افغانستان میں طالبان کی بڑھتی پیش قدمی: ’طالبان مجھے مار دیں گے اگر انھوں نے میرے شہر پر قبضہ کر لیا‘
- سوامیناتھن نتراجن اور حفیظ اللہ معروف
- بی بی سی ورلڈ سروس
فائل فوٹو
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے بازاروں میں بظاہر زندگی رواں دواں محسوس ہوتی ہے، لگ بھگ ویسے ہی جیسے طالبان کی حالیہ پیش قدمی سے قبل تھی مگر شاید یہ بات وہاں رہنے والے ہی جانتے ہیں کہ اب زندگی کی اس گہما گہمی میں انجانے خوف اور مستقل کی اندیشوں کی آمیزش ہو چکی ہے۔
کابل کے قدیم اور مرکزی بازار کی گہما گہمی سے کچھ دور پوش ایریا میں چائے اور کافی شاپس ہیں اور وہاں ایسے نوجوان افغان آتے ہیں جو یہاں کھانے پینے کی حیثیت رکھتے ہیں، افغانستان پر طالبان کے سنہ 1996 میں ہونے والے قبضے سے لے کر سنہ 2001 تک ایسا طرز زندگی اختیار کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن تھا۔
صبا (فرضی نام) بھی نوجوان افغانی خاتون ہیں جو اکثر و بیشتر ان کیفے شاپس پر آتی ہیں۔ مگر اب معاشرے میں بڑھتی بے یقینی ایسے نوجوانوں کے روزمرہ معمولات کو متاثر کر رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم اب جلدی میں ہوتے ہیں، کیفے آتے ہیں، دوستوں سے ملتے ہیں اور پھر ہمیں گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔’
پوش ایریا میں زندگی کی رونقوں کو طالبان ‘مغربی طرزِ زندگی’ قرار دیتے ہیں۔ صبا کہتی ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا طرز زندگی امریکی لوگوں کی طرح ہے، مگر میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔
’ہمیں اپنی زندگی پر اختیار حاصل ہے‘
اس پوش ایریا سے تھوڑی دور کابل کے قدیم اور معروف مرکزی بازار میں بھی کچھ ایسا ہی ماحول ہے جہاں بظاہر کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق جاری ہے مگر یہاں چلتے پھرتے افراد کے ذہن خوف، خدشات اور روزگار کے کم ہوتے مواقع کو لے کر پریشان ہیں۔
فائل فوٹو
مرکزی بازار میں رنگ ساز، دیہاڑی دار مزدور اور کارپینٹر موجود ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کام ڈھونڈنا اگرچہ ان کے لیے ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے مگر اب یہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
‘غیر ملکی جا رہے ہیں، ہمیں ہونے والی ممکنہ جنگ کے حوالے سے پریشان ہیں۔ لوگ شہر چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اب یہاں کوئی کام نہیں ہے۔۔۔‘
حامد (فرضی نام) نے سیکنڈ ہینڈ اشیا کی دکان شروع کی تھی مگر اب غیر ملکیوں کے انخلا کے ساتھ ان کا کام ختم ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے افغان اُن (غیر ملکیوں) کے ساتھ کام کرتے تھے مگر اب ان کی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ ایسے افغانوں میں سے بہت سے لوگ سکیورٹی خدشات اور نوکریوں کے ختم ہونے کے بعد اب افغانستان سے نکلنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔’
ان کا شکوہ ہے کہ ‘وہ (غیر ملکی) یہاں کیوں آئے تھے اور اب کس مقصد (کے حصول) کے بعد یہاں سے جا رہے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ کیا ہے؟ انھوں نے کیا حاصل کیا، وہ ہمارے لیے کچھ نہیں کر سکے، وہ ہمیں سکیورٹی نہیں دے سکے۔’
گل محمد (فرضی نام) بتاتے ہیں کہ ‘مجھے اکثر یہ خواب آتے ہیں کہ طالبان نے میرے شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔’
گل محمد افغانستان میں گذشتہ آٹھ سال سے صحافی ہیں اور جرمن فوج کی امداد سے چلنے والے صحافتی ادارے میں کام کرتے تھے۔ جون کے اواخر میں ان کی نوکری اس وقت ختم ہو گئی جب بین الاقوامی افواج کا انخلا شروع ہوا۔
اپنی حفاظت کے لیے ان سمیت دیگر افراد نے ہم سے گزارش کی ہے کہ ان کے اصل نام استعمال نہ کیے جائیں۔
