غزہ کے یتیم بچے:’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنا خاندان کھو دیا لیکن میرے پاس اب بھی کچھ خواب موجود ہیں‘
،تصویر کا ذریعہMAHMOUD AKI
غزہ کی پٹی میں کام کرنے والا طبی عملہ ایک مخصوص جملے کی مدد سے جنگ زدہ ماحول اور اس کا شکار ہونے والے افراد کی صورتحال بیان کر رہے ہیں۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر تانیہ حاج حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’غزہ کی پٹی کے لیے ایک مخفف منفرد تو ہے مگر حالات کی عکاسی کرتا ہے، یہ مخفف ہے ’ڈبلیو سی این ایس ایف جس کے معنی ہیں ’ونڈڈ چائلڈ، نو سروائونگ فیملی‘ ہے جس کا مطلب ہے ’زخمی بچہ، جس کے خاندان میں اب کوئی بھی زندہ نہیں۔‘
یہ اظہار غزہ کے بہت سے بچوں کے لیے صورتحال کی ہولناکی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی زندگی ایک سیکنڈ میں بدل جاتی ہے، ان کے والدین، بہن بھائی اور دادا دادی مارے جاتے ہیں، اور کچھ بھی دوبارہ پہلے جیسا نہیں ہوتا ہے سب ختم ہو جاتا ہے۔
یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 کے قریب افراد حماس کی جانب سے یرغمال بنا لیے گئے اور اسرائیل نے غزہ پر اپنی فوجی چڑھائی کا آغاز کیا۔
غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اس تنازع میں اب تک 15 ہزار 500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں چھ ہزار بچے بھی شامل ہیں۔
احمد شبت ان بچوں میں سے ایک ہیں جنھیں ایک زخمی بچے کے طور پر بیان کیا گیا تھا، جب وہ شمالی غزہ کے انڈونیشیا ہسپتال میں زخمی حالت میں ایک بیڈ پر پڑے تھے اور زار و قطار رو رہے تھے۔
تین سالہ احمد نومبر کے وسط میں بیت حنون میں اپنے گھر پر فضائی حملے میں بچ تو گئے، لیکن ان کے والد، والدہ اور بڑے بھائی اس ہولناک حملے میں مارے گئے۔
معجزانہ طور پر اس وقت انھیں صرف معمولی چوٹیں آئی تھیں، بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ ان کا چھوٹا بھائی عمر، جس کی عمر دو سال ہے، بھی اس حملے میں بچ گیا تھا اور بڑے خاندان کے ایک بالغ رکن کی تلاش کے بعد وہ دوبارہ مل گئے تھے۔
احمد کے چچا ابراہیم ابو امشا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بم دھماکے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ انڈونیشیا ہسپتال میں ایک بچہ ہے اور اس کے ساتھ کوئی نہیں ہے، لہذا ہم فوری طور پر وہاں گئے۔ ’احمد ایک اجنبی کے ساتھ تھے۔ انھوں نے کہا کہ احمد دھماکے کے بعد دور جا گرے تھے اور وہ گھر سے تقریبا 20 میٹر (65 فٹ) کی دوری پر زخمی حالت میں پائے گئے۔
احمد اور عمر اب یتیم، بے گھر تھے ان کے پاس مسلسل گولہ باری سے بچنے کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں تھی، لہذا ابراہیم نے اپنے خاندان کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ ابتدائی طور پر انھیں شیخ رادوان شہر لے گئے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ دھماکے کے نتیجے میں ’احمد کے شیشے کے ٹکڑوں سے ٹکرانے‘ کے بعد وہاں سے چلے گئے۔
اس کے بعد وہ اقوام متحدہ سے وابستہ ایک سکول میں رہنے کے لیے نصرات کیمپ چلے گئے۔ لیکن یہاں تک کہ ان کے نئے مقام پر بھی، انھیں ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا، جس کے احمد کے لیے تباہ کن نتائج تھے۔
’میں سکول کے دروازے سے باہر بھاگا اور احمد کو زمین پر اپنے سامنے دیکھا، ان کی دونوں ٹانگیں غائب تھیں۔ وہ میری طرف رینگ رہے تھے اور اپنے بازو کھول کر مدد مانگ رہے تھے۔‘
دھماکے کے وقت احمد کے ساتھ موجود خاندان کے ایک رکن ہلاک ہو چکے تھے۔
ابراہیم، جو اب بھی اپنے خاندان اور اپنی بہن کے بچوں کے ساتھ بے گھر ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ احمد کو غزہ سے باہر علاج کے لیے بھیجنے کے قابل ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
احمد کے چچا نے اُداس لہجے میں کہا کہ ’وہ بہت کچھ بننا چاہتا تھا۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم فٹ بال میچ دیکھنے کے لیے ساتھ گئے تھے، تو ایسے میں انھوں نے ایک مشہور فٹ بال کھلاڑی بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہMOHAMMED AL-KAHLOUT
ماں کے لیے بلکنا
احمد کی طرح، مونا الوان بھی ایک جنگی یتیم ہیں اور جب وہ انڈونیشیا ہسپتال پہنچیں تو انھیں ڈبلیو سی این ایس ایف کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔
دو سال کی بچی مسلسل ’ماما‘ پکار رہی تھی اور زار و قطار رو رہی تھی، لیکن ان کی ماں مر چکی تھیں۔
