امریکی ہسپتال میں چار اجنبی خواتین کے درمیان گردے کے عطیے کا تبادلہ
‘میں نے جاگتے ہی سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ میری والدہ اب کیسی ہیں؟ کیا وہ ٹھیک ہیں؟ کیا وہ زندہ ہیں؟’
الیانہ ڈیویزا کی عمر اس وقت صرف 19 سال تھی جب انہوں نے اپنی والدہ کی جان بچانے کے لیے ایک تاریخی آپریشن ناصرف ممکن بنایا بلکہ اس کا حصہ بھی بنیں۔
‘اس وقت مجھے اپنی کوئی فکر نہیں تھی۔ مجھے صرف اس وقت محسوس ہونے والی تکلیف کا کچھ احساس تھا لیکن مجھے اس وقت تک سانس لینا مشکل تھا جب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس آپریشن کے بعد سب ٹھیک ہیں۔’
جب الیانہ نے سب ٹھیک ہیں کا سوال کیا تو ان کی مراد صرف ان کی والدہ ہی نہیں تھیں بلکہ وہ اسی آپریشن کا حصہ بننے والی دو اور خواتین کی بات کر رہی تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں۔
الیانہ نے امریکہ میں ایک ہسپتال کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ پہلی بار چار افراد کے جسمانی اعضا کا تبادلہ کریں جو آپس میں رشتہ دار بھی نہیں۔
الیانہ کے جسم سے ان کا گردہ نکال کر ایک خاتون کے جسم میں لگایا گیا جب کہ اس خاتون کی بہن کا گردہ الیانہ کی والدہ کو لگایا گیا۔ اس طرح دو خواتین اپنا اپنا گردہ دو ایسی خواتین کو عطیہ کر رہی تھیں جو ان کے لیے بالکل اجنبی تھیں اور ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح ان کی قریبی عزیز کی جانب بچائی جا سکے۔
الیانہ ڈیویزا اور ان کی والدہ
آپریشن دو سال کی انتھک محنت کے بعد ممکن ہوا
یہ آپریشن دو سال کی انتھک محنت کا نتیجہ تھا۔ الیانہ کی والدہ کو برسوں سے گردے کا مرض تھا اور وہ صرف اور صرف ڈیالائسس کے ذریعے ہی جی رہی تھیں۔ لیکن ان کو ایک نئے گردے کی ضرورت تھی۔
الیانہ اپنی والدہ کو اپنا گردہ اس لیے عطیہ نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ ڈاکٹروں کو خدشہ تھا کہ جینیاتی وجوہات کی بنا پر ان کو بھی وہی مسائل نہ ہوں جو ان کی والدہ کو ہیں جن کی وجہ سے والدہ کو گردے کے مرض کا سامنا کرنا پڑا۔
الیانہ پھر بھی اپنی والدہ کی زندگی بچانے کے لیے بےتاب تھیں لیکن وقت کم تھا۔ ایسے میں انہوں نے کچھ تحقیق کی جس سے انہیں معلوم ہوا کہ وہ کسی دوسرے مریض کے رشتہ دار کے ساتھ گردے کا تبادلہ بھی کر سکتی ہیں جن کو ایسے ہی مسئلے کا سامنا ہو جیسا ان کو ہے۔
الیانہ نے ہسپتالوں میں رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ چند ہسپتالوں کو تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ ‘کچھ ہسپتالوں نے مجھے مردہ خانے سے رابطہ کرنے کا کہا کیونکہ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔’
لیکن پھر ان کا رابطہ جون رابرٹس سے ہوا جو سان فرانسسکو کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں بطور سرجن کام کرتے ہیں۔
‘جون نے مجھے جھٹلایا نہیں حالانکہ میں صرف 19 سال کی ایک نوجوان لڑکی تھی اور مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا میں پاگلوں جیسی بات کر رہی ہوں۔ میرا خاندان بھی اس کے خلاف تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں خود کو بھی خطرے میں ڈال دوں۔’