گل محمد (فرضی نام) کو ڈر ہے کہ اگر طالبان نے ان کے شہر پر قبضہ کر لیا تو وہ انھیں نہیں چھوڑیں گے
تین بچوں کے والد گل محمد نے فون پر بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ ‘طالبان نے میرے شہر پر قبضہ کیا تو وہ مجھے مار دیں گے۔’
طالبان ملک کے شمالی حصے میں واقع گل محمد کے شہر کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سڑکیں خالی ہیں اور یہ خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘(صوبے میں) نصف شہر طالبان کے کنٹرول میں جا چکے ہیں۔ کچھ دن قبل وہ شہر سے صرف 10، 12 کلو میٹر دور تھے مگر افغان فورسز نے انھیں بھگا دیا تھا۔’
افغان شہریوں نے کئی دہائیوں تک اپنے علاقوں میں لڑائی دیکھی ہے۔ مگر صدر بائیڈن کی جانب سے اگست میں مکمل فوجی انخلا کے اعلان پر کئی لوگوں کو بدترین حالات کا خدشہ ہے۔
امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج مجموعی طور پر استحکام برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھیں۔ لیکن کئی لوگوں کو خدشات ہیں کہ آیا افغان فوج بھی ایسا کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ خوف کے سائے میں کئی لوگ پاسپورٹ بنوانے کی تگ و دو میں ہیں۔
انتقامی کارروائی کا خوف
گل محمد کو امید ہے کہ انھیں جلد ایک ای میل موصول ہوگی جس میں انھیں جرمنی آنے کی دعوت دی جائے گی
سنہ 1990 کی دہائی کے اواخر میں اپنے مختصر دور میں طالبان نے سرِ عام لوگوں کو سزائے موت دی، خواتین کو تعلیم اور روزگار حاصل کرنے سے روکا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اب بدل چکے ہیں اور پُرتشدد کارروائیوں کا رُخ نہیں کریں گے۔
گل محمد جیسے لوگوں کے خدشات سے متعلق ایک بیان میں طالبان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فوج کے ساتھ ملازمت کرنے والوں کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔ مگر اس کی ایک شرط یہ ہے کہ ‘انھیں ماضی میں اپنے اعمال پر پچھتاوا دکھانا ہو گا اور مستقبل میں وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں جو اسلام اور ملک کے خلاف غداری ہو۔’
گل محمد اب بھی طالبان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ایسے شہریوں کی روداد بیان کی ہے جنھیں حکومت کی حمایت کرنے کی وجہ سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
گل محمد کو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انھیں غدار قرار دیا جائے گا۔ انھوں نے سوٹ کیس میں پیسے، زیورات، سرٹیفیکیٹ اور کپڑے سب سمیٹ کر رکھ لیے ہیں۔
‘ہمارا معاشرہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ لوگ مجھے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ‘آپ نے غیر ملکیوں کے ساتھ کام کیا ہے۔۔۔ اس سے مجھے مزید ڈر لگ رہا ہے۔’
وہ نہیں جانتے کہ ان ہنگامی حالات میں دوست یا رشتہ داروں میں سے کون اُن کی مدد کو آئے گا یا انھیں چھپنے میں مدد فراہم کرے گا۔ سب کو ان کی ذات سے منسلک خطرات کا علم ہے۔
‘ہم نے جرمن لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ ہم نے ایسی تحاریر شائع کی ہیں جن میں طالبان پر تنقید کی گئی۔ ہمیں سب سے بڑا خطرہ اُن سے ہے۔’
گل محمد اور ان کے ساتھی اکثر معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے پڑھا ہے کہ جرمنی ان لوگوں کو پناہ دے گا جنھوں نے ان کی فوج کے لیے کام کیا۔ ہمیں اس طریقہ کار کا علم نہیں، نہ یہ معلوم ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا۔‘
کچھ لوگ ویزے کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔ گل محمد انڈین سفارتخانے میں بھی اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔
حبیب کہتے ہیں کہ جب بھی طالبان کی آمد کی افواہیں پھیلتی ہیں تو سڑکیں خالی ہوجاتی ہیں
