’فلائیٹ 49‘: وہ پانچ سال جب ہر دو ہفتوں میں امریکا کا ایک طیارہ ہائی جیک ہوتا تھا

طیارہ ہائیجیکنگ، سدرن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سدرن ایئرویز کا وہ طیارہ جس میں ہائی جیکنگ کی تحقیقات کرنے والے ایف بی آئی کے اہلکاروں اور ایئرلائن کے حکام کو امریکہ سے کینیڈا لایا گیا تھا

  • مصنف, وقار مصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی، محقق

10 نومبر 1972 کا دن امریکی سدرن ایئر ویز کی فلائیٹ 49 کے پائلٹ ہیرلڈ جانسن کے لیے ایک عام دن کی طرح تھا۔ جہاز کے کچن سے اٹھتے شور کو بھی انھوں نے معمولی ہی جانا مگر چند ہی لمحوں میں سب بدل چکا تھا۔

شام کے سات بج کر 20 منٹ پر کاک پٹ کا دروازہ زور سے کُھلا۔ ایک فلائٹ اٹینڈنٹ اندر آئیں، جن کے سر پر ایک شخص بندوق تانے ہوا تھا۔

’ہم فلائٹ پر قبضہ کر رہے ہیں۔۔۔‘ اس شخص نے جانسن اور ان کے ساتھی پائلٹ ولیم ہاس کو تحکمانہ لہجے میں بتایا۔

’ہم‘ سے مراد وہ تین ہائی جیکرز تھے جن کی شناخت بعد میں ہنری جیکسن، لوئس مور اور میلون کیل کے نام سے ہوئی۔

یہ تینوں افراد اس طیارے کو امریکی ریاست ٹینیسی سے پرواز بھرنے کے لگ بھگ پچاس منٹ بعد ہائی جیک کر چکے تھے۔

ہائی جیکنگ کے واقعات بیسویں صدی کے ابتدائی دنوں ہی سے ہوتے آئے تھے۔ پہلے پہل ہلکے ہوائی جہاز اغوا ہوتے لیکن بعد میں مسافر طیارے بھی ہائی جیک ہونے لگے، جیسا کہ یہ دو انجن والا ڈی سی 9 طیارہ اغوا ہوا۔

برطانوی محقق ایچ پینٹر کہتے ہیں کہ طیاروں کو ان سے جڑے انسانی، نفسیاتی اور مخصوص ملکوں پر اقتصادی اثرات کی وجہ سے ایک ہدف کے طور پر ترجیح دی جاتی تھی۔

ہائی جیکنگ کی ’وبا‘

ہائیجیکرز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

طیارے کے ہائی جیکرز ہنری جیکسن اور لوئس مور

کینٹ این گورڈین ’عالمی ایئر لائن صنعت کا پروفائل‘ میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1929 اور 1957 کے درمیان دنیا بھر میں 20 سے کم ہائی جیکنگ کی وارداتیں ہوئیں جبکہ سنہ 1958 سے سنہ 1967 کے درمیان تقریباً 40 طیارے اغوا ہوئے۔

سنہ 1958 سے شروع ہونے والی ہائی جیکنگ کی وارداتوں میں ہائی جیکر عمومی طور پر طیارے اغوا کر کے انھیں کیوبا لے جاتے۔

اپنی تحریر’ہائی جیکنگ کی متعدی بیماری‘ میں رابرٹ ٹی ہولڈن کا کہنا ہے کہ 1968-1972 کے پانچ سال میں دنیا بھر میں ہائی جیکنگ کی 326 کوششیں ہوئیں یا یوں کہیے کہ لگ بھگ ہر چھ دن میں ایک کوشش۔

امریکہ بھی اس ’وبا‘ سے دوچار تھا جہاں اوسطاً ہر دو ہفتے میں ایک طیارہ اغوا ہوتا بلکہ دو بار تو ایک ہی دن دو، دو طیارے بھی اغوا ہوئے۔

ان واقعات کو کبھی دہشتگردی، بھتے، سیاسی پناہ اور دماغی بیماری سے جوڑا گیا تو کبھی کیوبا، امریکا مخاصمانہ تعلقات اور کیوبا میں کمیونسٹ حکومت کی ملک چھوڑنے کی کوشش کرنے والے اپنے شہریوں پر پابندیوں سے منسوب کیا گیا۔

