صدام حسین کے ’ظالم‘ بیٹے عدی اور ان کے باڈی ڈبل لطیف یحییٰ کی کہانی
اچانک غصے، ہوس، ظلم اور تشدد کی وجہ سے انھیں ’ابو سرحان‘ کہا جاتا تھا یعنی عربی زبان میں ’بھیڑیا۔‘
عراق کے اس وقت کے صدر صدام حسین کے سب سے بڑے بیٹے عدی حسین والد کی دوسری شادی پر خوش نہیں تھے۔ 1988 میں انھیں اطلاع ملی کہ ایک ملازم ان کے والد کی دوسری شادی کا ذمہ دار ہے، اس لیے انھوں نے اس ملازم کو اپنے گھر پر منعقد ہونے والی ایک پارٹی میں پچاس سے سو لوگوں کے درمیان لاٹھی سے پیٹ کر مار دیا۔
1990 میں عراق نے کویت پر حملہ کیا تو اس وقت عراق آٹھ سال سے ایران کے ساتھ جنگ میں تھا اور فوج تھک چکی تھی۔ اذیت میں مبتلا لوگوں کو ایک عظیم رہنما کی ضرورت تھی مگر عدی حسین کو ان کا رہنما بنایا گیا۔ اس فیصلے کو فوج نے پسند نہیں کیا مگر درحقیقت رہنما کس کو بنایا گیا تھا، اس کا صرف لطیف یحییٰ کو علم تھا۔
یہ سب 1987 میں شروع ہوا۔ اس وقت 23 سالہ لطیف یحییٰ عراقی فوج میں افسر بننے کی تربیت لے رہے تھے۔ جنرل آفس سے فون پر لطیف وہاں پہنچے تو ایک جنرل نے ان سے کہا ’آپ کے نام خط آیا ہے، آپ کو بغداد کے محل میں بلایا گیا ہے۔‘
لطیف نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ’مجھے صدمہ پہنچا۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔‘ وہ اس محل میں پہنچے جہاں صدام حسین اور عدی رہ رہے تھے۔
وہاں عدی نے لطیف کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ ’کیا تم صدام کا بیٹا بننا پسند کرو گے؟‘ یہ بات لطیف یحییٰ نے اپنی سوانح عمری ’میں صدام حسین کا بیٹا تھا‘ میں کئی سال بعد بتائی تھی جس پر بعد میں دستاویزی فلم بھی بنائی گئی۔
دراصل لطیف یحییٰ کو عدی صدام کا باڈی ڈبل بنایا گیا تھا۔ دنیا کے بہت سے رہنماؤں بشمول صدور میں ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو بالکل ان جیسا نظر آتا ہے۔ اسے میٹنگز اور دیگر سرگرمیوں میں جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کیا جاتا ہے۔
عدی چاہتے تھے کہ لطیف ان کے جڑواں بن کر مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ لطیف لکھتے ہیں کہ ’میں جانتا تھا کہ یہ کتنا خطرناک ہے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ اگر عدی غصے میں آ گیا تو کیا ہوگا۔ میں نے ان سے پوچھا، ’کیا مجھے انکار کرنے کی اجازت ہے؟ عدی نے مسکراتے ہوئے کہا ’یقیناً، یہاں ہر کوئی فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔‘
ابتدا میں لطیف نے عدی بننے سے انکار کیا جس پر انھیں ایک تاریک کمرے میں قید کر دیا گیا۔ ’ساتویں دن عدی نے آ کر مجھ سے پوچھا ’اگر آپ میری پیشکش قبول نہیں کرتے تو میں آپ کی بہن کو یہاں لے آؤں گا۔‘ سادہ لفظوں میں یہ دھمکی تھی۔۔۔ میں نے پیشکش قبول کر لی، میرے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا کہ ’عراق کے لوگوں کو اب حراستی کیمپوں اور ریپ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘
امریکہ نے دعویٰ کیا کہ عراق میں صدام حسین کے دور میں عام لوگوں پر تشدد کیا گیا اور خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ عراق میں خواتین کو ریپ کرنے کے لیے خصوصی کمرے قائم کیے گئے تھے۔
لطیف نے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک پر بتایا تھا کہ ’ایسا ہی ایک کمرہ عدی حسین کے محل میں تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عدی ایک ظالم آدمی تھا۔ وہ ایک بار ایک خوبصورت لڑکی کو ریپ کے کمرے میں لے گیا اور اسے مار مار کر ہلاک کر دیا۔‘
لطیف کی کتاب کے مطابق لڑکی کو بعد میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش کو قالین میں لپیٹ کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔
ایک وقت میں عدی صدام حسین عراق میں سب سے ناپسندیدہ شخص سمجھا جاتا تھا۔ یہ امکان تھا کہ صدام کے بعد وہ اقتدار کے وارث ہوں گے لیکن عدی کے برتاؤ کو صدام بھی پسند نہیں کرتے تھے۔
