علاقائی اثرو رسوخ سے تیل کی پیدوار تک۔۔۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تنازعات میں جیت کس کی ہو گی؟
علاقائی اثرو رسوخ سے تیل کی پیدوار تک۔۔۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تنازعات میں جیت کس کی ہو گی؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سمایا نصر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، عربی
حال ہی میں سامنے آنے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرۂ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر کیے جانے والے حملوں کا مقابلہ کرنے کی امریکی کوششوں کو اس کے خلیجی اتحادیوں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ایک بڑی رکاوٹ کا سامنا ہے۔
بلومبرگ نیوز نے یمنی اور سعودی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ابوظہبی حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کرتا ہے، جب کہ ریاض کو خدشہ ہے کہ اس طرح کی کشیدگی حوثیوں کو مشتعل کرنے، یمن میں نازک جنگ بندی کو خطرے میں ڈالنے اور مستقل جنگ بندی تک پہنچنے کی مملکت کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ دونوں خلیجی عرب اتحادیوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے ہیں۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے اقتصادی، سیاسی اور تزویراتی شراکت داری رہی ہے، جو کہ دو خلیجی ہمسایہ ممالک کے محل وقوع اور ان کے ایک جیسے مفادات کا نتیجہ ہے۔ مزید یہ کے دونوں کو خطے میں مشترکہ چیلنجوں کا بھی سامنا ہے جس نے انھیں بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر ہم آہنگی رکھنے والے اتحادی بنا رکھا ہے۔
لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات معیشت اور آبادی کے حجم کے لحاظ سے خلیج تعاون کونسل کے دو سب سے بڑے ممالک ہیں، ان کے درمیان مقابلہ ہونا بھی فطری بات ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب ایک نئی تنظیم کی موجودگی ہو۔
دونوں ملکوں کے حکمرانوں کے مقاصد، عزائم اور وژن بعض اوقات ان کے ہم منصبوں سے متصادم ہوتے ہیں۔
اگرچہ یہ مقابلہ عام طور پر پردے کے پیچھے ہوتا ہے، لیکن ایسے معاملات بھی ہیں جن میں دونوں ممالک کے مفادات میں ٹکراؤ یا تصادم ہے، جس کی وجہ سے مبصرین نے ان کے درمیان تعلقات میں دراڑ کی نشاندہی کی ہے۔
تیل کی پیدوار سے متعلق تنازع
دونوں ممالک کے درمیان پچھلی دو دہائیوں کے دوران رونما ہونے والے سب سے نمایاں عوامی معاشی تنازعات میں سے ایک شاید متحدہ عرب امارات کا خلیج تعاون کونسل کے مرکزی بینک کے صدر دفتر کی میزبانی کی ریاض کی تجویز پر اعتراض اور خلیجی مالیاتی یونین کے معاہدے سے دستبرداری تھی۔ جس نے ایک متحدہ خلیجی کرنسی اور کونسل کے ساتھ منسلک مرکزی بینک کے اجرا کے منصوبے میں خلل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جولائی 2021 میں سعودی عرب اوپیک پلس کے رکن ممالک کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کو بڑھانا چاہتا تھا، جس کی میعاد اپریل 2022 میں ختم ہونے والی تھی تاکہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران تیل کی قیمتوں میں تیزی سے ہونے والی گراوٹ کے نتیجے میں رکن ممالک کو ہونے والے نقصانات کی تلافی اور مارکیٹ کے استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔
تاہم اماراتی وزیر توانائی سہیل المزروعی نے اپنے ملک کی پیداوار میں حصہ بڑھانے پر اصرار کرتے ہوئے میڈیا بیانات میں کہا کہ ’ہمارے لیے ناانصافی کے تسلسل کو قبول کرنا اور اس سے زیادہ قربانی دینا ممکن نہیں ہے جتنا ہم نے صبر اور قربانی دی ہے۔‘
اگرچہ ایک ماہ بعد ایک سمجھوتہ طے پا گیا تاہم کشیدگی برقرار رہی اور متحدہ عرب امارات کے اوپیک پلس سے دستبرداری کے ارادے کے بارے میں قیاس آرائیاں اور افواہیں پھیل گئیں، جس کی اماراتی حکام نے تردید کر دی۔
ایک سابق امریکی سفارت کار ڈاکٹر چارلس ڈن کا خیال ہے کہ اگرچہ ’فریقین نے تنازعے کو کم کیا، لیکن اس نے متحدہ عرب امارات کے غصے کو ظاہر کیا جسے وہ سعودی عرب پر غلبہ حاصل کرنے کی خواہش سمجھتا تھا۔‘
اس واقعے کے بعد دو سیاسی طور پر طاقتور خلیجی ریاستوں کے درمیان اوپیک کے اندر اور باہر تناؤ پیدا ہوا۔
متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کیے تھے
مسابقتی معاشی وژن
حالیہ برسوں میں سعودی عرب اپنے اقتصادی ذرائع کو متنوع بنانے، تیل پر انحصار کم کرنے اور انفراسٹرکچر، ایوی ایشن، سیاحت اور کھیل جیسے شعبوں میں اپنے علاقائی اور بین الاقوامی کردار کو وسعت دینے کے لیے 2030 کے ترقیاتی وژن کے فریم ورک میں تیزی لایا ہے۔
