امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن جان ایف سپکو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی پیش قدمی سے افغان حکومت مشکلات کا شکار ہے۔
واشنگٹن سے جاری کی گئی امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن جان ایف سپکو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال ستمبر سے نومبر تک طالبان نے 13 ہزار 242 حملے کیئے، دوحہ معاہدے کے بعد ہر 3 ماہ میں طالبان حملوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد رہی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے طالبان افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کیلئے فوجی انخلاء پر اتفاق کیا، دوحہ معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات آگے بڑھنے کے بجائے تشدد میں اضافہ ہوا، افغانستان میں بڑھتے تشدد سے افغان فورسز اور شہریوں کی اموات میں اضافہ ہوا۔
امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان افغان حکومت مذاکرات رکنے کے باوجود امریکی فوجیوں کا انخلاء تیزی سے جاری ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال جنوری تا مارچ 709 اموات میں سے 510 شہریوں کی اموات تھیں، گزشتہ سال تیسری سہ ماہی میں اموات کی تعداد 1 ہزار 58 ہو گئی۔
امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال اپریل سے مئی میں 1 ہزار 330 اموات میں سے 705 شہریوں کی اموات تھیں۔
واشنگٹن سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے حالیہ حملوں کیلئے افغان فوج تیار نہیں بلکہ حیرت زدہ نظر آئی، افغان فوج طالبان کے حملوں کے بعد اب دفاعی پوزیشن پر ہے۔
امریکی انسپکٹر جنرل جان ایف سپکو کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اموات کا رجحان افغان حکومت کے حق میں نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ افغان حکومت نے طالبان حملوں کے معاملے کو حل نہ کیا تو اس کی بقا کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
جان ایف سپکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ رپورٹ افغانستان کی تعمیرِ نو میں امریکی کردار کی مثبت تصویر کے برعکس ہے۔
Comments are closed.