ائرلائنز کو اغوا اتنا بُرا نہ لگتا

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

افراتفری کے اس دور کے متعلق برینڈن کوئرنر اپنی کتاب ’فضائیں ہماری ہیں: ہائی جیکنگ کا سنہری دور‘ میں لکھتے ہیں کہ ایئر لائنز ہائی جیکنگ کو ایک ایسے خطرے کے طور پر دیکھتی آئی تھیں، جس سے آسانی سے نمٹا جا سکتا تھا۔

’ان کا خیال تھا کہ طیارہ اغوا کرنے والوں کے تمام مطالبات مان لینے سے مسافروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، ہوائی جہاز بھی مل جائے گا اور ممکنہ طور پر گرفتاری کے بعد تاوان میں دی گئی رقم بھی واپس مل جائے گی۔

اس مفروضے کی بنیاد پر ایئر لائنز کو یقین تھا کہ وقتاً فوقتاً ہائی جیکنگ کو برداشت کرنا امریکا کے تمام ہوائی اڈوں پر ناگوار سکیورٹی لاگو کرنے سے بہتر ہے۔‘

لیکن کوئرنرکے مطابق 27 مسافروں اور عملے کے چار افراد پر مشتمل ’فلائیٹ 49‘ کے اغوا سے یہ ثابت ہوا کہ ایسی سوچ حماقت تھی۔

ہائی جیکرز نے کہا کہ ان کا یہ عمل ڈیٹرائٹ پولیس کے خلاف احتجاج ہے، جو ان کے مطابق بدعنوان اور نسل پرست ہے۔

ہائی جیکرز کی جانب سے مرد مسافروں کو شارٹس کے علاوہ تمام کپڑے اتارنے کا حکم دیتے ہوئے، انھوں نے مطالبہ کیا کہ جہاز کو مشیگن میں ان کے شہر ڈیڑائٹ لے جایا جائے، جہاں انھیں ایک کروڑ ڈالر اور بلٹ پروف جیکٹس دی جائیں۔

ہائی جیکرز نے جہاز کا رُخ نیوکلیئر ری ایکٹر کی طرف موڑ دیا

خبررساں یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کے مطابق واقعات کی ترتیب یوں ہے:

ہائی جیکرزکے حکم پر طیارہ جیکسن جا کر ایندھن لیتا ہے اور رات 8:36 پر ڈیٹرائٹ کے لیے ٹیک آف کرتا ہے جو شمال میں 800 میل دورہے۔

ڈیٹرائٹ میں طیارہ 20,000 فٹ کی بلندی پر 90 منٹ سے زیادہ کے لیے ہوائی اڈے کا چکر لگاتا ہے جبکہ ڈیٹرائٹ کی انتظامیہ اور پولیس کے حکام بارش میں تاوان کے مطالبات پر بات چیت کے لیے انتظار کرتے ہیں۔

سدرن ایئرویز اور ڈیٹرائٹ سٹی کونسل پانچ پانچ لاکھ ڈالر ایئرپورٹ پر بھجواتے ہیں لیکن اغوا کار طیارے کو زمین پر لانے کی اجازت نہیں دیتے۔

طیارے کو کلیو لینڈ جانے کا حکم ملتا ہے جہاں وہ 12:30 پر وہ لینڈ کرتا ہے۔ کھانا اور ایندھن لے کر طیارہ 1:38 پر شمال مشرق میں 180 میل دور ٹورنٹو کے لیے ٹیک آف کرتا ہے۔

ٹورنٹو میں طیارہ تقریباً تین گھنٹے تک بین الاقوامی ہوائی اڈے کا چکر لگاتا ہے اور تقریباً 4:44 پر وہاں لینڈ کرتا ہے۔

اس کے فوراً بعد شکاگو اور اٹلانٹا سے دو دیگر سدرن طیارے ایف بی آئی اہلکاروں اور تقریباً پانچ لاکھ ڈالرز کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں۔

ہائی جیکرز یہ رقم مسترد کر دیتے ہیں۔ طیارہ صبح 6 بج کر 16 منٹ پر دوبارہ ایئرپورٹ سے ٹیک آف کرتا ہے۔