اس اقدام کے بعد یہ ناگزیر سمجھا جا رہا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک مقابلے کی فضا پیدا ہو جائے گی تاکہ ان میں سے ہر ایک خلیج اور مشرق وسطیٰ میں تجارت اور سرمایہ کاری کا مرکز بن سکے۔
مثال کے طور پرسعودی عرب نے اس سال کے شروع میں سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت میں ایک نئی ایئر لائن، ریاض ایئر کے آغاز کا اعلان کیا۔ کمپنی اپنے خلیجی پڑوسیوں، خاص طور پر ایمریٹس ایئر لائنز اور اتحاد ایئرویز کے ساتھ مقابلہ کرے گی، کیونکہ اس کا مقصد 2030 تک 100 سے زائد مقامات پر پروازیں چلانے کا ہے۔
ماہرین کے خیال میں سعودی عرب نے خلیجی پڑوسی کو ایک اور اقتصادی چیلنج دیا ہے۔ ریاض نے 2021 میں آزاد اقتصادی زونز سے درآمد کی جانے والی اشیا کو دی جانے والی کسٹم مراعات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا جسے ماہرین نے متحدہ عرب امارات کی معیشت کے لیے ایک دھچکا سمجھا جو ان علاقوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ جیسا کہ یو اے ای سعودی عرب کو سب سے زیادہ اشیا سپلائی کرنے والے ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
سعودی عرب نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ان مراعات یافتہ اشیا کو لسٹ سے خارج کر دے گا ’جو اسرائیل کی طرف سے تیار کردہ، یا مکمل یا جزوی طور پر اسرائیلی سرمایہ کاروں کی ملکیت والی کمپنیوں یا عرب بائیکاٹ آف اسرائیل معاہدے میں شامل کمپنیوں کے ذریعہ تیار کردہ اجزا پر مشتمل ہو۔‘
یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین خلیج تعاون کونسل کے واحد رکن ہیں جنھوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے اور اقتصادی اور تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ ( اسے ابراہیم معاہدہ کہا جاتا ہے جس پر 2020 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں دستخط کیے گئے تھے اور جس میں سعودی عرب شامل نہیں ہوا)۔
ڈاکٹر ڈن کے مطابق 2021 میں، سعودی عرب نے ’خلیج میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹر کے قیام کے لیے متحدہ عرب امارات کو ترجیحی منزل کے طور پر چیلنج کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے‘ جیسا کہ اس نے یہ شرط رکھی کہ یہ کمپنیاں 2024 تک سعودی عرب میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کر لیں۔
ڈاکٹر ڈن کا مزید کہنا ہے کہ ’سعودی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ اس کا مقصد بین الاقوامی کمپنیوں کے ملک میں طویل مدت تک رہنے کے عزم کو یقینی بنانا ہے، لیکن اماراتی حکام کی جانب سے اس وضاحت کو قبول کیے جانے کا امکان نہیں ہے، کیونکہ ابوظہبی اور دبئی فی الحال خلیج میں کام کرنے والی بڑی کمپنیوں کے تقریباً 76 فیصد علاقائی ہیڈ کوارٹرز کی میزبانی کرتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یمن 2014 سے مسلح تصادم کا سامنا کر رہا ہے
اتحادوں میں تبدیلی
مشترکہ علاقائی چیلنج دونوں ممالک کے اختلافات اور دشمنیوں کو پس پشت ڈالنے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنے پڑوسی ملک ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے کے حوالے سے اپنے موقف میں یکجا رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات 2015 میں یمن میں ایران نواز انصار اللہ حوثی تحریک سے لڑنے اور سابق صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کی حمایت کے لیے بنائے گئے عرب اتحاد میں سعودی عرب کا ایک بڑا حلیف رہا ہے۔
تاہم 2019 میں متحدہ عرب امارات نے یمن میں اپنی افواج میں کمی اور دوبارہ تعیناتی کا اعلان کیا اور پھر 2020 میں وہاں جنگ میں حصہ لینے کے بعد اپنے فوجیوں کی واپسی پر جشن منانے کا اعلان کیا۔
متحدہ عرب امارات نے علیحدگی پسند رجحانات والی جنوبی عبوری کونسل کی حمایت کرنے کا انتخاب کیا، اس کے اور ہادی حکومت سے وابستہ فورسز کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ اس کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن میں تنازعے کے مخالف فریق بن گئے۔
متعدد میڈیا رپورٹس اور یمنی حکام نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے جزیرہ سوکوترا پر ایک فوجی اڈے کے قیام کی بات کی، جو خلیج عدن کے داخلی راستے کے قریب واقع ہے، اور مایون جزیرے پر ایک فضائی اڈہ، جو آبنائے باب المندب میں واقع ہے۔
