اسرائیل کا حماس کے سینکڑوں افراد گرفتار کرنے کا دعویٰ، بائیڈن کا شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ

غزہ جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, اولیور سلو اور جیمز فٹزجیرالڈ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے گذشتہ ہفتے حماس اور اسلامی جہاد کے 200 افراد گرفتار کیے ہیں جنھیں تفتیش کے لیے وہ اپنے علاقے میں لے گئے ہیں۔

بیان کے مطابق کچھ مشتبہ افراد شہری آبادی میں چھپے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی مرضی سے ہتھیار ڈال دیے۔

اسرائیل نے کہا کہ ’حماس کے خاتمے‘ کے لیے شروع کیے گئے فوجی آپریشن اور اس کے لیے غزہ میں مداخلت کے آغاز سے لے کر اب تک 700 فلسطینی عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

حماس نے کہا ہے کہ اسرائیلیوں کارروائیوں میں اکثر خواتین اور بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ اسرائیل نے ماضی میں کہا تھا کہ وہ ایسے اقدامات کرتا ہے کہ شہری ہلاکتیں نہ ہوں۔ اس نے حماس پر الزام لگایا ہے کہ اس نے خود کو گنجان آبادی میں چھپایا ہوا ہے۔

ادھر امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے غزہ میں جاری فوجی آپریشن پر بذریعہ فون تبادلہ خیال کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اس دوران بائیڈن نے شہری آبادی کی حفاظت اور امدادی کارروائیوں کی معاونت پر زور دیا۔ ’شہریوں کو جنگ زدہ علاقوں سے محفوظ انداز میں نکلنے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘

اسرائیلی پی ایم آفس کے مطابق نتن یاہو نے واضح کیا کہ ’اہداف کے حصول تک اسرائیل جنگ جاری رکھے گا۔‘

7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے جبکہ قریب 240 کو یرغمال بنایا گیا۔

حماس کے زیرِ انتظام فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں میں ہلاکتوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 53 ہزار زخمی ہیں۔

سنیچر کی اطلاع کے مطابق جمعے کو 201 کی ہلاکتیں ہوئیں اور مختلف حملوں میں 368 زخمی ہوئے۔

اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ اس کے 56 سالہ امدادی کارکن عصام المغربی ایک فضائی حملے میں اپنی بیوی اور بچوں سمیت ہلاک ہوئے ہیں۔ اس حملے میں ان کے خاندان کے 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اسرائیلی حکام کے مطابق غزہ میں جاری لڑائی کے دوران اس کے پانچ مزید فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ زمینی آپریشن میں اب تک 144 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی غزہ میں بمباری جاری ہے اور اس نے مختلف علاقوں میں شہریوں کو نقل مکانی کا حکم دے رکھا ہے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق سنیچر کو اس کے ایک جنگی طیارے نے حسن الاطرش کو ہلاک کیا ہے۔ وہ ان پر غزہ میں ہتھیار سمگل کر کے حماس تک پہنچانے کا الزام لگاتے تھے۔ حماس نے تاحال اس کی تصدیق نہیں کی۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے پاس غزہ کی پٹی کے شمالی حصے کا قریب مکمل آپریشنل کنٹرول ہے۔ اس کی جانب سے جنوب میں بھی کارروائیاں بڑھائی جا رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق نقل مکانی کے حالیہ حکم نے خطے کے وسط میں ایک لاکھ 50 ہزار افراد کو متاثر کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین کی ایجنسی یو این ڈبلیو آر اے کے تھامس وائٹ نے کہا کہ ’غزہ کے لوگ عام لوگوں کی طرح ہیں۔ یہ کسی چیک بورڈ کا حصہ نہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں کو کئی بار بے گھر کیا جاچکا ہے۔‘

نقل مکانی کے حالیہ حکمنامے نے سب سے زیادہ بریج کیمپ کے لوگوں کو متاثر کیا۔ انھیں مزید جنوب میں واقع دير البلح جانے کا کہا گیا ہے۔

فلسطینی نیوز ایجنسی وفا نے سنیچر کو بتایا کہ بریج پر بمباری کی گئی، جیسے جبالیہ اور نصیرت سمیت دیگر مقامات پر کی گئی تھی۔

طبی کارکن زیاد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ انھیں اب معلوم نہیں کہ نقل مکانی کر کے دوبارہ کہاں جایا جائے کیونکہ ’کوئی محفوظ مقام ہے ہی نہیں‘۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے ایک میشر نے تسلیم کیا کہ غزہ میں لوگوں کو افسوسناک حالات کا سامنا ہے تاہم انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ حماس کی قیادت نے وہاں لوگوں کی قدر نہیں کی ہے۔

مارک ریگو نے کہا کہ یہ حالات پیدا نہیں کیے جانے چاہیے تھے لیکن ایسا تب ہوا جب حماس نے 7 اکتوبر کو ’اعلان جنگ‘ کیا۔

سنیچر کو 200 نئے مشتبہ افراد سے تفتیش کے بارے میں اسرائیلی فوج اور انٹرنل سکیورٹی سروس شاباک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔

اس بیان میں کہا گیا کہ یہ پیشرفت ’غزہ میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث سینکڑوں مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کے بعد ممکن ہوئی۔‘

بی بی سی جنگ سے متعلق ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کرسکا۔ ماضی میں ان درجنوں فلسطینی مردوں کی ایک ویڈیو کی تصدیق کی گئی تھی جنھیں اسرائیلی فوجی تفتیش کے لیے برہنہ کر رہے تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