الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر اور بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
محسن رانجھا کے وکیل خالد اسحاق الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے اثاثوں کی تفصیلات جمع کراتے وقت توشہ خانے کے تحائف ظاہر نہیں کیے، عمران خان کا جواب آ گیا ہے، جواب میں تسلیم کیا گیا کہ یہ اثاثے حاصل کیے گئے، تحائف مقررہ وقت پر ظاہر نہ کرنے کی وجہ یہ دی کہ ایسے تحائف ظاہر نہیں کیے جاتے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ علی ظفر ہنس رہے ہیں کہ ملین روپے کے کون سے کف لنک ہیں۔
وکیل خالد اسحاق نے بتایا کہ ایک کف لنک 57 لاکھ روپے کا ہے، عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ ہم نے تحائف بیچ دیے، ان کا کہنا ہے کہ تحائف اس لیے ظاہر نہیں کیے کیونکہ انہیں بیچ دیا، انہوں نے تحائف کو تسلیم کیا ہے، یہ تحائف کس نے خریدے، کیسے ادائیگی کی گئی؟ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ دائرہ اختیار نہیں۔
محسن شاہنواز رانجھا کے وکیل خالد اسحاق نے الیکشن کمیشن کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ننکانہ کے ضمنی الیکشن میں عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی میں توشہ خانہ کیس پر سوال اٹھا، آر او سے عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس حوالے سے مجاز فورم ہے، ممبر بننے کے بعد کسی رکن کی نااہلی کا اختیار خصوصی طور پر الیکشن کمیشن کے پاس ہے؟ اسپیکر نے سوال الیکشن کمیشن کو ارسال کیا ہے، سوال ہے کہ عمران خان نے اثاثے فارم بی میں ظاہر نہیں کیے، کرپٹ پریکٹس میں متعلقہ فورم نااہل کرتا ہے، سیشن جج نااہل نہیں کر سکتا، وہ سزا سنا سکتا ہے۔
محسن شاہنواز رانجھا کے وکیل نے کہا کہ پاناما کیس میں نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا، توشہ خانہ کیس میں کوئی چیز متنازع نہیں ہے، یہ کیس کسی اور فورم کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن آئین میں دیے گئے اختیار سے کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔
محسن شاہنواز رانجھا کے وکیل خالد اسحاق کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عمران خان کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے شواہد کے مطابق عمران خان کو نااہل کرنے کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا، اسپیکر نے یہ ریفرنس 5 اراکین کی درخواست پر فائل کیا، ریفرنس میں کہا گیا کہ 63 ٹو کے تحت درخواست دائر کی گئی، ریفرنس میں کہا گیا کہ عمران خان نے توشہ خانے کے تحائف الیکشن کمیشن سے چھپائے، مزید کہا گیا کہ عمران خان 62 ون ایف کے تحت نااہل ہیں کیونکہ وہ صادق اور امین نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے یہ فرض کر کے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج دیا، ریفرنس میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان نے ٹیکس ریٹرن میں تحائف ظاہر کیے، نا اہلی کا 62 ون ایف کے تحت سوال ہی نہیں سوائے اس کے کہ عدالت کا کوئی فیصلہ ہو، اگر کسی نے اثاثے ظاہر نہیں کیے تو اسپیکر ریفرنس نہیں بھیجتا، یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے، قانون اثاثے ظاہر نہ کرنے پر 120 دن میں کیس کی بات کرتا ہے، یہ نہیں کہ 10 سال بعد کیس کر دیں، یہ سیاسی کیس ہے، اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ عمران خان نے اثاثے ظاہر نہیں کیے، ہم نے سارے چالان، اثاثے، ٹیکس ریٹرن جواب میں لگا دیے ہیں۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیا کسی عدالت نے ڈکلیئریشن دیا کہ عمران خان صادق اور امین نہیں، اگر عدالت کا اس حوالے سے فیصلہ نہیں تو اسپیکر عمران خان کی نا اہلی کا ریفرنس کیسے بھیج سکتے ہیں، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، آئین کے تحت کمیشن قائم ہوا، الیکشن کمیشن عدالت نہیں، الیکشن کمیشن کے پاس قانونی اختیارات ہیں لیکن آپ عدالت نہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پہلے 4 تحائف 19-2018ء کے ہیں، اس ہی سال فروخت کر دیے، یہ 4 اثاثے ہم نے فروخت کر دیے، الیکشن کمیشن میں یہ تفصیلات دسمبر میں جمع کرانی ہوتی ہے، فروخت کی رسید انکم ٹیکس ریٹرن میں موجود ہے، تحائف کی 5 کروڑ 80 لاکھ آمدن پر جو ٹیکس دیا وہ ہم نے ڈکلیئر کیا ہے، 2021ء تک کی تفصیلات جواب میں دے دی ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اگر کہیں کسی تفصیل پر شک پڑتا ہے تو الیکشن کمیشن اس کی اسکروٹنی کرتا ہے، ہمارے کیس میں الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض نہیں لگایا، 2020-2019ء میں ہمیں 17 لاکھ کے تحائف ملے۔
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ نے جو تحائف خریدے، رقم توشہ خانے کو ادا کی، وہ رقم کہاں سے آئی۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ بات ہم نے آپ کو نہیں دکھانی۔
علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
Comments are closed.