40 سال تک کیوبا کے لیے جاسوسی کرنے والے امریکی سفارتکار جو خود ایک ’جاسوس‘ کے جال میں پھنس کر گرفتار ہوئے

وکٹر مینوئیل روچا

،تصویر کا ذریعہAFP VIA GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

73 سالہ وکٹر مینوئیل روچا پر الزام ہے کہ وہ 1981 سے کیوبا کو امریکہ کیخلاف معلومات فراہم کرنے میں مدد کر رہے تھے

  • مصنف, میڈلین ہالپرٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، نیو یارک

ایک سابق امریکی سفارت کار، جو لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا میں سفیر بھی رہ چکے ہیں، پر 40 سال کیوبا کی حکومت کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام عائد ہوا ہے۔

73 سالہ وکٹر مینوئیل روچا پر الزام ہے کہ وہ 1981 سے کیوبا کو امریکہ کیخلاف معلومات فراہم کرنے میں مدد کر رہے تھے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق وکٹر نے امریکہ کے لیے ’دشمن‘ کا لفظ استعمال کیا اور دعوی کیا کہ بطور خفیہ ایجنٹ انھوں نے ’انقلاب کو مضبوط کیا۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق سابق سفارتکار کو گزشتہ جمعے کے روز میامی سے گرفتار کیا گیا تھا جس سے قبل تقریباً ایک سال تک ایک خفیہ آپریشن کے ذریعے ان کی نگرانی کی جاتی رہی۔

اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا ہے کہ کسی بھی غیر ملکی جاسوس کی جانب سے یہ سب سے طویل کارروائی تھی جو ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔

انھوں نے کہا کہ 40 سال تک وکٹر مینوئیل روچا کیوبا کی حکومت کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے رہے اور ’انھیں حکومت میں ایسے عہدے ملتے رہے جن کی مدد سے انھیں حساس معلومات تک رسائی بھی حاصل تھی اور وہ امریکی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔‘

واضح رہے کہ وکٹر مینوئیل کولمبیا میں پیدا ہوئے لیکن نیو یارک میں پلے بڑھے۔ انھوں نے ہارورڈ اور جارج ٹاون سے تعلیم حاصل کی۔

1999 سے 2002 تک وکٹر بولیویا میں امریکی سفیر تعینات رہے۔ استغاثہ کے مطابق 25 سال تک وہ نیشنل سکیورٹی کونسل سمیت کئی اعلی حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔

بولیویا کے علاوہ وکٹر ارجنٹینا، ہونڈورس، میکسیکو اور ڈومینیکن ریپبلک میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ اور کیوبا کے تعلقات 60 سال قبل اس وقت سردمہری کا شکار ہو گئے تھے جب فیدل کاسترو کی سربراہی میں باغیوں نے امریکہ نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ 1960 میں کیوبا میزائل بحران کے وقت امریکہ نے بحری ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

تاہم سابق امریکی صدر باراک اوبامہ اور کیوبا کے راول کاسترو نے 2015 میں تعلقات بحال کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے لیکن پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ان اقدامات پر پیشرفت ختم کر دی گئی۔

سوموار کو عدالت میں پیش ہونے والی دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ وکٹر نے کئی بار کیوبا کا دورہ کیا۔ ان دستاویزات سے یہ علم نہیں ہوتا کہ انھوں نے کیا معلومات اور راز کیوبا کو فراہم کیے تاہم امریکی ایف بی آئی کے اس خفیہ آپریشن کی تفصیلات موجود ہیں جس کے ذریعے ان کو گرفتار کیا گیا۔

نومبر 2022 میں خفیہ ایف بی آئی ایجنٹ نے وکٹر سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا اور دعوی کیا کہ وہ کیوبا کے خفیہ اداروں کے نمائندے ہیں جن کے پاس ’ہوانا سے دوستوں کا ایک پیغام موجود ہے۔‘

وکٹر مبینہ طور پر ایجنٹ سے کئی بار ملنے پر تیار ہوئے۔ ایک ملاقات ایک فوڈ کورٹ میں طے ہوئی جہاں وکٹر کے مطابق ’کوئی ان کو دیکھ نہیں پائے گا۔‘

عدالتی دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ خفیہ ایف بی آئی ایجنٹ سے ان ملاقاتوں کے دوران وکٹر نے رفتہ رفتہ کیوبا کے لیے بطور جاسوس کام کرنے کے حوالے سے بات کرنا شروع کر دی۔

انھوں نے ایف بی آئی ایجنٹ کو بتایا کہ ’مجھے علم تھا کہ یہ کام کیسے کرنا ہے اور کیوبا کی خفیہ ایجنسی نے میرا ساتھ دیا۔۔۔ یہ ایک طویل عمل تھا جو آسان نہ تھا۔‘

استغاثہ نے الزام عائد کیا کہ وکٹر بطور جاسوس اپنی سرگرمیوں پر کافی ’خوش‘ تھے۔

مبینہ طور پر وکٹر نے کیوبا کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’ہم‘ کا لفظ استعمال کیا اور کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ ’ہم نے جو کچھ حاصل کیا اس کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔‘

جب خفیہ ایجنٹ نے سوال کیا کہ ’کیا آپ اب بھی ہمارے ساتھ ہیں‘ تو وکٹر نے جواب دیا کہ ان کی وفاداری پر سوال اٹھانے پر ان کو ’غصہ‘ آیا۔

’یہ میرے مردانہ پن پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔‘

ایک موقع پر وکٹر نے کہا کہ وہ چھوٹے جہازوں کو گرانے کی مہم کے انچارج تھے۔ استغاثہ نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ حوالہ اس واقعے کا ہے جب کیوبا نے امریکی حمایت یافتہ کاسترو مخالف گروہ کے دو طیاروں کو مار گرایا تھا۔

1996 میں پیش آنے والے اس واقعے کے وقت وکٹر ہوانا میں ہی تعینات تھے۔

سابق سفارت کار پر امریکی حکومت کو گمراہ کن اور غلط معلومات فراہم کرنے کا بھی الزام ہے۔

سوموار کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بیان میں کہا کہ ادارہ امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر یقینی بنائے گا کہ مبینہ سکینڈل کے باعث نقصان کو محدود کیا جا سکے۔

انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’آنے والے دنوں، ہفتوں، مہینوں میں ہم انٹیلیجنس کمیونٹی میں پارٹنرز کے ساتھ مل کر اس معاملے کے قومی سلامتی پر طویل المدتی اثرات کا جائزہ لیں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