شمالی غزہ کے علاقے جبل الرئیس میں ایک پڑوسی کے گھر پر فضائی حملے کے بعد مونا کو ملبے تلے سے نکالا گیا۔ مونا کے والدین، بھائی اور دادا مارے گئے تھے۔ مونا کی آنکھ بری طرح زخمی ہو گئی تھی اور ان کا جبڑا ٹوٹ گیا تھا۔
مونا کو دوسرے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی خالہ حنا نے ان کی تلاش میں پہنچیں۔
حنا کہتی ہیں کہ ’ہمیں انٹرنیٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ مونا ناصر ہسپتال میں ہیں۔ ہم آئے، اور ہم نے انھیں پہچان لیا۔‘ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کی بھتیجی شدید تکلیف میں مبتلا تھیں۔
حنا کہتی ہیں کہ ’مونا صرف چیخ رہی تھیں، گھبرائی ہوئی ڈری اور سہمی ہوئی رہتی ہیں، خاص طور پر اگر کوئی ان کے پاس آتا ہے۔‘
مونا کی بڑی بہنیں ہیں جو زندہ ہیں لیکن وہ غزہ شہر میں ہیں۔
حنا کہتی ہیں ’وہ پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں جنوب کی طرف لانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘ حنا نے مزید کہا کہ ’میں مسلسل خود سے یہ پوچھ رہی ہوں، کہ ہم کیا کریں گے؟ ہم اس کی ماں کی جگہ کیسے لیں گے یہ ناممکن ہے ایسا نہیں ہوسکتا مگر اس کا کیا ہوگا۔‘
،تصویر کا ذریعہMOHAMED AL-KAHLOUT
’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنے خاندان کو کھو دیا‘
جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس کے ناصر ہسپتال کے ایک کمرے کے کونے میں لوہے کے بستر پر 11 سالہ دنیا ابو محسن سفید پٹیوں میں لپٹی اپنی کٹی ہوئی دائیں ٹانگ کی جانب دیکھ رہی ہیں۔
لمبے گھنگھریالے بالوں والی یہ لڑکی بستر کے کنارے بیٹھی ہے، مخمل کا سرخ لباس پہنے ہوئے ہے، زیادہ تر وقت خاموش رہتی ہے اور بہت اداس دکھائی دیتی ہے۔
دنیا اپنے بھائی یوسف اور چھوٹی بہن کے ساتھ ایک فضائی حملے میں اس وقت بچ گئیں جب وہ جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس کے علاقے العمل میں اپنے گھر میں سو رہے تھے۔
لیکن ان کے والدین، بھائی اور بہن مارے گئے۔ انھوں نے اپنی دائیں ٹانگ بھی اس بمباری میں کھو دی۔
دنیا بتاتی ہیں کہ ’جب میں نے اپنے والد کو دیکھا، تو میں ڈر گئی تھی کیوں کہ وہ خون میں لت پت پتھروں کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ لوگ ہمارے ارد گرد کھڑے تھے، اور میری بہن چیخ رہی تھی۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو میری ٹانگیں نہیں تھیں۔ مجھے درد محسوس ہوا اور بس یہی خیال آیا کہ میری ٹانگیں کہاں گئیں اور یہ سب آخر ہوا کیسے؟‘
ان کی خالہ فدوا ابو محسن بتاتی ہیں کہ ’دنیا کو یاد نہیں کہ وہ کیسے اور کب ہسپتال پہنچی تھیں، لیکن انھیں یاد ہے کہ وہ وہاں اکیلی تھیں اور طبی عملہ ان کے اہل خانہ کی شناخت کے لیے بار بار ان سے سوالات پوچھ رہا تھا۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں نے نرس کو یہ کہتے ہوئے سنا، ’خدا ان پر رحم کرے۔‘ میں جانتی تھی کہ اس کا مطلب میری ماں اور باپ سے ہے۔‘
ہسپتال کے کمرے میں وہیل چیئر کے ساتھ بیٹھی ان کی خالہ کہتی ہیں: ’وہ چوٹ لگنے سے پہلے کھیل کود رہے تھے، بہت زیادہ متحرک تھے۔‘
دنیا کہتی ہیں کہ ’آج میں نے اپنی ٹانگ اور اپنی فیملی کھو دی لیکن میرے پاس اب بھی کچھ خواب موجود ہیں۔ میں مصنوعی ٹانگ حاصل کرنا چاہتی ہوں، سفر کرنا چاہتی ہوں، ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں، اور اس جنگ کو ختم کرنا چاہتی ہوں اور ہمارے بچے امن سے رہنا چاہتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے کمیونیکیشن مینیجر ریکارڈو پیریز کے مطابق غزہ کی پٹی میں یتیم بچوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا ’جنگ کے اس ماحول اور تیزی سے بدلتی ہوئی زمینی صورت حال‘ کو دیکھتے ہوئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
پیریز نے مزید کہا کہ تنظیم نے غزہ کے ہسپتالوں اور طبی عملے تک پہنچنے کی کوشش کی تاکہ بچوں کی شناخت اور ان کا اندراج کیا جا سکے، لیکن ’یہ کوششیں انتہائی مشکل حالات کی وجہ سے بہت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ نہ صرف ’افراتفری اور بھیڑ‘ کے ماحول میں پناہ گاہوں اور ہسپتالوں کی وجہ سے محفوظ اور عارضی دیکھ بھال کے انتظامات کی نشاندہی کرنا ’تقریبا ناممکن‘ ہے، بلکہ ’دستاویزات کی شناخت، تلاش کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ بچوں کو دوبارہ ملانے کا عمل انتہائی مشکل ہے۔‘
Comments are closed.