سکول میں فائرنگ: حملہ آور نے گھر پر کئی بندوقیں چھپا رکھی تھیں

سکول میں فائرنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پولیس کے مطابق پیر کو ریاست ٹینیسی کے شہرنیشویل کے ایک کانوینٹ سکول میں فائرنگ کرنے والے حملہ آور نے اپنے گھر پر سات بندوقیں چھپا رکھی تھیں جو اس نے قانوی طور پرخریدی تھیں۔

واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انھیں فون پر اس کی اطلاع صبح دس بجکر 13 منٹ پر ملی تھی۔

حملہ آور نے سکول تک پہنچنے کے لیے ایک ہونڈا کار کا استعمال کیا اور پولیس کی طرف سے جاری کی جانے والی ویڈیو میں اسے سکول کے مرکزی دروازے پر اور بعد میں عمارت کی خالی راہداریوں میں بھی گولیاں برساتے دیکھا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت کر دی گئی ہے اور حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سکول کے تین بچے اور تین بالغ افراد ہلاک شامل ہیں۔

ہلاک ہونے والے تینوں بچوں کی عمریں نو سال تھیں اور حکام کے مطابق ان کے نام ایولین ڈائکہاس، ہیلی سرگز اور ولیم کنی ہیں۔

فائرنگ میں سکول کے عملے کے جو تین افراد ہلاک ہوئے ان کے نام سنتھیا پیک (عمر61 برس)، کیتھرین کونس (60 سال) اور مائیکل ہل (61 برس) ہیں۔

پیر کے روز حملے میں ملوث مشتبہ شخص کی شناخت 28 سالہ آڈرے ہیل کے نام سے ہوئی تھی جو فائرنگ کے مقام پر موجود پولیس اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہو گیا تھا۔

گزشتہ روز تک آڈرے ہیل کی صنفی شناخت کے بارے میں ابہام پایا جاتا تھا اور پولیس نے ابتدائی طور پر اسے ایک خاتون کے طور پر بیان کیا تھا، تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ حملہ آور ٹرانس جینڈر تھی، جو اپنی شناخت ایک مرد کے طور پر کرتی تھی اور سوشل میڈیا پر بھی اپنے لیے مردانہ نام استعمال کرتی تھی۔

اپنے پرانے سکول پر فائرنگ کے دوران اس نے حفاظتی جیکٹ پہن رکھی تھی، اس کے ایک ہاتھ میں بندوق تھی جبکہ اسی طرح کا دوسرا ہتھیار اس کے بائیں کولہے سے لٹکا ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق اس کے پاس مجموعی طور پر تین بندوقیں تھیں۔

حملہ آور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پولیس کے مطابق پہلی منزل پر فائرنگ کے بعد حملہ آور کو دوسری منزل پر جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

جوں ہی پولیس کی گاڑیاں وہاں پہنچیں تو حملہ آور نے دوسری منزل کی ایک کھڑکی سے ان پر فائرنگ شروع کر دی جس سے ایک کار کی ونڈ سکرین پر بھی گولی لگی۔

اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ اس حملے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے، تاہم آڈرے ہیل کے ساتھ ہائی سکول کی باکسٹ بال میں شامل ایک سابق ساتھی نے ایک نیوز چینل کو بتایا کہ انھیں حملے سے چند منٹ قبل آڈرے کی جانب سے ایک انسٹاگرام پیغام موصول ہوا تھا۔

آڈرے نے اپنی ساتھی کو بتایا تھا کہ وہ مزید جینا نہیں چاہتی۔

آڈرے ہیل نے کہا تھا کہ ’میں نے اپنے پیچھے کافی سے زیادہ ثبوت چھوڑے ہیں، لیکن کچھ برا ہونے والا ہے۔‘

منگل کو ہیل کے گھر کی تلاشی کے دوران مزید اسلحہ برآمد ہوا۔ حکام کا کہنا تھا کہ اس نے قانونی طور پر کل سات بندوقیں خریدی تھیں اور ان میں سے ایک فروخت دی تھی۔

حملہ آور

،تصویر کا ذریعہSOCIAL NETWORKS

،تصویر کا کیپشن

آڈرے ہیل نے کہا تھا کہ ’میں نے اپنے پیچھے کافی سے زیادہ ثبوت چھوڑے ہیں‘

نیشویل پولیس کے سربراہ جان ڈریک نے کہا کہ حکام کا خیال ہے کہ حملہ آور نے حملے سے پہلے باقاعدہ سکول کا جائزہ لیا تھا۔

بدھ کو حملہ آور کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے پولیس کا کہنا تھا کہ وہ ’ نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ایک ڈاکٹر کے زیر علاج‘ رہیں اور حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کو انفرادی طور پر نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ حملہ آور نے (اپنے پرانے) سکول کو نشانہ بنایا۔

پولیس کے سربراہ جان ڈریک کا کہنا تھا کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ حملہ آور نے جس طرح بلندی سے فائرنگ کی، اس نے اس کی تربیت حاصل کی تھی۔‘

پولیس پر فائرنگ کرتے ہوئے حملہ آور کھڑکی سے ہٹ کے کھڑا تھی تاکہ وہ پولیس کی جوابی گولی سے بچ سکے۔

