شیخ احمد گومی: وہ اسلامی مفسر جو ڈاکوؤں سے مذاکرات کر کے مغویوں کو چھڑواتے ہیں
- بیورلی اوچینگ اور جیول کیریونگی
- بی بی سی مانیٹرنگ
شیخ گومی (بائیں) مجرموں کو جرائم سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تصویر میں اُنھیں ایک نقاب پوش شخص کو اسلامی کتب دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
شمالی نائجیریا میں اغوا برائے تاوان کے معاملات میں خود ساختہ مڈل مین کا کردار ادا کرنے والے مایہ ناز عالم ایک متنازع شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں اس خطے میں 800 سے زیادہ طلبہ اغوا ہوئے ہیں۔
شیخ احمد گومی فوج کے ایک سابق کپتان ہیں اور وہ بدھ کو ہونے والی 27 طلبہ کی رہائی میں شامل تھے جنھیں مارچ میں ریاست کدونا کے ایک فاریسٹری کالج سے اغوا کیا گیا تھا۔
اُن کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ رہا کیے گئے طلبہ کے والدین نے اُنھیں ‘شکریہ’ کرنے کے لیے اُن سے ملاقات کی جس میں اُنھوں نے اُنھیں یقین دلایا کہ 16 دیگر طلبہ جنھیں اپریل میں ریاست کدونا کی گرین فیلڈ یونیورسٹی سے اغوا کیا گیا تھا، انھیں قتل نہیں کیا جائے گا۔
اغواکاروں نے پہلے پانچ افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور تاوان کی ادائیگی کے بعد ایک کو چھوڑ دیا تھا۔ اُنھوں نے باقی مغویوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی کہ اگر بدھ تک تاوان ادا نہ کیا گیا تو سب کو مار دیا جائے گا مگر شیخ احمد نے مذاکرات کے بعد اُن کو رہا کروا لیا۔
یہ بھی پڑھیے
’اغوا کمتر برائی ہے‘
گومی سب سے پہلے فروری میں منظرِ عام پر آئے جب وہ ریاست زمفرا کے ایک جنگل میں ڈاکوؤں کے ٹھکانے تک ‘امن مشن’ کے تحت گئے۔
تب سے اب تک وہ ریاستوں کتسینا، کدونا اور نائجر کے دوروں پر گئے ہیں جہاں اُنھوں نے مجرمان پر زور دیا کہ وہ حملے کرنے بند کریں۔
مگر ثالث کا یہ کردار ادا کرنے کے باوجود شمالی نائیجیریا میں اغوا کی حالیہ لہر میں ملوث مجرم گروہوں کے ساتھ مذاکرات اور اُن کے لیے ‘مکمل معافی’ کی وکالت کرنے پر اُنھوں نے تنازعے کو بھی جنم دیا ہے۔
اُنھوں نے کہا: ‘اگر پورا ملک بغاوت کے اُن منصوبہ سازوں کو معاف کر سکتا ہے جنھوں نے فوجی دورِ حکومت میں غداری کہلا سکنے والے جرائم کیے، تو پھر ان ڈاکوؤں کو بھی جمہوری دور میں معافی ملنی چاہیے۔’
ایک اور موقعے پر اُنھوں نے کہا کہ ‘بچوں کو سکول سے اغوا کرنا ایک کمتر برائی ہے کیونکہ آپ مذاکرات کر سکتے ہیں اور ڈاکو انسانی جانوں کے بارے میں بہت محتاط ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے ڈاکوؤں کا مشن ہوتا تھا کہ کسی قصبے میں جاؤ، تباہی پھیلاؤ اور لوگوں کو قتل کرو۔’
سینکڑوں شہریوں بشمول سکول جانے والے بچوں اور دیگر طلبہ کو اغوا کرنے والے ڈاکوؤں کے بارے میں ایسے خیالات کو کئی لوگ مجرموں کے لیے اُن کی ہمدردی کے طور پر دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے غصہ اور مذہبی، علاقائی اور نسلی بنیادوں پر تفریق پیدا ہو رہی ہے۔
فروری میں انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں گومی کو الزام لگاتے دیکھا جا سکتا ہے کہ غیر مسلم نائیجیرین سپاہی عدم تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔
کرسچن ایسوسی ایشن آف نائیجیریا نامی بااثر تنظیم نے اُن کی مذمت میں کہا کہ وہ طویل عرصے سے جاری مذہبی اور نسلی تناؤ کو فروغ دے رہے ہیں جبکہ فوج نے کہا کہ وہ ‘جان بوجھ کر نائیجیرین فوج کی برائی کر رہے ہیں تاکہ اس کا منفی تاثر پیدا کیا جا سکے۔’
گومی نے کہا کہ اُن کے تبصروں کو غلط سمجھا گیا ہے اور اُن کا اصل پیغام توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
گومی کی ثالثی کی کوششوں کی وجہ سے وہ اسلامی عسکریت پسند گروہ بوکو حرام کا ہدف بھی بن چکے ہیں جس کے رہنما ابوبکر شکاؤ نے اُن کے لیے دھمکی آمیز پیغامات بھی جاری کیے ہیں۔
وہ سکیورٹی بحران سے نمٹنے میں صدر بوہارو کی بظاہر ناکامی پر بھی سخت تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کے باعث حکام، برسرِ اقتدار آل پروگریسیو کانگریس (اے پی سی) کے سیاستدانوں اور مذہبی گروہوں نے سخت ردِعمل دیا ہے۔
شیخ نے اکثر کوئی سیاسی وابستگی ہونے کے تاثر کو رد کیا ہے تاہم سنہ 2019 میں اُنھیں اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کا رکن قرار دیا گیا تھا جب پی ڈی پی کے صدارتی امیدوار عتیقو ابوبکر کے ساتھ اُن کی ایک تصویر منظرِ عام پر آئی تھی۔
