’محبت کے لیے آپ کچھ بھی کر گزرتے ہیں‘: محبت ایسی داستان جو بین الاقوامی سکینڈل بن گئی

اندندا کی پیدائش ان کے والدین کی شادی کے تین سال بعد ہوئی

،تصویر کا ذریعہSUPPLIED

،تصویر کا کیپشن

اندندا کی پیدائش ان کے والدین کی شادی کے تین سال بعد ہوئی

  • مصنف, جیرمی بال
  • عہدہ, بی بی سی، ناٹنگھم

یہ وہ داستان محبت ہے جس نے نسلی امتیاز پر مبنی ایک ایسے سکینڈل کو جنم دیا جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی اور یہ اخباروں کی زینت بنی۔

یہ کہانی ایک سفید فام برطانوی مشنری خاتون روتھ ہولوے کی ہے جو افریقی ملک کینیا کے ایک سیاہ فام شخص جان کیمیو کی محبت میں گرفتار ہو گئیں۔

جان نابینا افراد کی فلاح کے لیے بنائے گئے ایک ادارے میں کام کرتے تھے جہاں روتھ بھی ملازمت کر رہی تھیں اور جب انھوں نے اعلان کیا کہ وہ جان سے شادی کر رہی ہیں تو وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

اب ان کی بیٹی اندندا کیمویو نے اپنے والدین کی محبت کی کہانی کے بارے میں ایک کتاب لکھنا شروع کی ہے جو سنہ 1957 میں ناقابل یقین حد تک ناموافق حالات میں شروع ہوئی تھی۔

روتھ اس وقت صرف 19 سال کی تھیں جب انھوں نے کینیا کے لیے رختِ سفر باندھا تھا۔ وہ ناٹنگھم شائر مائننگ ٹاؤن کرکبی-ان-ایشفیلڈ میں پیدا ہوئیں اور وہیں ان کا پچپن گزرا۔

اندندا
،تصویر کا کیپشن

اندندا کو اپنے والدین کی محبت کی کہانی نے بہت متاثر کیا

ان کو کینیا کے ایک نابینا شخص سے اس وقت پیار ہو گیا جبکہ کینیا ایک خطرناک دوڑ سے گزر رہا تھا۔

کینیا لینڈ اینڈ فریڈم آرمی جسے ماؤ ماؤ کے نام سے جانا جاتا ہے وہ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کے لیے لڑ رہے تھے۔

جب جوڑے نے شادی کے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کیا تو اندندا کے مطابق ان کی والدہ روتھ نے اپنے مالکان اور والدین کو مطلع کرنے کے لیے واپس برطانیہ جانے کے لیے ایک کشتی بک کروائی۔

جب وہ وہاں پہنچیں تو انھیں ایسے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جس کا انھیں گمان بھی نہ تھا۔

اندندا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس سفر کے دوران، سالویشن آرمی نے انھیں نوکری سے محروم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘

شادی

،تصویر کا ذریعہSUPPLIED

،تصویر کا کیپشن

ان کی شادی اس وقت بہت بڑی بات تھی

‘میں نے شادی کی انگوٹھی خریدی، اسے کیک میں اس کی تیاری کے دوران چھپایا اور اسے جہاز کے ذریعے واپس کینیا چھپا کر لائیں۔‘

ان کی شادی خاص طور پر متنازع بن گئی کیونکہ روتھ کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ سیاہ فام کینیائی باشندے سے شادی کرنے والی پہلی سفید فام یورپی خاتون تھیں۔

شادی کی تقریب میں خود رجسٹرار نے بھی مداخلت کی۔ انھوں نے شادی تو کر دی لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ وہ شادی سے متفق نہیں ہیں۔

اندندا نے کہا کہ ان کی شادی کی خبر برطانیہ اور کینیا سے لے کر امریکہ تک کے اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت بنی اور کچھ رپورٹس میں کہا گیا کہ اس سے نسلی فسادات کا خطرہ پیدا ہو گيا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سب سے بڑی مخالفت شاید کینیا میں سفید فام تنظیموں کی طرف سے تھی جو ایسا بالکل نہیں چاہتے تھے۔