ڈاکٹر ڈن کے مطابق بہت سی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس نے متحدہ عرب امارات کو اس قابل بنایا کہ وہ باب المندب اور قرون افریقہ کے قریب اپنی موجودگی کو مضبوط کر سکے۔ افریقہ کا وہ خطہ جہاں اس نے برسوں سے سیاسی اتحاد، سرمایہ کاری اور فوجی اڈوں کے قیام کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سوڈان میں بڑھتا ہوا مقابلہ
سوڈان اپنے اہم تزویراتی محل وقوع کی وجہ سے امارات اور سعودی عرب دونوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بحیرہ احمر کے قریب ہے اور اسے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور قرونِ افریقہ کے خطے کے درمیان ایک کڑی سمجھا جاتا ہے، اس کے علاوہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ جیسے سونا، چاندی، زنک، لوہا، تانبا، تیل اور قدرتی گیس، اس کے علاوہ زرعی اور مویشی بھی اہم ہیں۔
دونوں خلیجی ممالک نے 2019 میں سابق صدر عمر البشیر کی معزولی کے بعد سے سوڈان میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ ریاض اور ابوظہبی دونوں نے عبوری فوجی کونسل کو امداد کا ایک بڑا پیکج فراہم کیا تھا، اور دونوں ممالک نے انفراسٹرکچر، زراعت اور کان کنی جیسے سوڈانی شعبوں میں برسوں تک سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ جبکہ متحدہ عرب امارات نے سوڈانی حکومت کے ساتھ بحیرۂ احمر کے ساحل پر ابو امامہ بندرگاہ کی تعمیر و ترقی اور اس کے انتظام سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں۔
سوڈان یمن میں سعودی قیادت والے اتحاد کی حمایت کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا، جس نے جنگ میں حصہ لینے کے لیے تقریباً 15000 فوجی بھیجے۔ عبوری خودمختاری کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور ان کے سابق نائب محمد حمدان دگالو کے درمیان تعلقات، جنھیں ’حمدتی‘ کہا جاتا ہے، جو یمن کی جنگ میں حصہ لینے والی ریپڈ سپورٹ فورسز کی قیادت کرتے ہیں۔
بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب البرہان کی حمایت کرتا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات ملک میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے حمدتی کی حمایت کرتا ہے۔
ماہر تعلیم طلال محمد نے یہاں تک کہتے ہیں کہ ’سوڈان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پراکسی جنگ کا میدان بن گیا ہے۔‘ انھوں نے گذشتہ جولائی میں فارن پالیسی میگزین میں ایک مضمون لکھا تھا۔
اگرچہ متحدہ عرب امارات نے حمدتی اور اس کی افواج کے ساتھ اپنے اتحاد کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی بات نہیں کی تاہم نومبر کے اواخر میں سوڈانی خودمختاری کونسل کے ایک رکن، لیفٹیننٹ جنرل یاسر العطا نے عوامی طور پر متحدہ عرب امارات پر ریپڈ سپورٹ فورسز کے خلاف جنگ میں حمایت کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اس کے تقریباً دو ہفتوں بعد سوڈان نے حکم دیا تھا کہ ’15 اماراتی سفارت کار ملک چھوڑ دیں۔‘
سوڈانی تجزیہ کار خولود خیر کہتے ہیں کہ ’2021 کی بغاوت کی قیادت کرنے والے حمدتی اور البرہان کے درمیان تعلقات میں دراڑیں، اور ان کے مفادات کا انحراف، یہ سب سعودی اور اماراتی مفادات کے انحراف کی عکاسی کرتے ہیں۔‘
یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ سوڈان بحیرۂ احمر کے طاس پر کنٹرول کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مقابلے کا عکاس تھی، جس کا مطلب ہے کہ سوڈان کے بحران کا حل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دشمنی کی شدت کو کم کرنے میں مضمر ہے۔
دونوں خلیجی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اس وقت بہت سی سفارتی کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ دشمنی روکنے یا امدادی افواج کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچا جا سکے۔
ڈاکٹر چارلس ڈن کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب اور امارات کے درمیان مسابقت کے اصل محرک معیشت اور سیاست ہیں۔۔۔ لیکن دونوں ممالک کے قائدانہ ماڈلز اور جغرافیائی سیاسی قیادت کے حصول کے درمیان فرق یقیناً مسابقت کو بھڑکاتا ہے۔‘
سعودی اور اماراتی حکام اکثر اپنے ملکوں کے درمیان اختلافات کی موجودگی کے بارے میں کہی جانے والی باتوں کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ دونوں خلیجی پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی نئی بات نہیں اور یہ ان کے درمیان مضبوط تعلقات کو متاثر نہیں کرتی۔
لیکن جس چیز نے کچھ لوگوں کے لیے خدشہ پیدا کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ مقابلہ خطے کے ان ممالک میں امن و استحکام کے حصول میں رکاوٹ بنے گا جنھیں امن اور استحکام کی اشد ضرورت ہے۔
Comments are closed.