’فورس ڈیزائن 2030‘: چین کے خلاف ممکنہ جنگ کے پیش نظر امریکہ اپنی فوجی طاقت کو کیسے تبدیل کر رہا ہے؟
- مصنف, جوناتھن مارکس
- عہدہ, دفاعی تجزیہ کار
امریکہ اور جاپان کے درمیان ایک حالیہ ملاقات میں وائٹ ہاؤس نے بحرالکاہل میں عسکری طاقت برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تاہم ایشیا پر ازسرنو توجہ نے امریکہ کی سب سے مشہور فوجی قوت کے اندر شدید بحث کو جنم دیا ہے۔
امریکی فوج کے سب سے مقدس سمجھے جانے والے اداروں میں سے ایک یو ایس میرین کور میں ایک تلخ اندرونی جھگڑا شروع ہو چکا ہے۔
اس سروس کے متعدد سابق سینیئر کمانڈر موجودہ قیادت کی جانب سے میرین کور میں تبدیلی کے منصوبوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
اس تنازعے کی بنیاد چین کے خلاف ممکنہ جنگ کے لیے میرین کور کو تیار کرنے کا منصوبہ ہے جسے فورس ڈیزائن 2030 کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم ابتدا سے ہی سابق جرنیلوں نے غیر معمولی طور پر اپنی مایوسی کے اظہار کے لیے میڈیا میں جانے کا انتخاب کیا۔
میرین کور کے سابق افسر باقاعدگی سے ملتے ہیں، سیمینار اور تھنک ٹینکس میں بات چیت کرتے ہیں اور اپنا متبادل منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں فورس ڈیزائن منصوبہ میرین کور کے مستقبل کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔
ان ناقدین میں سابق نیوی سیکریٹری اور ورجینیا کے سابق سینیٹر جم ویب بھی شامل ہیں جو ویت نام جنگ کے دوران میرین کور کے افسر رہ چکے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل میں ایک مضمون میں انھوں نے لکھا کہ فورس ڈیزائن منصوبے کا تجربہ نہیں ہوا اور اس میں کمزوریاں ہیں۔
انھوں نے خبردار کیا کہ لڑائی میں خطرات کا سامنا کرنے والی میرین کور یونٹس کے فورس سٹرکچر، اسلحہ سسٹم اور انفرادی طاقت میں ڈرامائی کمی کا منصوبہ طویل المدتی خطرات سے متعلق سوالات پیدا کرتا ہے۔
آخر ایسی کون سی بات ہے جس کی وجہ سے یہ تمام سابق افسران اتنے پریشان ہیں؟
اس منصوبے کا آغاز 2020 میں میرین کور کے کمانڈنٹ جنرل ڈیوڈ ایچ برجر نے کیا تھا جس کا مقصد میرین کور کو عراق اور افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز جیسی لڑائیوں کے بجائے چین کے ساتھ ممکنہ تنازع کے لیے تیار کرنا تھا۔
اس منصوبے کے تحت میرین کور کو جزائر پر پھیل کر لڑائی کے لیے تیار کرنا مقصود ہے جس میں یونٹ میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جائے گی تاہم ان کو جدید اسلحہ سسٹم فراہم کیے جائیں گے تاکہ ان کی قوت کو بڑھایا جا سکے۔
اس منصوبے کو دیکھا جائے تو شاید مستقبل میں میرین کور دوسری عالمی جنگ جیسی ساحلی جنگ یا پھر عراق جیسے زمینی آپریشن نہیں کر سکے گی۔
اس منصوبے کا سب سے ناپسندیدہ نکتہ میرین کور کے فوجیوں کی تعداد میں کمی اور ٹینکوں کا خاتمہ ہے۔ ایسی تجاویز پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ میرین کور اپنے ماضی کو بھلا رہی ہے۔