’میری ماں جیت نہیں سکتی تھیں، میرے والد جیت نہیں سکتے تھے۔ چند مثبت مضامین شائع ہوئے لیکن عام طور پر اس بارے میں کوریج انتہائی نسل پرستانہ تھے۔‘

اخبار کے تراشے

،تصویر کا ذریعہSUPPLIED

،تصویر کا کیپشن

اخبار کے تراشے جن میں ان کی شادی کی خبریں شائع ہوئیں

اندندا ان کی شادی کے تین سال بعد پیدا ہوئیں اور ان کا اپنے والد سے زیادہ قریبی تعلق بنا۔ لیکن کینیا کی آزادی کے بعد ان کی پانچویں سالگرہ سے پہلے ان کا خاندان ٹوٹ گیا۔

جوڑے نے 1965 میں فیصلہ کیا کہ روتھ کو اندندا اور اس کی دو بہنوں کو واپس برطانیہ لے جانا چاہیے۔

اندندا نے کہا کہ ’ہم واقعی پریشان تھے۔ ہم ایک چھوٹا سا سوٹ کیس اور اپنی پیٹھ پر کپڑے لادے آئے تھے اور تب سے ہم یہاں رہ رہے ہیں۔

’میرے والد کے لیے وہ بہت مشکل وقت تھا۔ مجھے پتا ہے کہ (میری والدہ کا) نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا، لیکن وہ آگے بڑھتی رہیں۔‘

اندندا نے کہا کہ ان کے والدین کا خیال تھا کہ ایک نابینا آدمی کو برطانیہ میں کام نہیں ملے گا۔ اس لیے جان کینیا میں ہی رہے جہاں ان کی پولیس میں سوئچ بورڈ کی نوکری تھی۔

بغاوت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماؤ ماؤ کی بغاوت میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں گئیں

وہ روتھ کے ساتھ ریل ٹو ریل ٹیپ ریکارڈنگ بھیج کر رابطے میں رہے۔ اندندا کہتی ہیں کہ انھوں نے آج بھی ان ٹیپس کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی ماں نے اس دوران مثبت رہنے کی کوشش کی لیکن اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہ پانا ان کے لیے ‘دل سوز’ واقعہ تھا۔

روتھ کا تقریباً 30 سال قبل وفات پائی گئیں جبکہ جان نے دوبارہ شادی کی اور ان کی 90 سال کی دہائی میں پہنچ کر رواں سال نومبر میں وفات ہوئی۔

اندندا گذشتہ ماہ اپنے والد کی آخری رسومات میں تقریر کرنے کے لیے کینیا پہنچی تھیں۔ یعنی وہ 30 سال میں پہلی بار اپنے آبائی ملک پہنچی تھیں۔

آبائی گھر کے سفر نے انھیں اپنے والدین کی کہانی پر ایک کتاب لکھنے کی ترغیب دی۔

اندندا کے والد کا انتقال 90 سال کی دہائی میں رواں سال ہوا

،تصویر کا ذریعہSUPPLIED

،تصویر کا کیپشن

اندندا کے والد کی وفات 90 کے پیٹے میں رواں سال ہوئی

‘میں برآمدے میں گئی جہاں میری والدہ کی آواز مجھے صاف صاف سنائی دے رہی تھی کیونکہ یہ میری روح میں بسی ہوئی تھی۔

’میری ماں کی آواز مجھے بار بار وہ ساری کہانیاں سنا رہی تھی، جو انھوں نے مجھے برسوں سے سنائی تھی اور میری انگلیاں کی بورڈ سے باتیں کر رہی تھیں۔‘

اندندا نے کہا کہ ان کے والدین تاریخ کو بدلنے کی ‘بنیاد’ بنے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم اب ایک مختلف دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ حیرت انگیز ہے۔

’لیکن یہ محبت ہے۔ محبت کے لیے آپ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ اس کے لیے آپ پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ یہ محبت ہی تھی جس نے انھیں اکٹھا کیا اور محبت نے انھیں اس کے لیے لڑنے پر مجبور کیا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