فلسطین میں تعمیر نو کو درپیش چیلنج: ’جنگ ختم ہو گئی لیکن ہمارے پاس مرمت کے پیسے نہیں، مجھے اپنا خوبصورت گھر واپس چاہیے‘
- یولانڈا نیل
- بی بی سی نیوز، یروشلم
اسرائیل کے ساتھ حالیہ لڑائی کے بعد حماس کے جنگجو راکٹوں، میزائل لانچرز اور ڈرون کے ساتھ غزہ کی پٹی میں پریڈوں میں شریک ہوئے ہیں۔
حماس کی موجودگی بین الاقوامی فلاحی تنظیموں کے لیے ایک چیلنج بھی ہے۔ یہ تنظیمیں غزہ میں تعمیرِ نو تو کرنا چاہتی ہیں مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ وہ ایک ایسی تنظیم کو وسائل دیں جسے امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل ایک دہشتگرد تنظیم مانتے ہیں۔
مغربی کنارے اور یروشلم کے اپنے حالیہ دورے کے دوران برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ڈومینک راب نے مجھے بتایا کہ ’اس بات کی یقین دہانی ’بہت ضروری ہے‘ کہ فنڈز حماس کی جیبوں کی بجائے فلسطینی عوام تک پہنچیں۔‘
غزہ پر حکومت کرنے والی اسلام پسند تنظیم حماس، اسرائیل کے وجود کے حق کو نہیں مانتی۔
اقوام متحدہ کے مطابق حالیہ تنازعے میں غزہ میں 16 ہزار سے زیادہ گھر، 58 سکول یا تربیتی مراکز، نو ہسپتال اور 19 کلینک سمیت ساہم انفراسٹرکچر یا تو تباہ ہو گیا یا انھیں نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے عسکریت پسندوں کے ایک ہزار سے زیادہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
غزہ شہر کی خالدی فیملی ان ہزاروں خاندانوں میں شامل ہے جو بے گھر ہو گئے ہیں۔ جب اسرائیل کے جنگی طیاروں نے ان کے پڑوس میں موجود عمارت کو نشانہ بنایا تو ان کا گھر بھی اس کی زد میں آ گیا۔
وادل خالدی جو اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ اب اپنے ایک رشتہ دار کے گھر میں رہ رہی ہیں، بتاتی ہیں کہ ’مجھے اپنے بیٹے کے کھلونوں سے کرچیاں ہی کرچیاں ملیں۔ میں نقصان دیکھ کر بہت روئی۔‘
’جنگ ختم ہو گئی ہے لیکن ہمارے پاس مرمت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ مجھے صرف اپنا خوبصورت گھر واپس چاہیے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق حالیہ تنازعے میں غزہ میں 256 افراد مارے گئے ہیں جبکہ اسرائیل کے 13 افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں مارے جانے والے کم از کم 128 افراد عام شہری تھے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ 200 افراد عسکریت پسند تھے تاہم حماس کے رہنما یحییٰ سنور کا کہنا ہے کہ اس کے 80 جنگجو مارے گئے ہیں۔
اسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ کی زمینی اور سمندری ناکہ بندی کی وجہ سے تعمیر نو کا کام پیچیدہ اور سست روی کا شکار ہو سکتا ہے۔
ناکہ بندیوں کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب سنہ 2007 میں حماس نے ایک خونی جنگ کے بعد فلسطینی اتھارٹی سے غزہ کا کنٹرول لے لیا۔
ان ناکہ بندیوں کی وجہ سے غزہ میں معاشی صورتحال تو ابتر ہے لیکن اس کا حفاظتی مقصد بھی جزوی طور طور پر ہی کامیاب ہوا ہے: جو عسکریت پسندوں تک اسلحہ اور دوسرے سامان کی فراہمی کو روکنا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق مئی میں 11 روز تک جاری رہنے والے اس تشدد میں غزہ کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں 4300 راکٹ فائر کیے گئے جس سے گھروں اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔
جس شدت کے ساتھ ان راکٹس کو فائر کیا گیا وہ سنہ 2014 میں ہونے والی لڑائی سے کہیں زیادہ تھی۔
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نئیر ایسٹ پالسی میں کام کرنے والے اسرائیل کے ریٹائر بریگیڈیئر جنرل میکائیل ہرزوگ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے خود کو بھرپور تیار کیا ہے اور ایک بھاری پے لوڈ کے ساتھ اپنے ہتھیاروں میں کچھ طویل فاصلے تک مارک کرنے والے راکٹ شامل کیے ہیں، ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو بڑھایا ہے۔‘
سنہ 2014 میں مصر نے غزہ سے ملحق اپنی سرحد کے نیچے موجود سمگلنگ کی سرنگوں کو تباہ کیا اور ایران سے لائے جانے والے میزائلوں کو روک دیا۔
تاہم حماس اور اسلامی جہاد، جو ایک چھوٹا گروپ ہے، کے عسکریت پسند خفیہ ورکشاپس میں اپنے راکٹ تیار کرنے کے لیے ایرانی مہارت کو تیزی سے استعمال کرتے ہیں۔
