محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا نام رکھتے وقت کون جانتا تھا کہ سندھ کے مشہور جاگیردار خاندان سے تعلق رکھنے والے، پاکستان کے معروف سیاسی لیڈر اور سابق وزیر اعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت اصفہانی کے آنگن میں آنکھیں کھولنے والی ننھی بچی تاریخ میں ’بےنظیر‘ ٹھہرے گی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی ’پنکی‘ اپنے پاپا کی بے حد لاڈلی، بچپن ہی سے ان کی انتہائی تابع دار تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی خاندانی روایات کے بر عکس بےنظیر کو دنیا کی بہترین درس گاہوں میں حصولِ علم کے لیے تو بھیجا، مگر ساتھ اُس کی تربیت بھی مسلسل جاری رکھی کہ وہ اپنی پنکی کو ہر حوالے سے ’بے نظیر‘ بنانا چاہتے تھے اور بیٹی بھی کیا کمال شخصیت کی مالک تھی کہ جس کے لیے اُس کے باپ کے خوابوں کی تعبیر و تکمیل ہی زندگی کا اوّلین مقصد ٹھہرا۔
وہ اپنے والد کی صرف بیٹی نہیں بلکہ بہترین سیاسی شاگرد بھی تھیں۔ 4اپریل 1979 کواپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی وفات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے 29 برس کی عمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ انہوں نے اپنے والد سے جو کچھ سیکھا تھا، عملی سیاست میں اس پر مکمل عمل بھی کیا۔
محترمہ بے نظیربھٹو کی 69ویں سالگرہ کے موقع پر ان کی 25 ویں سالگرہ کی یاد تازہ کرتے ہیں جب ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے بیٹی کے نام خط لکھا تھا۔
ایک بد نصیب قیدی باپ اپنی پیاری اور ذہین بیٹی کو خط کے ذریعے سالگرہ کی مبارکباد کیسے دے پائے گا جو اپنے باپ کی زندگی کے لیے جدّوجہد کر رہی ہو اور خود بھی پابندِ سلاسل ہو، جو اپنے اور اپنی ماں کے سانجھے دُکھ کو جانتی ہے، کس طرح محبّت سے لبریز جذبات کا پیغام ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے، تمہارے دادا، دادی نے مجھے بہت باوقار انداز سے غریب کی سیاست کرنا سکھائی۔
میری پیاری بیٹی! مَیں تمہیں صرف ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہی تاریخ کا پیغام ہے اپنے عوام پر بھروسا کرو، ان کی بھلائی اور مساوات کے لیےکام کرو۔ اللہ کی جنّت، ماں کے قدموں تلے اور سیاست کی جنّت عوام کے قدموں تلے ہے۔
مَیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں، جہاں سے مَیں اپنا ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتا، بس،آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں۔‘
Comments are closed.