شیخ احمد گومی کے بارے میں چند اہم حقائق
- وہ سنہ 1960 میں کانو ریاست میں پیدا ہوئے
- وہ وفات پا چکے شیخ ابوبکر محمد گومی کے سب سے بڑے بیٹے ہیں جو اسلامی عالم اور شرعی اپیل عدالت کے چیف جسٹس تھے۔
- اُنھوں نے نائیجیریا ڈیفینس اکیڈمی میں داخلہ لینے اور فوج میں میڈیکل افسر کے طور پر خدمات انجام دینے سے قبل طب کی تعلیم حاصل کی
- وہ فوج سے ریٹائر ہونے سے قبل کیپٹن کے عہدے تک پہنچے اور پھر مکہ چلے گئے جہاں اُنھوں نے اصولِ فقہ میں پی ایچ ڈی کی
- اس وقت وہ کدونا کی سلطان بیلو مسجد میں مفتی اور مفسر ہیں
- وہ شادی شدہ اور کئی بچوں کے والد ہیں
سال کی شروعات سے ہی شیخ گومی کئی ڈاکو رہنماؤں سے ملے ہیں تاکہ انھیں ‘عسکریت پسندی سے متنفر کیا جا سکے۔’
فروری میں وہ ایک ایسے جرائم پیشہ گروہ کے رہنما سے ملے جس نے ریاست نائیجر میں 42 لوگوں بشمول طلبہ کو اغوا کیا تھا۔ کچھ دن بعد ان مغویوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔
کدونا میں اپریل میں گرین فیلڈ یونیورسٹی سے 20 طلبہ کے اغوا کے بعد گومی نے مبینہ طور پر نائیجیریا کے مرکزی بینک پر زور دیا کہ وہ ملوث گروہ کو تاوان کے طور پر دو لاکھ 60 ہزار ڈالر اور 10 ہونڈا موٹرسائیکلیں دے۔
اب تک یہ ادائیگی نہیں کی گئی ہے اور طلبہ اب بھی قید میں ہیں۔
‘میں پہلا شخص نہیں ہوں’
حکام کا کہنا ہے کہ نائیجیریا میں اغوا کا یہ بحران تاوان کی ایسی ادائیگیوں کی وجہ سے ہی فروغ پا رہا ہے اور صدر بوہاری اور کدونا کے گورنر ناصر الرفاعی دونوں اس کے خلاف ہیں۔ اس کے بجائے وہ ان ڈاکوؤں کی گرفتاری اور ان پر مقدمات چاہتے ہیں۔
گومی نے اپنے دفاع میں کہا کہ: ‘میں ایسا پہلا شخص نہیں ہوں جس نے ان (ڈاکوؤں) کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ میں نے کبھی بھی کسی حکومتی عہدیدار کی عدم موجودگی میں ان ڈاکوؤں سے ملاقات نہیں کی۔’
فروری میں اے آئی ٹی نامی ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ ڈاکوؤں نے اغوا کرنا نائیجیریا کے نائیجر ڈیلٹا خطے میں تیل کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں سے سیکھا۔
‘اُنھوں نے اغوا کرنا میند (نائیجر ڈیلٹا کے ایک جنگجو گروہ) سے سیکھا۔ مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ چوری کے سب سے پہلے شکار تھے، اُن کے مویشی ہی اُن کا تیل ہیں۔’
سنہ 2009 میں نائیجر ڈیلٹا کے ہتھیار ڈالنے والے ہزاروں جنگجوؤں کو صدر اومارو یرادوا کی حکومت نے غیر مشروط معافی دے دی تھی۔ اُنھوں نے خطے میں کئی سال تک تیل کی تنصیبات پر حملے، اغوا اور قتل کا بازار گرم کیے رکھا تھا۔
عتیقے ٹام جیسے خطرناک عسکریت پسندوں کو سنہ 2009 میں نائیجیریا کی حکومت نے معاف کر دیا تھا۔ وہ اب ریورز ریاست میں بادشاہ بن چکے ہیں۔
سنہ 2009 میں نائیجر ڈیلٹا کے ہتھیار ڈالنے والے ہزاروں جنگجوؤں کو صدر اومارو یرادوا کی حکومت نے غیر مشروط معافی دے دی تھی۔ اُنھوں نے خطے میں کئی سال تک تیل کی تنصیبات پر حملے، اغوا اور قتل کا بازار گرم کیے رکھا تھا۔
جنوبی نائیجیریا میں کچھ لوگوں نے اس موازنے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائیجر ڈیلٹا کے عسکریت پسندوں کا ایک سیاسی مقصد تھا کہ اپنے خطے میں موجود تیل کی دولت پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کیا جائے جبکہ ان ڈاکؤوں کا مقصد صرف پیسہ ہے۔
چند دیگر لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں، سکیورٹی حکام، مذہبی اور سماجی شخصیات جنھوں نے نائیجر ڈیلٹا کی عسکریت پسندی میں ثالث کا کردار ادا کیا، اُنھوں نے اس سے مالی فائدہ بھی اٹھایا، اس لیے وہ گومی کے خود کو ثالث بنا لینے پر تشویش رکھتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک اغوا برائے تاوان ایک کاروبار بن چکا ہے اور بحران کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
مگر اُن پر تنقید کرنے والے جو بھی کہیں، شیخ گومی کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ اس کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ شمالی نائیجریا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کے بارے میں لوگوں کی گفتگو کا انداز بدل رہا ہے اور مسلح گروہوں کو اب کچھ لوگ ڈاکوؤں کے بجائے جنگجو کہنے لگے ہیں۔
ابوجا سے ندوکا اورجینمو نے اضافی رپورٹنگ کی۔
Comments are closed.