صدام کے دور میں عدی کو کئی اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ وہ عراقی اولمپک کمیٹی کے صدر تھے۔ وہ عراق میں سرکاری میڈیا (اخبارات اور ٹی وی) کے سربراہ تھے۔ وہ عراقی صحافیوں کی یونین کے رہنما تھے اور صدام حسین کے ’قاتل سکواڈ‘ کے سربراہ بھی تھے۔
سابق اہلکاروں اور کھلاڑیوں کا دعویٰ ہے کہ عراق کی فٹبال ایسوسی ایشن کے سربراہ کے طور پر عدی میچ کے دوران کسی بھی کھلاڑی کو فون کر کے دھمکی دیتے تھے کہ ’اگر ہم ہار گئے تو میں آپ کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘
ان کے پاس کھلاڑیوں کے لیے ایک خاص گالی کا کارڈ تھا۔ مثال کے طور پر، اگر وہ میچ ہار جاتے ہیں، تو کس کھلاڑی پر جرمانہ عائد کیا جائے گا، جو ٹائی کا سبب بنے، اس کی تفصیلات کارڈ پر لکھی ہوتی تھیں۔
بعض سابق کھلاڑیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عراق کے لیے کھیلنا دہشت کے سائے میں رہنے کے مترادف تھا۔ اگر کوئی کھلاڑی اچھا نہیں کھیلتا تو عدی اسے بجلی کے جھٹکے، غیر صحت بخش معدنیات سے نہلانے جیسے طریقوں سے تشدد کرتے۔ کچھ کھلاڑیوں کو موت کی سزا بھی سنائی گئی۔
صدام حسین نے سمیرہ شہبندر سے دوسری شادی کی تو عدی نے اسے اپنی ماں ساجدہ کی توہین سمجھا۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عدی کو شک تھا کہ اگر سمیرہ نے بیٹے کو جنم دیا تو اس کی جگہ وہ اقتدار کا وارث ہو گا۔
اس سے مشتعل ہو کر عدی نے صدام کے قابل اعتماد دوست کمال کو ایک پارٹی میں لوگوں کے ہجوم کے سامنے لاٹھی سے مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ عدی کو شک تھا کہ کمال نے صدام اور سمیرہ کی ملاقات کا بندوبست کیا تھا اور صدام کی دوسری شادی کی خبر اپنے گھر والوں سے چھپائی تھی۔
اس واقعے کے بعد صدام نے عدی کو کچھ دیر قید میں رکھا اور بعد میں سوئٹزر لینڈ بھیج دیا۔ لطیف کے مطابق انھوں نے کئی بار فوجی کیمپوں کا دورہ کیا اور عدی بن کر فوجی قیادت سے ملاقاتیں کیں حالانکہ حقیقی عدی سوئٹزرلینڈ میں تھے۔ ان کے مطابق پہلی خلیجی جنگ کے دوران عدی کی فوجی قیادت کے ساتھ تصویر میں اصل عدی نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔
لطیف اور عدی ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ اس لیے عدی، لطیف یحییٰ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ لطیف کی شکل ان سے ملتی ہے۔
لطیف کے مطابق انھیں ’صدام کا بیٹا‘ بنانے کے لیے ان کے چہرے کی سرجری کی گئی تھی۔
1996 میں عدی پر وحشیانہ حملہ کیا گیا۔ قاتلوں نے ان کی گاڑی پر گولیاں ماریں۔ گولیاں عدی حسین کی ریڑھ کی ہڈی میں لگیں لیکن وہ بچ گئے۔ اس کے بعد وہ کبھی ٹھیک سے چل نہیں پائے تھے، انھیں چلنے کے لیے چھڑی کی ضرورت پڑتی تھی۔
عدی کے نامناسب رویے کی وجہ سے صدام نے انھیں مختلف عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ عدی پر حملے کے بعد ان کا چھوٹا بھائی قصی صدام کے بعد عراق کا دوسرا طاقتور ترین شخص بن گیا۔ بہت سے لوگ صدام حسین کے نوجوان بیٹے کو ذہین مگر چالاک قرار دیتے ہیں۔
لطیف کے مطابق وہ تقریباً چار سال تک جعلی عدی حسین بنے اور اسے سٹیٹ سیکرٹ رکھا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 1991 میں سی آئی اے کی مدد سے عراق سے فرار ہوئے تھے۔
بی بی سی کے ایک پروگرام میں لطیف نے کہا کہ ’عدی بننے نے مجھے ان جیسا بنا دیا، میں غصے میں تھا، کبھی کبھار لوگوں کو مارتا تھا۔‘
’میں نے اس عرصے میں اتنا ظلم دیکھا کہ مجھے عراق سے فرار ہونے کے بعد نارمل زندگی گزارنے کے لیے کئی نفسیاتی ماہرین کی مدد لینی پڑی۔ میں نے کئی بار خود کو مارنے کی کوشش کی۔‘
لطیف نے اپنا ہاتھ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے کئی بار اپنے بازو کی ایک رگ کاٹی۔‘
Comments are closed.