قزاقستان: وہ ’خانہ بدوش‘ ریاست جس کی تاریخ اس کے خوبصورت پہاڑوں میں چھپی ہوئی ہے

قزاقستان

،تصویر کا ذریعہYulia Denisyuk

  • مصنف, یولیا ڈینسیوک
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

فوٹوگرافر یولیا ڈینسیوک اپنی جائے پیدائش اور اپنے آبائی ملک یہ دریافت کرنے کے لیے واپس آئیں کہ کس طرح قزاقستان کے لامتناہی میدان اور ناہموار پہاڑ ملک کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں۔

نیلے اور سفید رنگت والے پیالے سے چائے کا گھونٹ پیتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں اپنے بچپن میں واپس آگئی ہوں۔ ہم برف سے ڈھکی چوٹیوں کے دامن میں موجود سرسبز میدانوں سے ہوتے ہوئے جنوبی قزاقستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں ساتی پہنچے۔

میں قزاقستان کے سابقہ دارالحکومت اور اس کے سب سے بڑے شہر الماتی میں پیدا ہوئی۔ اگرچہ میں تین سال کی عمر میں ایسٹونیا چلی گئی تھی تاہم میں ہر سال موسم گرما میں اپنی دادی سے ملنے قزاقستان واپس آیا کرتی تھی۔ پھر بھی، اب تک، میں نے شہر کی حدود سے باہر ملک کے باقی حصوں کو بمشکل ہی دیکھا تھا۔

پہاڑی سلسلے تیان شان کی آسمان کو چھوتی خوبصورت برفیلی چوٹیاں قزاقستان کے جنوب مشرقی کونے میں واقع پڑوسی ممالک کرغزستان اور چین کے درمیان ایک قدرتی باڑ ہے۔

یہ الماتی کا وہ علاقہ ہے جہاں ملک کے سب سے دلفریب مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ کئی سال اپنے مُلک سے باہر رہنے کے بعد، میں ایک خواب پورا کرنے کے لیے واپس آئی ہوں، میں اپنی جائے پیدائش کے علاوہ بھی بہت سے علاقے دیکھنا چاہتی ہوں۔

میں واحد مسافر نہیں جس نے قزاقستان کا زیادہ حصہ نہیں دیکھا۔ یہ ملک بحرہ کیسپین پر واقع اپنے پڑوسی مُلک جارجیا سے 40 گنا بڑا ہے۔ اس کے باوجود 2022 میں جارجیا کے مقابلے میں قزاقستان کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد بہت کم تھی۔

جو غیر ملکی یہاں آئے ان میں سے زیادہ تر ملک کے دو بڑے شہروں الماتی اور آستانہ میں ٹھرے لیکن جو سیاح ان دو شہروں سے باہر نکلے انھوں نے ایک ناہموار زمین کا تجربہ کیا، جہاں گھوڑے اور اونٹ لامتناہی میدانوں پر چرتے ہیں اور مقامی ثقافت زندہ ہو جاتی ہے۔

قزاقستان

،تصویر کا ذریعہYulia Denisyuk

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

قزاقستان کا ماضی مختلف ثقافتی رنگوں سے بھرا ہوا ہے۔ صدیوں سے، خانہ بدوش ترک قبائل اور شاہراہِ ریشم کے قافلے ان سر سبز میدانوں سے گزرتے رہے ہیں۔

اس سرزمین پر 15ویں صدی میں، ایک خانہ بدوش ریاست قائم ہوئی جو روسی سلطنت کے اقتدار سنبھالنے تک تقریباً 400 سال تک قائم رہی لیکن تاریخ سے جُڑی یہ باتیں اور حقائق الماتی میں تقریباً پوشیدہ ہیں۔

یہ روس کی ایک سابقہ سرحدی فوجی چوکی ہے جو 1854 میں جدید شہر کی بنیاد بنی۔

الماتی میں مقیم فلمساز تیمور موگینوف کے مطابق ’سوویت دور میں قازق ثقافت کو فراموش کر دیا گیا تھا۔‘ اُن کے مطابق ’آج کے نوجوان اپنی جڑوں، اپنے آبا ؤ اجداد کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔‘

یہی وہ سب کُچھ ہے جو میں دیکھنا چاہتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کہ جب بچپن میں، میں اپنی دادی سے ملنے اپنے آبائی گھر میں جاتی تھی، مجھے الماتی کے مضافات میں موجود پہاڑی علاقوں میں سیب اور خوبانی کے باغات میں گھومنا اور الماتی کے شاندار اور خوبصورت پہاڑی سلسلے ’ایل آلاتو‘ (Ile-Alatau) پر چڑھنا پسند تھا۔

