لاہور ہائی کورٹ نے عورت مارچ کے منتظمین اور ڈپٹی کمشنر لاہور کو دن 2 بجے تک مل کر مارچ کی جگہ فائنل کرنے کی ہدایت کر دی۔
عورت مارچ کی اجازت کے لیے درخواست کی لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر لاہور اور ایس پی سول لائنز عدالت میں پیش ہوئے۔
لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بھی انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ جائیں اور جگہ کا تعین کریں۔
ڈپٹی کمشنر لاہور نے کہا کہ ضلعی انٹیلی جنس کمیٹی نے بتایا کہ امن و امان کی صورتِ حال ٹھیک نہیں۔
جسٹس انوار حسین نے کہا کہ ہر دفعہ یہ معاملات ہائی کورٹ میں آتے ہیں۔
ڈی سی لاہور نے عدالت کو بتایا کہ اس دفعہ عورت مارچ کے لیے ناصر باغ کی درخواست دی گئی، پی ایس ایل بھی چل رہا ہے، ٹیم موومنٹ ہوتی ہے۔
جسٹس انوار حسین نے کہا کہ پھر جلسے جلوس کیوں ہو رہے ہیں، جب کسی سیاسی لیڈر کی پیشی ہوتی ہے تو پولیس ایکٹو ہو جاتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ گزشتہ سال بھی عورت مارچ کے موقع پر تصادم ہو گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ انہیں عورت مارچ سے نہیں روک سکتے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ پریس کلب کے باہر عورت مارچ کر سکتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی امن و امان برقرار رکھنے کی ذمے داری ہے، عورت مارچ کے منتظمین بھی ذمے داری لیں کہ ہنگامہ نہیں ہو گا، ڈی سی کا اجازت نہ دینے کا نوٹیفکیشن درست نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ جب سیاسی جماعتیں بھی جلسے کرتی ہیں تو وہ انتظامیہ کے ساتھ بیٹھتی ہیں، آپ لوگ بھی انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ جائیں اور جگہ کا تعین کر لیں۔
عدالت نے دن دو بجے تک سماعت ملتوی کر دی۔
Comments are closed.