وہ ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں جنھوں نے انسانی سمگلروں کو پیسے دے کر ان سے یہ کام لیا مگر وہ اس راہ پر نہیں جانا چاہتے۔
‘غیر قانونی طور پر جانا بہت خطرناک ہے۔ ہمیں کوئی لوٹ سکتا ہے یا مار سکتا ہے۔ یہاں مرنے اور یورپ کے راستے میں مرنے میں کیا فرق ہے؟’
دھمکیاں
گل محمد کے برعکس کچھ لوگ بھاگنے کے تمام راستے کھوج رہے ہیں، چاہے وہ قانونی ہوں یا غیر قانونی۔
مشرقی افغانستان میں ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں برطانیہ کے ویزے کے حصول کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر مجھے یہ نہ ملا تو میں غیر قانونی راستے سے یورپ چلا جاؤں گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ تین مہینوں میں ان کے ساتھ کام کرنے والے عملے کے نو افراد قتل اور چار زخمی ہو چکے ہیں۔‘
یہ ڈاکٹر چار جنوبی صوبوں میں صحت عامہ کی مہم میں کام کر رہے تھے۔ 15 جون کو یہ مہم اس وقت معطل ہو گئی جب ان میں سے ایک صوبے ننگر ہار میں عملے کے پانچ لوگ قتل ہو گئے تھے۔ خیال ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے لوگ اس حملے کے ذمہ دار ہیں۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انھیں علاقے میں کئی مسلح حکومت مخالف گروہوں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت ان کی حفاظت یقینی بنا سکے گی۔
سات بچوں کے والد یہ ڈاکٹر سب کچھ بیچ بانٹ کر جلد از جلد ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
شہری یورپ جانے کے لیے بیتاب
افغان پناہ گزین کو سمگلرز کے ساتھ سفر میں کئی ہفتوں تک مشکل حالات میں زندگی بسر کرنا پڑتی ہے
بہت کم افغان شہریوں کو ویزے جاری کیے جا رہے ہیں اور بعض مایوس ہو کر جرائم پیشہ نیٹ ورکس سے رابطے کرنے پر مجبور ہیں۔
کابل سے تعلق رکھنے والے انسانی سمگلر سمیع (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ‘طلب بہت زیادہ ہے اس لیے قیمت بہت زیادہ ہے۔’
‘میں اٹلی جانے کے لیے ایک شخص سے آٹھ ہزار ڈالر مانگتا تھا۔ اب یہ قیمت 10 ہزار ہے۔’
یہ ایسے ملک میں بہت بڑی رقم ہے جہاں ایک سال کی اوسط آمدن محض 500 ڈالر ہے۔
سمیع کے مطابق جب امریکہ نے بگرام ایئر بیس کو چھوڑا تو اس کے بعد سے ان کا کاروبار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
‘گذشتہ دو ہفتوں میں میں نے 195 لوگوں کو بھیجا ہے۔ میں جلد درجنوں مزید لوگوں کو بھیجوں گا۔‘
خوفناک سفر
سمیع کا کہنا ہے کہ وہ مسافروں کو اس غیر قانونی سفر کے خطرات بتاتے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی پیچھے نہیں ہٹتا۔ کچھ لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں تو کچھ کو واپس اپنے ملک بھیج دیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر طالبان نے قبضہ کر لیا تو بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ اس لیے بڑے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔‘
لوگوں کو ایران کے راستے ترکی سمگل کیا جاتا ہے اور پھر کشتیوں پر یونان بھیج دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ میں پناہ گزین کے ادارے یو این ایچ سی آر کے ترجمان بابر بلوچ کا کہنا ہے کہ ’ہر سال قریب 900 افراد سمندری سفر میں اپنی جان کھو بیٹھتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یونانی جزیروں پر قریب نو ہزار پناہ گزین موجود ہیں۔ اس میں افغان شہریوں کی آبادی 48 فیصد ہے۔‘
یو این ایچ سی آر کی سنہ 2020 کی گلوبل ٹرینڈز رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے اواخر میں افغانستان میں قریب 30 لاکھ شہری بے گھر ہو گئے تھے جبکہ ملک سے باہر ان کی تعداد 26 لاکھ ہے۔
اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں ملک کے اندر دو لاکھ مزید شہری بے گھر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ ‘ملک کے اندر اور سرحد پار مزید شہری بے گھر ہو سکتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
بد ترین حالات کا ڈر
افغانستان سے یورپ جانے کے لیے نوجوان 10 ہزار ڈالر دینے کو بھی تیار ہیں
ننگر ہار کے 17 سالہ اسد (فرضی نام) ان پناہ گزین میں سے ہیں جنھوں نے سمیع کو سمگل کیے جانے کے لیے رقم ادا کی۔ ایران پار کر کے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بی بی سی سے بات کی۔ وہ اُس وقت ترک سرحد کے علاقے وان میں موجود تھے۔
اسد کہتے ہیں کہ ’آئندہ ہفتوں کے دوران گلی گلی فسادات ہوں گے۔‘
ملک میں کئی مسلح گروہ موجود ہیں۔ کچھ گروہ حکومت کا حصہ اور طالبان کے دشمن ہیں اور کچھ جنگجوؤں کا تعلق نام نہاد دولت اسلامیہ جیسے گروہوں سے ہے۔ اسد کہتے ہیں کہ ‘ہمیں معلوم نہیں ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں کیا ہوگا۔ میں ایک پُرامید مقام پر جانا چاہتا ہوں۔’
وہ انگریزی بول سکتے ہیں نہ کوئی دوسری یورپی زبان۔ وہ قریب تین درجن افغان شہریوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ ان کی طرح ان میں سے کئی لوگ سکول نہیں گئے اور ان کے پاس کوئی تکنیکی ہنر بھی نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میں پکڑا گیا تو دوبارہ کوشش کروں گا۔ میں افغانستان رہنا نہیں چاہتا۔‘
اسد کا خاندان مالی اعتبار سے امیر ہے۔ وہ فرانس میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔
امید اور ناامیدی کے بیچ
افغانستان کے کچھ علاقوں میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے
شمالی افغانستان میں گل محمد کے لیے انتظار کی یہ گھڑی بیتابی کا باعث بن رہی ہے۔
ان کا شہر اب بھی افغان فوج کے پاس ہے مگر طالبان زیادہ دور نہیں اور انھیں رات کے وقت اکثر دھماکے اور گولیوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ ایئر پورٹ ہی ختم ہو گیا تو وہ وہاں سے کیسے بچ سکیں گے۔ دریں اثنا ان کی قیمتی چیزوں کی قدر کم ہوتی جا رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘کوئی بھی ایک گھر یا کار خریدنا نہیں چاہتا۔ لوگ سب بیچ کر بس بھاگنا چاہتے ہیں۔‘
گل محمد نے زندگی بچانے والے ایک پیغام کی امید میں اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم امید اور ناامیدی کے بیچ زندگی گزار رہے ہیں۔ میں اس ای میل کا انتظار کر رہا ہوں جس میں کہا جائے ’آپ جرمنی آ سکتے ہیں۔‘
نامہ نگار خدائے نور ناصر کے مطابق بعض ایسے افغان بھی ہیں جو طالبان کے سخت مخالف ہونے کے باوجود پرعزم ہیں کہ وہ اپنی سرزمین طالبان کے ڈر اور خوف کی وجہ سے نہیں چھوڑیں گے۔
عبداللہ (فرضی نام) کچھ عرصہ قبل تک ایک حکومتی ادارے میں کام کر رہے تھے۔ اگرچہ اب وہ بے روزگار ہیں لیکن سوشل میڈیا پر آج بھی طالبان کے خلاف سخت ترین مؤقف رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ‘وہ کابل ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔’
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مغربی میڈیا پر الزام لگایا ہے کہ وہ جان بوجھ کر خوف کا ماحول بنا رہے ہیں جبکہ ‘حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔’
افغانستان کے بیشتر علاقوں میں ایک جانب طالبان جنگجوؤں اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید لڑائیاں جاری ہیں اور کئی صوبوں میں اس جنگ کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں تو دوسری جانب قحط سالی اور کورونا وبا کی وجہ سے بھی لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
رواں ماہ کو ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے شمالی افغانستان میں بہت سے لوگوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔
Comments are closed.