باغ کی سجاوٹ کے لیے پڑا ’دوست‘ 100 سال پرانا بم نکلا جو کبھی بھی پھٹ سکتا تھا

باغ کی سجاوٹ کے لیے بم کا استعمال جو خوش قسمتی سے 100 سال تک نہ پھٹا

،تصویر کا ذریعہJEFFREY EDWARDS

  • مصنف, کیتھرن ایونز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

یہ کہانی ایک جوڑے کی ہے جس نے اپنے باغ کی سجاوٹ کے لیے وہاں ایک پرانا بحری شیل رکھا ہوا تھا۔ مگر ایک دن جب بم ڈسپوزل سکواڈ نے ہنگامی بنیادوں پر پہنچ کر اسے ناکارہ بنایا تو انھیں ایسا لگا جیسے ’ایک پرانا دوست بچھڑ گیا ہے۔‘

19ویں صدی کے اواخر کا یہ شیل ویلز کے علاقے ملفورڈ ہیون میں سیان اور جیفری ایڈورڈز کے گھر کے باغ میں پڑا تھا۔

جوڑے کا خیال تھا کہ یہ بم ’ڈمی‘ ہے جس میں دھماکے کی صلاحیت نہیں۔ مگر پھر وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ 29 کلو گرام کا ’نیول پروجیکٹائل‘ ناکارہ نہیں تھا جس کی وجہ سے اسے اس جگہ سے ہٹا دیا گیا ہے۔

مسز ایڈورڈز بتاتی ہیں کہ وہ باغبانی کرتے ہوئے جب کھرپی کی مدد سے مٹی ہٹا رہی ہوتی تھیں تو اکثر اس شیل کو زوردار ضرب لگاتی تھیں۔

باغ کی سجاوٹ کے لیے بم کا استعمال جو خوش قسمتی سے 100 سال تک نہ پھٹا

،تصویر کا ذریعہJEFFREY EDWARDS

پھر بدھ کی شام ایک پولیس افسر نے ان کے دروازے پر دستک دی اور کہا اس نے باغ میں ایک شیل دیکھا ہے اور اسے فوراً وزارت دفاع کو اطلاع دینی ہوگی۔ ایک گھنٹے بعد حیرت میں مبتلا جوڑے کو بتایا گیا کہ اگلے دن بم ڈسپوزل سکواڈ آئے گا۔

اس رات مسٹر اور مسز ایڈورڈز سو ہی نہیں پائے۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ شاید پوری گلی کے رہائشیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے گا۔

مسٹر ایڈورڈز کہتے ہیں کہ ’نیند تو کیا ہم پوری رات آنکھیں بھی نہ جھپک پائے۔ ہم بہت پریشان تھے۔‘

’میں نے بم ڈسپوزل یونٹ سے کہا کہ ہم اپنا گھر نہیں چھوڑیں گے، ہم یہیں رہیں گے۔ اگر یہ پھٹا تو ہم اس کے ساتھ مریں گے۔‘

ٹیم کے تجربوں نے ثابت کیا کہ یہ بم فعال تھا مگر اس کی دھماکے کی صلاحیت بہت کم رہ گئی تھی۔ اسے ایک قلعے کے نہ استعمال ہونے والے گڑھے میں لا جایا گیا اور اس پر پانچ ٹن ریت ڈال کر اسے ڈیٹونیٹ کیا گیا۔

باغ کی سجاوٹ کے لیے بم کا استعمال جو خوش قسمتی سے 100 سال تک نہ پھٹا

،تصویر کا ذریعہJEFFREY EDWARDS

’یہ ایک پرانا دوست تھا‘

77 سالہ مسٹر ایڈورڈ اسی گلی میں تین سال کی عمر سے رہائش پذیر ہیں اور اس نیول شیل سے بچھڑنا ایسا ہی تھا جیسے وہ کسی پرانے دوست سے بچھڑ گئے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ’بیچارے‘ کے ’ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔‘

مسٹر ایڈورڈز کو اس بم کی کہانی موریس فیملی نے سنائی تھی جو ان سے پہلے اس گھر میں رہتے تھے۔ انھیں یہ بم 100 سے زیادہ سال پہلے ملا تھا۔ ’رائل نیوی کے جنگی جہاز سینٹ برائیڈز کے ساحلی علاقے میں لنگر انداز ہوتے تھے اور اپنی توپیں براڈ ہیون پر تان کر فائر کرتے تھے۔‘

’وہ ٹارگٹ پریکٹس کے لیے ریت استعمال کرتے تھے۔ وہ یقینی بناتے تھے کہ اس وقت وہاں کوئی نہ ہو۔‘

’پوپ موریس گھوڑا گاڑی پر لیمو پانی بیچ رہے تھے جب انھیں براڈ ہیون پر یہ شیل ملا۔ انھوں نے بڑی مشکل سے اسے اپنی گاڑی پر لادا اور سات میل دور اُچھل کود سے بھرپور سفر کے بعد اپنے گھر پہنچے۔‘

’انھوں نے اسے باغ میں سجا کر رکھا اور یہ اس عرصے کے دوران وہیں پڑا رہا ہے۔‘

پھر 1982 میں ایڈورڈ فیملی نے گھر خریدا اور باغ کی تزئین و آرائش کرتے ہوئے میچنگ سرخ پینٹ کر دیا۔ ’یہ دو جنگوں کے دوران یہیں پڑا رہا۔‘

وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اسے پولیس نے مشتبہ جنگی ہتھیار کی اطلاع دی تھی۔ ’ٹیم نے اس کا جائزہ لیا ہے بتایا کہ یہ نیول پروجیکٹائل ہے۔ اسے جائے وقوعہ سے ہٹایا گیا اور پھر دھماکے کے ذریعے ناکارہ بنایا گیا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