جو بات مجھے ہمیشہ یاد آتی ہے وہ یہ ہے کہ میں اپنے دادا کی پُرانی سوویت کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر اپنے آبائی گھر جایا کرتی تھیں لیکن جب میں بڑی ہوئی اور یہاں سے دور چلی گئی، تو میں نے قازق شناخت، تاریخ اور اس کی شاہراہ ریشم سے جُڑی میراث کے بارے میں دور رہتے ہوئے بھی پڑھنا اور سیکھنا شروع کیا۔

تو میں نے یہ اندازہ لگایا اور محسوس کیا کہ قوم کے لیے الماتی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔

قزاقستان

،تصویر کا ذریعہYulia Denisyuk

گذشتہ کچھ برسوں کے دوران بہت سے مقامی لوگ تیزی سے ملک کے متنوع دیہی علاقوں کے مناظر کو دُنیا کے سامنے لانے کی کوشش میں ہیں۔

کورونا جیسی عالمی وبا کے بعد سے ملک میں نیشنل پارکس میں سہولیات کو بہتر بنایا گیا ہے اور کئی عمدہ سہولیات سے لیس ماحول دوست ہوٹل کھولے گئے ہیں۔ مجھے یہ اُمید تھی کہ اس زمینی سفر کے دوران میں نے دوسروں سے پہلے ان دور دراز خوبصورت قازق دیہی علاقوں کو دیکھا۔

مجھے یہ بھی پتا چلا، کہ مجھے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ قزاقستان دنیا کا نواں سب سے بڑا ملک (اور سب سے بڑا خشکی سے گھرا ہوا ملک) ہونے کے باوجود، اس کا چھوٹا، جنوب مشرقی الماتی خطہ قومی اہمیت کی حامل چیز ہے۔

فوٹوسفاری ٹریول کے الماتی میں مقیم گائیڈ کونسٹنٹین لودانوف نے کہا کہ ’الماتی کا علاقہ منفرد ہے۔‘ لودانوف نے میری وہ آل ٹیرین گاڑی چلائی جو میں نے اپنے سفر کے لیے کرائے پر لی تھی۔

’قزاقستان میں یہ واحد جگہ ہے جہاں آپ چند گھنٹوں کے لیے گاڑی چلا سکتے ہیں اور صحرا کے ٹیلوں، الپائن جھیلوں، پہاڑوں کی چوٹیوں اور میدانوں کو دیکھ سکتے ہیں اور یہ سب علاقے سے دور جائے بنا ہی دیکھ سکتے ہیں۔‘

ہم صبح پانچ بجے الماتی کی سُنسان سڑکوں پر روانہ ہوئے اور جلد ہی گاڑی چلاتے ہوئے کلجن کے علاقے میں پہنچ گئے، یہ وہ علاقہ ہے جو کہ 19ویں صدی کے سوویت حکمرانی کے دور میں اپنی ایک پہچان رکھنے کے باوجود ایک اہم راستہ بنا۔

کولجن مشرق کی طرف چین کی سرحد تک پھیلے ہوا وہ اہم خطہ ہے جو اہم پہاڑی سلسلے تیان شان سے دکھائی دیتا ہے۔ الماتی کے مضافات میں موجود بستیوں سے گزرتے ہوئے، ہم نے ’ایسے پلاتیو‘ (Asy Plateau) پر اپنا سفر شروع کرنے کے لیے جنوب کی جانب اپنا روخ موڑا، جو کہ تین ہزار دو سو میٹر کی بلندی پر پھیلے 60 کلو میٹر پر پھیلے سر سبز میدان ہے۔

یہ قدیم زمین اپنے اندر ترک ثقافت کے رنگوں کو بھی سموئے ہوئے ہے اور اپنی مثال آپ ہے، جو قزاقستان کے دیہی علاقوں میں اب بھی زندہ ہے، اس اُونچے اور سرد مقام پر موجود چراگاہوں پر چرواہے گرمیوں میں اپنے ریوڑ کے ساتھ خیمے لگاتے ہیں اور موسم کی تبدیلی پر پہاڑوں سے نیچے نسبتاً گرم علاقوں کی جانب نقل مکانی کرتے ہیں۔

قزاقستان

،تصویر کا ذریعہYulia Denisyuk

یہاں، ہر کلومیٹر کے ساتھ ایک زمانہ یا ثقافت تبدیل ہوتی دیکھائی دیتی ہے بلکہ اس خوشگوار تبدیلی کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔ سطح مرتفع کے مغربی سرے پر، قزاقستان کی سب سے بڑی فلکیاتی رصد گاہ ’ایسے تُرگین‘، 1981 سے کام کر رہی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی دوربینوں میں سے ایک سے لیس، اس بڑی فلکیاتی رصد گاہ نے حال ہی میں کائنات کے سب سے طاقتور دھماکوں میں سے ایک کا مشاہدہ کر کے ایک اہم دریافت کی ہے۔ ایک واقعہ جو پانچ ارب نوری سال (وہ فاصلہ جو روشنی ایک سال میں تہہ کرتی ہے) کے فاصلے پر پیش آیا۔

