طور پر ہل چکا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے حقیقت میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہEmmanuel TV, SCOAN
رے کو چرچ کی براڈکاسٹ میں دیکھا جا سکتا ہے، جوشوا کے پیروکاروں کے مطابق انھیں ہر روز چرچ کے لیے متعدد گھنٹے بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑتا تھا
رے کہتی ہیں کہ وہ سیڑھیوں کی بھول بھلیاں تھی۔ سنہ 2014 میں اس تعمیر کے باعث بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جب چھ منزلہ گیسٹ ہاؤس جسے بین الاقوامی مہمانوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ منہدم ہوا اور 116 افراد ہلاک ہو گئے۔
مقامی حکومت کی جانب سے جاری کی گئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ ڈھانچے کی کمزوری اور ناقص تعمیر تھی جس کے باعث عمارت منہدم ہوئی۔ تاہم کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔
جن افراد سے ہم نے انٹرویو کیے انھوں نے ہمیں بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ ہلاکتوں کی تعدد اس سے کہیں زیادہ تھی اور متعدد ایسے مقامی افراد کا نام اس متاثرین کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا جو اس وقت گیسٹ ہاؤس پر کام کر رہے تھے۔ انھیں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ چرچ حکام کی جانب سے ریسکیو کرتے اکثر افراد کی لاشوں کو رات کے وقت چھپا دیا گیا تھا۔
ان کے مطابق جوشوا نے ایمرجنسی سروسز کو ریسکیو میں مدد کرنے سے روکے رکھا کیونکہ انھیں اپنی عوامی شناخت اور پروفائل خراب ہونے کا ڈر تھا۔ ہمارے ذرائع کے مطابق مواصلات پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہوتی تھی۔
رے کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے چرچ چھوڑا تب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی فیملی اور دوست انھیں ای میلز بھیج رہے تھے۔ لیکن انھیں یہ کبھی نہیں ملیں۔
جوشوا اپنے پیروکاروں کی فون تک رسائی اور ای میل اکاؤنٹ کا استعمال محدود کر دیتے تھے۔ آگوموہ پال کہتے ہیں کہ ’وہ ہر کسی کو اور ہر چیز کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا۔ وہ دراصل لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘
سابقہ پیروکار کہتے ہیں کہ انھیں ہر روز کئی گھنٹے بغیر تنخواہ کے کام کروایا جاتا تھا جس دوران وہ چرچ کی تمام ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے تھے۔ سب یہی کہتے ہیں کہ انھیں نیند پوری کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا اور ان کے سونے کے کمروں میں رات کو لائٹس جلا کر رکھی جاتی تھیں۔
انیکا کے مطابق انھیں ایک وقت میں چار گھنٹے سے زیادہ سونے کا وقت نہیں ملتا تھا۔
یہ چرچ آج بھی خاصا مقبول ہے اور اب اس کی سربراہی جوشوا کی بیوہ اویلن کر رہی ہیں
اگر کوئی بغیر اجازت سوتا دکھائی دیتا یا جوشوا کے قواعد کی خلاف ورزی کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔ 19 سابقہ پیروکاروں کی جانب سے ایسے پرتشدد حملے یا تشدد کے عینی شاہد ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے جو جوشوا کے احکامات پر کیے گئے۔
دیگر پیروکار بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے کپڑے پھاڑے گئے انھیں بجلی کی تاروں اور چابک سے مارا گیا۔ جنھیں اس انداز میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان میں ٹریننگ کرنے والے پیروکار بھی تھے جن کی عمریں سات سال تک کی تھیں۔
لاگوس کے کمپاؤنڈ میں 12 فٹ لمبی دیوار تھی جس پر مسلح چوکیدار بیٹھے تھے لیکن جس چیز نے پیروکاروں کو وہاں رکنے پر مجبور کیا وہ جوشوا سے وفاداری اور اس کی جانب سے پیدا کیا گیا خوف تھا کہ اگر وہ بھاگے تو کیا ہو سکتا ہے۔
رے کہتی ہیں کہ ’وہ ایک نفسیاتی جیل تھی۔ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ کوئی اس حد تک نفسیاتی استحصال سہنے کے بعد کیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتا ہے۔‘
رے کا کہنا ہے کہ ان کے لیے نفسیاتی تشدد وہ چیز ہے جس نے ان پر گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ کہتی ہیں کہ جوشوا نے ان پر ایک ایسی قسم کا تشدد کیا جسے ’اڈوب‘ کہا جاتا ہے اور ایسا اس نے دو سالوں تک کیا۔ اس عرصے میں ان پر کمپاؤنڈ سے نکلنے کی پابندی ہوتی اور اس کے اندر کسی کو بھی ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں مکمل طور پر اکیلی تھی۔ میں ٹوٹ چکی تھی۔ میں نے پانچ مرتبہ خودکشی کرنے کی کوشش کی۔
رے اب برطانیہ واپس پہنچ چکی ہیں لیکن انھوں نے اس چرچ سے منسلک کمپاؤنڈ میں 12 اذیت ناک سال گزارے
جب رے کی ہمت کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو ان کے ذہن میں اچانک کچھ بدل گیا۔ ان کو 12 سال تک پڑھایا جانے والا سبق اب ان کے سامنے عیاں ہونے لگا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس نے بہت بڑی غلطی کی، اس کا مجھ پر موجود کنٹرول ختم ہو گیا۔‘
جب وہ چرچ کے لوگوں کے ساتھ میکسیکو کے دورے پر گئیں تو وہ باقی پیروکاروں سے بچ کر نکل گئیں اور پھر کبھی واپس نہیں گئیں۔
اب ان کی زندگی بہت مختلف ہے لیکن انھیں اس مایوسی کے ساتھ جینا ہے کہ جوشوا کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ٹی بی جوشوا کی انصاف کے نظام کا سامنا کرنے سے پہلے ہلاکت بہت زیادہ مایوس کن ہے۔ اس سے ہم سب متاثرین کے دلوں میں ناانصافی کا احساس مزید ابھر آیا ہے۔‘
ہم نے چرچ سے تمام الزامات کے بارے میں رابطہ کیا۔ انھوں نے کسی بھی الزام کا جواب نہیں دیا، تاہم ماضی میں لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔
انھوں نے لکھا کہ ’ٹی بی جوشوا سے متعلق بے بنیاد الزامات لگانا کوئی نئی بات نہیں ہیں۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی الزام کبھی بھی ثابت نہیں کیا گیا۔‘
اضافی رپورٹنگ: میگی اینڈریسن، یمیسی ایڈیگوک اور اینیس وارڈ۔
Comments are closed.