گذشتہ برس الجزیرہ کی ایک دستاویزی فلم میں حماس کے کمانڈروں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے غزہ میں ترک کی گئی اسرائیلی بستیوں میں موجود پانی کے پائپس سے میزائل بنائے تھے۔
میکائیل ہرزوگ کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے لیکن سب سے اہم بات جس کا انکشاف نہیں کیا گیا وہ یہ کہ حماس بہت سے مواد کا ’دوہرا استعمال‘ کرتا ہے اور اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اسرائیل ایسی چیزوں کی درآمد پر سختی سے پابندی عائد کرتا ہے جن کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے پائپ، سیمنٹ اور لوہا۔ مصر نے عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مواد کی محدود سپلائی کی اجازت دے رکھی ہے۔
لیکن ابھی بھی اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ پر حالیہ بمباری میں اس نے عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کی 100 کلومیٹر لمبی سرنگ کو تباہ کیا ہے جسے حماس نے لاکھوں ڈالرز کی مدد سے تیار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
اقوام متحدہ پر دباؤ ہے کہ وہ اس وسیع طریقہ کار میں اصلاح کرے جو اس نے سنہ 2014 کے تنازع کے بعد غزہ میں تعمیراتی سامان کے داخلے کی نگرانی کے لیے تشکیل دیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی کے لیے اقوام متحدہ کی ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر لائن ہیسٹنگز کہتی ہیں کہ ’ہم اس بارے میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اس عمل میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔‘
غزہ میں جانے والے تمام سامان کو منظور شدہ درآمد کنندگان احتیاط سے چیک کرتے ہیں اور ان کی نگرانی کیمروں کے ذریعہ کی جاتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے انسپکٹر چیک کرتے ہیں کہ متعلقہ سامان صرف جائز مرمت کے لیے ہی استعمال ہو۔ یہ سارا ڈیٹا اسرائیلی انٹیلیجنس کے ساتھ شییر کیا جاتا ہے۔
امریکہ اور امداد دینے والے دیگر ممالک کا اصرار ہے کہ بین الاقوامی سطح پر قبول شدہ فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کی تعمیر نو میں شراکت دار رکھنا چاہیے۔
اس کے علاوہ قطری فنڈز، جو پہلے براہ راست فلسطینی علاقے میں جا چکے ہیں، کے بھی کچھ مطالبات ہیں۔
کچھ مبصرین اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح سے پی اے کی قیادت کو فروغ دینے اور اس کو قانونی حیثیت دینے کے لیے امداد کو سفارتی آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
غزہ میں حالیہ کشیدگی سے پہلے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے 15 برس میں ہونے والے پہلے پارلیمانی الیکشن کو ملتوی کر دیا۔ محمود عباس کے مطابق ایسا اسرائیل کی جانب سے یروشلم میں ووٹ ڈالنے پر پابندی کی وجہ سے ہوا لیکن بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ حماس سے ہار جانا ہے۔
ممتاز فلسطینی وکیل ڈیانا بٹو کہتی ہیں ’یہ بہت پریشان کن ہے۔‘
’مؤثر انداز میں بغیر الیکشن کے الیکشن کے نتائج مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ غزہ کے لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں تو ہم الیکشن کے لیے زور نہیں ڈالیں گے لیکن ہم ان لوگوں کے لیے دباؤ ڈالیں گے جن کو ہم انچارج بنانا پسند کرتے ہیں۔‘
قاہرہ غزہ میں جنگ بندی کو تقویت پہنچانے کے سلسلے میں فلسطینی دھڑوں اور اسرائیل کے ساتھ امداد کے بارے میں بات چیت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس پیچیدہ صورتحال میں دو لاپتہ اسرائیلی شہریوں اور حماس کے زیر قبضہ دو اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کو واپس کرنے کے اسرائیلی مطالبات بھی شامل ہیں۔
اس تباہی کے دوران حماس کے رہنماؤں نے فلسطینیوں کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے کہ جن گھروں کی مرمت کی ضرورت ہے، ان کو ٹھیک کردیا جائے گا۔
لیکن غزہ میں موجود وادلخالدی جانتی ہیں کہ انھیں طویل انتظار کرنا ہو گا۔
’مجھے سیاست کی فکر نہیں اور نہ ہی اس بات کی کہ پیسے کون دے گا لیکن میں چاہتی ہوں کہ حماس اپنے عہد کی پابندی کرے۔‘
Comments are closed.