یہ آبزرویٹری یا رصد گاہ سیاحوں کے لیے بند ہے لیکن میں نے لڈانوف کو قریب ہی رکنے کو کہا تاکہ میں اُن سر سبز گھاٹیوں، خوبصورت پہاڑیوں اور آسمان کو چھوتی پہاڑی چوٹیوں کو کے مناظر کو اپنے آنکھوں میں محفوظ کر سکوں۔

سطح مرتفع پر مزید مشرق میں، میں نے دریائے آسی کے کنارے پراسرار ٹیلے دیکھے جنھیں کرگن کہتے ہیں۔ یہ ساکا ثقافت کی باقیات ہیں، اُن خانہ بدوش جنگجو لوگوں کی جو ’آئرن ایج‘ (600 کبل مسیح سے 1200 قبل مسیح کے درمیان کے وقت) میں اس علاقے میں آباد تھے۔

قرون وسطیٰ کی شاہراہ ریشم کے قافلوں نے ’یونیسکو کے چانگ آن-تیانشان کوریڈور‘ کے حصے کے طور پر کرغزستان اور چین جاتے ہوئے بھی اس راستے کا استعمال اور انتخاب کیا تھا۔

مجھ سے پہلے کی نسلوں کی طرح ایک ہی راستے سے گُزرتے ہوئے، میں نے یہ محسوس کیا کہ اس سفر کے بعد میری جائے پیدائش کے اس ایک گمشدہ ٹکڑے نے ایک باقاعدہ شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔

رات ہوتے ہی، ہم ستی پہنچ گئے، جہاں شاکیرا دوسمووا، الگاڈوس گیسٹ ہاؤس کی مالک آپریٹر دسترخوان کو بیچھا رہی تھیں، جو کہ مہمانوں کی آمد پر قازق لوگوں نے تیار کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے پوری دنیا کے مسافروں سے ملنا پسند ہے اور میں انھیں اچھا کھانا پیش کرنا چاہتی ہوں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اکثر دوسری زبان نہ آنے کی وجہ سے رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب آپ کوئی کام دل سے کر رہے ہوں تو ایسے میں الفاظ کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘

قزاقستان

،تصویر کا ذریعہYulia Denisyuk

آج بھی، قازق ثقافت کی رہنمائی زوز کے صدیوں پرانے قبائلی نظام سے ہوتی ہے، تین بڑے علاقائی قبیلے جن کے ارکان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی اور سماجی معملات میں اہمیت رکھتے ہیں۔ موگینوف نے کہا کہ ’الماتی کا یہ علاقہ روایتی طور پر بالائی زوز سے تعلق رکھتا تھا۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’یہاں کے لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں اور وہ اپنے مہمانوں کو نہ صرف شاہی مہمان سمجھتے ہیں بلکہ اس کا احساس بھی دلاتے ہیں۔‘

ان کا فراخدلانہ استقبال مجھے اُس قوت میں واپس لے گیا، جب میں اپنی دادی سے ملنے جاتی تھی تو وہ ہمارے لیے لمبی میزیں ایک ساتھ جوڑ دیا کرتی تھیں، ہمارے تمام رشتہ دار جمع ہوتے، لوک گیت گاتے اور گھوڑے کے گوشت سے بنے ساسیج اور شہد سے بنائی جانے والی سویٹ ڈش ’چک چک‘ کھاتے۔ تقریبات کئی گھنٹوں بلکہ رات گئے تک جاری رہتیں۔

جب دوسمووا نے اصرار کیا کہ میں ’شورپا‘ (دنبے کے گوشت اور آلو سے تیار کیا جانے والا سوپ) کا دوسرا پیالہ پی لوں، تو اس بات نے مجھے یاد دلایا کہ قزاقستان میں مقامی لوگ مہمانوں سے اپنی محبت کا اظہار اس انداز میں بھی کرتے ہیں کہ وہ انھیں اس محبت سے کھانا پیش کرتے ہیں۔

ہم مشرق جانب اپنے راستے پر چلتے ہوئے چیرین نیشنل پارک تک پہنچے تو میں نے سڑک کے کنارے چین کی جانب پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ بنکر نما عجیب و غریب ڈھانچے دیکھے۔