سدرن ایئر ویز کی فلائٹ 49

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہائی جیکنگ شروع ہونے کے 29 گھنٹے 12 منٹ بعد کیوبا کے حکام نے اطلاع دی کہ ہائی جیکروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے

شراب اور تاوان کی رقم مسافروں میں بانٹی گئی

راستے میں اغواکار طیارے کے کچن میں موجود شراب نکال کر اسے مسافروں کے ساتھ مل بانٹ کر پیتے ہیں جبکہ اس سفر میں سدرن ایئرویز کا ایک لیر جیٹ، ایک اور ڈی سی 9 اور نیوی ریزرو کا ایک طیارہ جس پر ایف بی آئی ایجنٹ سوار ہیں، اغوا شدہ طیارے کا پیچھا کرتے ہیں۔

طیارہ ٹورنٹو کے جنوب میں ناکس ول پہنچتا ہے۔ تقریباً دو گھنٹے تک 33,000 فٹ بلندی پر چکر لگاتا ہے جبکہ ہائی جیکرز وائٹ ہاؤس کی مہر لگی سرکاری دستاویز کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں ایک کروڑ ڈالر تاوان کو ’امریکی حکومت کی گرانٹ‘ لکھا گیا ہو یعنی یہ رقم ’ناقابل واپسی‘ ہو گی۔

ایسا نہ کیے جانے پروہ تقریباً 25 میل دور اوک رج، ٹینیسی میں طیارے کو جوہری تنصیبات سے ٹکرانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ یہاں ایک جوہری ری ایکٹر ہے جو انتہائی افزودہ یورینیم 235 سے چلتا ہے۔

طیارہ انھی تنصیبات کے اوپر چکر کاٹتا ہے جبکہ مذاکرات جاری ہیں۔ وہ پائلٹ ہاس کے سر پر بندوق رکھتے ہیں اور انھیں ہدف کی طرف جانے کا حکم دیتے ہیں۔

اس پر نکسن کے مشیر جان ایرلچمین انھیں بتاتے ہیں کہ تاوان ادا کیا جائے گا تاہم تیل کم ہونے پر طیارے میں لیکسنگٹن، کینٹکی میں تیل ڈلوا کر قریبی چٹانوگا ایئرپورٹ لے جایا جاتا ہے۔

چٹانوگا میں انھیں 20 ڈالر کے نوٹوں سے بھرا ایک بیگ ملتا ہے۔ حکام انھیں بتاتے ہیں کہ یہ ایک کروڑ ڈالر ہیں لیکن اصل میں وہ صرف 20 لاکھ ڈالر تھے جو ایئر لائن نے فراہم کیے ہیں۔

اغوا کار دس پیرا شوٹس، سات بلٹ پروف جیکٹس، سات کریش ہیلمٹس، کچھ طبی سامان، پچاس کھانے کے ڈبوں اور کئی بڑے کینوس بیگز کا مطالبہ کرتے ہیں جو انھیں فراہم کر دیے جاتے ہیں۔

کوئرنر نے لکھا کہ جیسے ہی فلائٹ 49 نے اوک رج کے اوپر چکر لگایا، سدرن ایئرلائنز نے 20 لاکھ ڈالر جمع کیے۔ ایئر لائن کے پاس یہ جوا کھیلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہائی جیکرز تاوان کی رقم کے بھاری وزن، تقریباً 150 پاؤنڈ، سے اس قدر مغلوب ہو جائیں کہ وہ اسے گننے کی زحمت گوارا نہ کریں اور ایسا ہوا بھی لیکن پرجوش ہائی جیکرز چٹانوگا میں مسافروں کو رہا کرنے کے اپنے وعدے سے مکر گئے۔

یو پی آئی کے مطابق یرغمالیوں کو رہا کرنے کی بجائے، ہائی جیکرز ہوانا، کیوبا کے لیے ہوائی جہاز کو دوبارہ ہوا میں لے جانے کا حکم دیتے ہیں۔ طیارہ 2:30 پر کیوبا کے لیے ٹیک آف کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہوانا میں طیارہ شام 4:49 پر جوز مارٹی ہوائی اڈے پر اترتا ہے۔ کیوبا کے حکام کے ساتھ آمد کی شرائط پر بات چیت ناکام ہونے کے بعد طیارہ فلوریڈا کے لیے ٹیک آف کرتا ہے۔