واضح رہے کہ اگرچہ میرین کور امریکی بحریہ سے جڑی ہے تاہم یہ ایک علیحدہ سروس ہے جس میں دوسری عالمی جنگ کے دوران ڈرامائی اضافہ ہوا اور بعد میں عراق اور افغانستان میں اس سروس نے اہم کردار ادا کیا۔
میرین کور کا عوامی تاثر بھی دوسری عالمی جنگ کے تجربات سے متاثر ہے۔ اگر کسی نے 1949 کی جان وین کی فلم ’دی سینڈز آف ایوو جیما‘ یا پھر سٹیون سپیلبرگ اور ٹام ہینکس کی منی سیریز ’دی پیسیفک‘ دیکھ رکھی ہے تو ان کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح میرین کور نے بڑے پیمانے پر آپریشنز میں حصہ لیا جن میں فوجی بحری جہازوں سے اتر کر ساحلوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
تاہم نئے منصوبے کے مطابق مستقبل میں میرین کور ایسی جنگیں نہیں لڑے گی۔
ناقدین کا ماننا ہے کہ چین اور انڈو پیسیفک پر توجہ مرکوز کرنے سے میرین کور کا روایتی کردار متاثر ہو گا جس میں امریکی عسکری طاقت کے پہلے نمائندے کے طور پر اس فورس نے دنیا بھر میں متعدد چینلجز کا سامنا کیا۔
تو آخر یہ منصوبہ ہے کیا؟
اس منصوبے کے تحت چند انفنٹری بٹالینز میں کمی کی جائے گی یعنی فوجیوں کی کٹوتی ہو گی۔
میرین کور کی تقریبا ایک تہائی آرٹلری یعنی توپ خانہ ختم کر دیا جائے گا اور اس کے متبادل کے طور پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ سسٹم دیے جائیں گے۔ میرین کور سے تمام ٹینک واپس لے لیے جائیں گے۔
ان نئے اسلحہ سسٹمز کے لیے تقریباً 16 ارب ڈالر کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ دوسری جانب میرین کور میں مجوزہ کٹوتیوں سے 18 ارب ڈالر کی بچت کا اندازہ لگایا گیا ہے اور اسی رقم سے جدید اسلحہ نظام خریدے جائیں گے۔
نئے اور جدید راکٹ سسٹم کے علاوہ ایسے میزائل شامل کرنے کا بھی منصوبہ ہے جنھیں زمین سے داغا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
نئے منصوبے کے تحت میرین کور کو ڈرون جیسے فضائی سسٹم بھی فراہم کیے جائیں گے جس کا مقصد یہ ہے کہ ایسی جنگ کے لیے تیار رہا جائے جیسی یوکرین میں لڑی جا رہی ہے۔
اس منصوبے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر فوج کو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم کر دیا جائے گا تاہم اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ ان کے پاس ایسے اسلحہ سسٹم موجود ہوں جو لڑائی میں ان کی طاقت کو برقرار رکھیں۔
ان اصولوں کو تائیوان کے نزدیک جاپان کے اوکیناوا جزائر میں لاگو کیا جا رہا ہے جہاں موجود میرین کور کے فوجیوں کو ان تبدیلیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔
عسکری امور کے ماہر مائیک او ہینلن واشنگٹن ڈی سی میں بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے فارن پالیسی ڈائریکٹر ہیں۔
وہ اس منصوبے پر ہونے والی تنقید کے اس بنیادی نکتے کو مسترد کرتے ہیں کہ چین پر توجہ مرکوز کرنے سے میرین کور کے دیگر آپریشن متاثر ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ میرین کور کو جہاں جانے کا حکم دیا جائے گا، وہ جائیں گے اور نئے منصوبے کا آپریشنز پر اتنا اثر نہیں پڑے گا جتنا کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اصل تبدیلی عراق اور افغانستان سے انخلا تھی جب جنرل برجر کا منصوبہ تیار بھی نہیں ہوا تھا۔
کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر میرین کور نے دور جدید کے میدان جنگ سے نبرد آزما ہونا ہے تو اب تبدیلی ناگزیر ہے۔
سابق میرین کور افسر ڈاکٹر فرینک ہوفمین اب امریکہ کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ناقدین ایک شاندار ماضی کو دیکھ رہے ہیں اور افسوس ناک طور پر چین اور ٹیکنالوجی کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی تصویر نہیں دیکھ پا رہے۔
ایک جانب جہاں میرین کور سے ٹینک واپس لینے کی تجویز پر خاص طور پر تنقید ہو رہی ہے، ڈاکٹر ہوفمین کا ماننا ہے کہ یہ درست قدم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میرین کور کے پاس بکتر بند گاڑیوں کی کافی تعداد موجود رہے گی لیکن بھاری بھرکم ٹینک اور ان کو ایندھن فراہم کرنے والی گاڑیوں کی قطاریں نہیں رہیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی ایک ایسے گہرے میدان جنگ کے لیے ضروری ہے جیسا ہم یوکرین میں دیکھ رہے ہیں۔
ان کے مطابق میرین کور کے پاس روایتی اور جدید اسلحہ نظام کا مرکب موجود ہو گا جو اس کی طاقت اور صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔
واضح رہے کہ یوکرین کی جنگ میں راکٹ آرٹلری اور ڈرون کی افادیت سب پر واضح ہو چکی ہے اور اسی لیے ان کو نئے منصوبے میں شامل کیا جا رہا ہے۔
تاہم امریکہ کا تخیلاتی میدان جنگ یوکرین سے مختلف ہے جہاں جنگل نہیں ہوں گے بلکہ بحر الکاہل کی وسعت میں سمائے ہوئے جزائر کی ٹکڑیاں ہوں گی۔
فورس ڈیزائن 2030 ابھی تک کسی حتمی شکل میں نہیں ہے کیوں کہ اس میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ اس منصوبے نے سفر کی منزل کا تعین کر دیا ہے لیکن ابھی بہت سے مسائل کا احاطہ ہونا باقی ہے کیوں کہ اتنے وسیع میدان جنگ میں پھیلی فوج کو سازوسامان کی فراہمی ہی ایک بہت بڑا چیلنج ہو گی۔
تاہم سمندر سے ساحل پر پہنچنے والی صلاحیت کا کردار اہم ہو گا۔
لندن کے آئی آئی ایس ایس میں نیول فورسز اور میری ٹائم سکیورٹی کے سینیئر فیلو نک چائلڈز کا کہنا ہے کہ ایک نئی طرز کے بحری جہاز کی ضرورت ہو گی۔
ان کا کہنا ہے کہ جدید اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے اسلحے کی موجودگی میں روایتی بڑے جہاز ہمیشہ خطرے میں رہیں گے اس لیے بڑی تعداد میں چھوٹے جہاز اہم ہوں گے تاکہ میرین کور تیز رفتاری سے جنگ لڑ سکے۔
لیکن ایسے جہاز مہیا کرنا بھی آسان نہیں ہو گا۔ چھوٹے جہاز مختلف طرز کے شپ یارڈز میں تیار تو کیے جا سکتے ہیں لیکن شاید اتنی تعداد میں اور اتنے مختصر وقت میں نہیں۔ امریکی بحریہ کو جدید جنگی بحری جہازوں کی بھی ضرورت ہے اور اب تک یہ واضح نہیں کہ ان کے پاس درکار پیسہ اور صلاحیت ہے یا نہیں۔
اصل مسئلہ وہی ہے؛ وسائل اور ضروریات کا ٹکراؤ اور یوکرین کے تنازع نے واضح کیا ہے کہ جب کوئی فوجی طاقت کسی نئی سمت کا تعین کر رہی ہوتی ہے تو پرانے خطرات سر اٹھا سکتے ہیں۔
Comments are closed.