ہسپتال کی مدد سے الیانہ کا رابطہ ایسی دو بہنوں سے ہوا جنہیں ایسے ہی مسئے کا سامنا تھا۔ ان میں طے ہوا کہ الیانہ کے گردے کے بدلے ان کی والدہ کو ان میں سے ایک بہن کا گردہ مل جائے گا جو ٹرانسپلانٹ ہو گا۔
الیانہ اب سوچتی ہیں کہ اور لوگ ایسا کیوں نہیں کر رہے۔ ‘میں سمجھتی ہوں کہ لوگ اپنا جسمانی عضو عطیہ کرنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ ایسے آپریشن میں خطرہ تو ہوتا ہے۔ لیکن ان خطرات کو سمجھنے اور ان کا سامنا کرنے کے لیے ایک ٹیم بھی ہوتی ہے جو آپ کی مدد کرتی ہے۔’
یہ بھی پڑھیے
گردے کا عطیہ کرنے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
واضح رہے کہ انسانی جسم میں دو گردے ہوتے ہیں لیکن اگر ان میں سے ایک بھی کام کر رہا ہو تو ہمارا جسم کام کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زندہ انسان اپنا گردہ عطیہ کر سکتا ہے۔
لیکن ہر انسان خواہش کے باوجود اپنا گردہ اپنے قریبی عزیز کو عطیہ نہیں کر سکتا۔ دنیا بھر میں 2019 میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ گردے ٹرانسپلانٹ ہوئے۔
ایلون روتھ کو 2012 میں معاشیات کے شعبے میں مشترکہ نوبیل انعام ملا تھا جس کی وجہ ان کا وضع کردہ وہ نظام تھا جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ افراد کے درمیان گردے کے عطیات کا تبادلہ ممکن ہو سکتا تھا۔
ایلون روتھ
ایلون کہتے ہیں کہ ‘انسانی جسم کے زیادہ تر اعضا عطیہ نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن گردہ عضو ہے جو کسی قریبی عزیز کی جانب بچانے کے لیے عطیہ کیا جا سکتا ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘ہر صحت مند شخص اپنا گردہ اپنے عزیز کو عطیہ نہیں کر سکتا لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ اگر میرے کسی عزیز کو ایک گردہ درکار ہے تو کسی ایسے مریض کی تلاش کی جائے جسے میرا گردہ لگ سکے اور اس مریض کے عزیز کا گردہ میرے عزیز کو۔ اس طرح دو عطیہ کرنے والے دو مریضوں کی جان بچا سکتے ہیں۔’
ایلون روتھ اور ان کے ساتھیوں کے وضع کردہ طریقے نے اس بات کو ممکن بنایا ہے کہ دنیا بھر میں گردوں کے ٹرانسپلانٹ میں اضافہ کیا جا سکے جس سے ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کا ٹرانسپلانٹ جس میں دو مختلف لوگوں کے گردے ٹرانسپلانٹ کیے جائیں ابھی تک زیادہ تر ممالک میں قانونی نہیں سمجھا جاتا۔ مثال کے طور پر جرمنی میں کوئی بھی شخص براہ راست صرف اپنے خاندان میں ہی کسی کو گردہ عطیہ کر سکتا ہے۔ اس قانون کے پیچھے ایک وجہ گردوں کی غیر قانونی طور پر فروخت کا مسئلہ بھی ہے جس میں پیسوں کے لیے گردے بیچے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسی وجہ سے ہی ایسا ایک قانون متعارف کروایا جا چکا ہے۔
چند غیر معمولی معاملوں میں یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ کئی افراد نے مل کر گردوں کی ٹرانسپلانٹ کے لیے موزوں امیدواروں کی مدد کی۔ ایسے ہی ایک کیس میں 70 افراد اکھٹے ہوئے جن سے 35 ضرورت مند مریضوں کے لیے گردوں کے عطیات ممکن ہوئے تھے۔
Comments are closed.