(پائلٹ جانسن نے بعد میں صحافی نیل ایمبری کو بتایا کہ ہائی جیکروں نے کیوبا جانے کا مطالبہ یہ سوچ کر کیا تھا کہ کیوبا کے اس وقت کے آمر فیدل کاسترو ان کا کھلے بازووں سے استقبال کریں گے۔ اس امید کے پیش نظر کہ ان کے خیال میں ایک خوشگوار ملاقات ہو گی، انھوں نے عملے اور مسافروں میں رقم بانٹنا شروع کر دی، جسے بعد میں کیوبا کے حکام نے ان سے لے کر ایئر لائن کو واپس کر دیا تاہم جب وہ کیوبا میں اترے تو کاسترو نے انھیں وہاں سے جانے پر مجبور کر دیا۔)

مکوائے ایئربیس سے طیارہ ایندھن لے کر اڑتا ہے تو ایف بی آئی ایجنٹ ٹیک آف پر طیارے کے ٹائر اڑا دیتے ہیں۔ اس پراغوا کار پائلٹ ہیرلڈ جانسن کے بازومیں گولی مارتے ہیں۔

(مور نے بعد میں بتایا کہ یہ گولی حادثاتی طورپر لگی جبکہ جانسن نے کہا کہ ان کے ذہن میں والد، بیوی اور بیٹی کی تصویرگھومی اور انھوں نے فرش کے لیے غوطہ لگایا اور ایسا کرنے میں گولی سیٹ کے پیچھے سے اور ٹرے ٹیبل کے کنارے سے ان کے بازو میں جا لگی۔)

اس کے بعد ہوائی جہاز، جسے ہاس چلا رہے ہیں، جنوبی فلوریڈا کا چکر لگاتا ہے جبکہ ہائی جیکرز ریڈیو کے ذریعے صدر نکسن سے بات کرنے کا ناکام مطالبہ کرتے ہیں۔

طیارہ دوبارہ کیوبا کے لیے پرواز کی کوشش کرتا ہے، ہوا میں چکر کاٹتا ہے، جس سے ایندھن ختم ہو جاتا ہے اور 12:32 پر جھاگ سے ڈھکے رن وے پر اُترتا ہے۔

ہائی جیکنگ شروع ہونے کے 29 گھنٹے 12 منٹ بعد کیوبا کے حکام اطلاع دیتے ہیں کہ ہائی جیکروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، تاوان کی رقم واپس لے لی گئی ہے اور طیارے میں سوار تین افراد کو ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے، بشمول جانسن کے، جنھیں گولی ماری گئی تھی۔

مسافروں اور عملے کے افراد کو میامی واپس بھجوایا جاتا ہے۔

میٹل ڈیٹیکٹرز سے سکریننگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

5 جنوری 1973 سے تمام مسافروں کی میٹل ڈیٹیکٹرز سے سکریننگ شروع ہو گئی (فائل فوٹو)

’جہاز کا اغوا پولیس بربریت کے خلاف تھا‘

جیکسن، مور اور کیل نے سنہ 1980 میں امریکا کے حوالے کیے جانے سے پہلے آٹھ سال کیوبا کی جیل میں گزارے۔

تینوں ہائی جیکروں کو فروری 1981 میں برمنگھم میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔

جیکسن کو 25 سال اور مور اور کیل کو 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ کیل کو 1993 میں پیرول پررہا کیا گیا لیکن فوراً بعد ہی گرفتار کر لیا گیا، جب انھوں نے ایک اور ساتھی کی مدد سے چٹانوگا، ٹینیسی میں ایک بینک لوٹا۔ مور کو 1998 میں رہا کیا گیا۔

ڈیٹرائٹ فری پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے مور نے کہا کہ ان کے جرم کا محرک پولیس کی بربریت اور ناانصافی کو عام کرنے کی خواہش تھا۔