لودانوف نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’یہ ڈھانچے، جنھیں ڈاٹس (DOTs) یا طویل مدتی فائرنگ کے مقامات کہا جاتا ہے، انھیں سوویت یونین نے 1969 کے غیر معروف چین اور سوویت سرحدی تنازعے کے بعد تعمیر کیا تھا۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ سوویت دور حکومت کے دوران اس سرحدی علاقے تک رسائی کے لیے خصوصی اجازت نامے کی ضرورت تھی اور اب کچھ مسافر قزاقستان کے ماضی کے ان دلچسپ آثار کو دیکھنے کے لیے یہاں کا سفر کرتے ہیں۔

قزاقستان

،تصویر کا ذریعہYulia Denisyuk

الماتی سے صرف تین گھنٹے کی دوری پر واقع چیرین نیشنل پارک کے اندر وادیوں کے نیٹ ورک کا موازنہ اکثر امریکہ کی گرینڈ کینین سے کیا جاتا ہے۔

قزاقستان کی تاریخ ان مقامات پر پوشیدہ ہے، چیرین وادی کے اندر درختوں کا نام سغدیان کے نام پر رکھا گیا۔

جیسے ہی ہم مغرب کی طرف سے الماتی کی جانب مڑے، ہم نے اپنی نگاہیں ’التین ایمل‘ پر ڈالیں، جو قزاقستان کے سب سے بڑے نیشنل پارکس میں سے ایک ہے جس کی سرحدوں پر صحرا، پہاڑ اور میدان ہیں۔

پارک کی متاثر کن حیاتیاتی تنوع نے اسے ’یونیسکو بایوسفیئر ریزرو‘ بنا دیا ہے اور اس کے مریخ نما سرخ اور سفید ’اکٹاؤ پہاڑ‘ 40 کروڑ سال پرانے ہیں۔ جس طرح قزاقستان کسی زمانے میں شاہراہ ریشم پر لوگوں کے لیے ایک اہم مقام تھا، اسی طرح آج ’التین ایمل‘ نایاب اور ناپید ہونے کے خطرے کے شکار جانوروں کی ایک اہم جگہ بھی ہے۔

’التین ایمل‘ کا سب سے بڑا خزانہ ’آئگیکین‘ ہے، جو 240 ہیکٹر یعنی تقریباً 600 ایکڑ پر مشتمل ریت کا وہ ٹیلہ ہے جو تین کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

تقریباً دو لاکھ سال پہلے، ایک شدید زلزلے نے اردگرد کے پہاڑوں کو الگ کر دیا اور یوں ایک تیز ہوا کی گزرگاہ بنی، جو پہاڑوں کے دامن سے ریت کے ذروں کو لے کر آخری ٹیلوں تک پہنچی۔

میں ’آئگیکین‘ کا پرجوش گانا سننا چاہتی تھی، بعض اوقات اس ٹیلے سے ایک اونچی اور دھیمی سی آواز پیدا ہوتی جسے کانوں میں محسوس کرنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آواز خانہ بدوشوں کی آواز میں گائے جانے والے گانوں سے مشابہ ہے جسے ’توران‘ جیسے نوجوان قازق لوک فنکاروں کے گروہ کے ذریعہ مقبول ہوئے۔

قریبی ایگائی کم گیسٹ ہاؤس کی مالکن سالتنات بیادیلووا نے نے مجھے گائے کے تازہ کچے دودھ کا ایک پیالہ پینے کے لیے دیا۔ یہ وہ مشروب ہے جو دیہی علاقوں میں اب بھی عام پایا جاتا ہے۔

سالتنات نے مجھے بتایا کہ ’ہماری فطرت بہت خاص اور مختلف ہے اور مجھے یہ درحقیقت پسند ہے اور اس پر فخر ہے کہ میں یہاں رہتی ہوں۔‘

ہم اُس اے تھری روڈ پر روانہ ہوئے جو آخر کار ہمیں الماتی واپس لے آئی، میں معمول سے زیادہ پرسکون تھی۔ جیسے جیسے پیٹرول سٹیشنز، فاسٹ فوڈ ریستوراں اور شہر میں داخل ہونے کی نشانیاں یعنی یہ سب عمارتیں دوبارہ نمودار ہوئیں، تو میں موگینوف کی وہی بات سوچ رہی تھی کہ ’ہماری ثقافت ہماری زمین سے جُڑی ہوئی ہے، یہ ہمارے لیے اہم ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہماری زمین کیسی نظر آتی ہے، تاکہ اس سے ایک رابطہ اور ایک تعلق قائم رہ سکے۔‘

موگینوف نے مزید کہا کہ ’ہم خانہ بدوش تھے۔‘

اُس نے مزید کہا کہ ’ہم کبھی بھی شہروں میں نہیں رہے، یہ ہماری سرزمین ہے اور آج جو ہم ہیں وہ اسی کی وجہ سے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