سدرن ایئرویز کی پرواز 49 کے عملے کے چار ارکان، ولیم ہاس، ہیرلڈ جانسن، ڈونا ہولمین، اور کیرن چیمبرز کو برمنگھم کے میئر جارج سیبلز نے 21 مئی 1973 کو ایک عشائیے پر شہر کی چابیاں پیش کیں۔

اس فلائیٹ کی ہائی جیکنگ کے بعد حفاظتی اقدامات لینا شروع کیے گئے۔

اس واقعے کے نتیجے میں ہوائی سفر کے حفاظتی اقدامات میں تبدیلیاں آئیں۔ کیوبا مستقبل میں ہائی جیکنگ کو روکنے پر امریکا کے ساتھ ایک محدود مکالمے پر رضامند ہوا۔

اغوا کار ہینڈ گنز اور نقلی ہینڈ گرینیڈ، ایک اوورکوٹ میں چھپا کر طیارے میں لے گئے تھے۔ بورڈنگ سے پہلے انھوں نے اس اوورکوٹ کو ایک دوسرے کو تھماتے ہوئے تلاشی سے بچا لیا تھا۔

اس لیے اس اغوا کے بعد 5 جنوری 1973 سے تمام مسافروں کی میٹل ڈیٹیکٹرز سے سکریننگ شروع ہو گئی اور ایئرپورٹس پر مسلح گارڈزبھی تعینات ہوئے۔

یہ اقدامات ایئر لائنز ہائی جیکنگ کے سلسلے کو روکنے میں موثر رہے۔

ایف بی آئی کے اہلکار ہائیجیک ہونے والے طیارے کا جائزہ لے رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایف بی آئی کے اہلکار ہائی جیک ہونے والے طیارے کا جائزہ لے رہے ہیں

ہائی جیکنگ کے واقعات کم ہوتے گئے

یونیورسٹی آف میری لینڈ اور فلوریڈا یونیورسٹی کی ایک مشترکہ تحقیق ہے کہ کیوبا اور امریکا کی حکومتوں کے بعد کے اقدامات نے اغوا کے واقعات میں بتدریج کمی لانے میں مدد کی۔

سنہ 1978 اور 1988 کے درمیان ہر سال ہائی جیکنگ کے اوسطاً تقریباً 26 واقعات ہوئے۔ نوے کی دہائی میں امریکی فضائی حدود میں نسبتاً امن تھا۔

جان ملر کے مطابق عالمی سطح پر تاہم ہائی جیکنگ اب بھی جاری تھی۔

سنہ 1993 اور 2003 کے درمیان ہائی جیکنگ کے سب سے زیادہ واقعات 1993 میں پیش آئے جب ہائی جیکرز تائیوان میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یورپ اور باقی مشرقی ایشیا بھی اس سے محفوظ نہیں تھے۔

دنیا بھر کے ممالک نے جہازوں کے اغوا سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ حکومتوں کے مابین اور بین الاقوامی میثاق اور معاہدے ہوئے۔ سزائیں تجویز ہوئیں اور دی بھی گئیں۔

حالیہ تاریخ میں دہشتگردی کے لیے طیارے 11 ستمبر 2001 کواغوا ہوئے۔ گو گیارہ ستمبر کے حملوں سے پہلے بھی واقعات کی تعداد کم ہو رہی تھی۔

2000 کی دہائی کے وسط میں ہائی جیکنگ ہوئی تو ضرور لیکن واقعات اور ہلاکتیں بہت کم تھیں۔ 2010 کے بعد سے ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں 15 ہائی جیکنگ ہو چکی ہیں، جن میں تین ہلاکتیں ہوئیں۔

یوں جہاز کا اغوا اب تلخ یاد ہی ہے اور عمومی بات نہیں۔ اسی لیے 87 سالہ جانسن اپنا زیادہ تر وقت اپنے شہر والنٹ رج کے ونگز آف آنر میوزیم میں گزارتے ہیں اور لوگوں کو اپنی کہانی سناتے ہیں۔

پچھلے سال نومبرمیں ایک اخباری انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا کہ ہائی جیکرزکی گولی کے ٹکڑے اب بھی ان کے بازو میں ہیں اور تقریباً نصف صدی بعد بھی وہ اپنے بازو اپنے کندھے سے اوپر نہیں اٹھا سکتے۔

BBCUrdu.com بشکریہ