یاد رہے کہ ریاست ٹنیسی میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت کسی بھی ایسے شحص سے بندوق واپس لی جا سکتی ہے جس پر شبہہ ہو کہ وہ اسے پرتشدد کارروائی میں استعمال کر سکتا ہے۔ ایسے نام نہاد ’سرخ جھنڈی‘ والے قوانین کی عدم موجودگی کے باوجود بھی پولیس کا کہنا تھا کہ اگر حکام کو شک ہوتا کہ آڈرے ہیل سے کسی کو خطرہ ہو سکتا ہے تو اس سے ہتھیار ضبط کر لیے جاتے۔

مقامی پولیس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مقامی پولیس کے سربراہ جان ڈیرک کے بقول لگتا ہے کہ حملہ آور تربیت یافتہ تھا

نیشویل کی پولیس کے سربراہ جان ڈریک کا کہنا تھا کہ آڈرے ہیل کے والدین کا خیال تھا کہ اس کے پاس صرف ایک بندوق تھی جو بعد میں فروخت کر دی گئی تھی، لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ اس نے ’گھر میں کئی ہتھیار چھپا رکھے ہیں۔‘

آڈرے ہیل کے گھر سے برآمد کیے جانے والے تمام ہتھیار نیشویل شہر کی پانچ مختلف دکانوں سے قانونی طور پر خریدے گئے تھے۔

امریکی چینل اے بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے ہیل کی والدہ نورما کا کہنا تھا کہ ’ان کے لیے یہ مشکل کی گھڑی ہے۔‘

متاثرین کے بارے میں کیا معلوم ہوا ہے؟

کیتھرین کونس

،تصویر کا ذریعہNASHVILLE COVENANT SCHOOL

کیتھرین کونس

60 سالہ کیتھرین کونس نیشویل کے کانوینٹ سکول کی پرنسپل تھیں، اور وہ اس عہدے پر جولائی 2016 سے فائز تھیں۔

ایک ماہر تعیلم کے طور پر ان کے پاس 23 سال سے زیادہ کا تجربہ تھا اور انہوں نے ایم اے کی ڈگری کے بعد پی ایچ ڈی بھی کی تھی۔

تعزیتی پیغامات میں، ان کے قریبی لوگ کیتھرین کونس کو ایک پرعزم استاد، خدا کے کلام پر پختہ یقین رکھنے والی اور ایک مستقل مزاج خاتون کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

سنہ2000 سے 2006 تک ان کے سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے رابرٹ گی کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے ہمیشہ اپنے طالب علموں کو یہ احساس دلایا کہ وہ ایک ایسے خدا سے محبت کرتے ہیں جو ان کی ذاتی طور پر پرواہ کرتا ہے اور ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھی اسی محبت کا اظہار کریں۔‘

سنتھیا پیک

،تصویر کا ذریعہSOCIAL NETWORKS

سنتھیا پیک

61 سالہ سنتھیا سکول میں متبادل ٹیچر کے طور پر کام کرتی تھیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق وہ لیس ویل (ریاست لوزیانا) کی رہنے والی تھیں اور انہوں نے اپنی جوانی کا بیشتر حصہ ایک کلیسا میں گزارا تھا۔

وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ الاباما میں رہتی تھیں، لیکن بعد میں یہ خاندان ٹینیسی منتقل ہو گیا تھا۔

مائیک ہل

،تصویر کا ذریعہSOCIAL NETWORKS

مائیک ہل

61 سالہ مائیک ہل ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے اس سکول میں چوکیدار کے طور پر کام کر رہے تھے۔

مقامی میڈیا نے انھیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنے والے شخص کے طور پر بیان کیا ہے، ایسا شخص جو اپنے کام سے محبت کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں کو اپنا ہی خاندان سمجھتاتھا۔

ایولین ڈیکہوس، ہیلی سکرگس اور ولیم کینی

اس پرائمری سکول میں ہلاک ہونے والے تین بچوں میں سے ایک، ہیلی سکرگس مقامی چرچ کے سینئر پادری چاڈ سکرگز کی بیٹی تھیں۔

چاڈ سکرگز نے اپنی بیٹی کو ’ایک تحفہ‘ قرار دیا۔ انھوں نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ہمارا دل ٹوٹ چکا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ میسح کی گود میں ہے اور وہ اسے دوبارہ اٹھائیں گے۔‘

نئے قوانین کا مطالبہ

سکول میں فائرنگ کے اس تازہ ترین واقعہ کے بعد منگل کو صدر جو بائیڈن نے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا کہ وہ آتشیں اسلحے پر قابو پانے کے لیے نئے قوانین کی منظوری دے۔

صدر کا کہنا تھا کہ ’ بطور قوم ہمیں (اس واقعہ میں متاثرہ ہونے والے ) خاندانوں کو دعاؤں سے بڑھ کر کچھ دینا ہو گا۔ ہمیں عملی طور پر کچھ کر کے دکھانا ہوگا۔‘

دوسری جانب امریکی سینیٹ میں سوال و جواب کے دوران اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا کہ آیا اس واقعے کی تفتیش مسیحی برادری سے نفرت پر بنی واقعے کے طور پر کی جائے گی۔ اس کے جواب میں میرک گارلینڈ کا کہنا تھا کہ یہ کہنا بہت قبل از و قت ہوگا کیونکہ پولیس حکام دیکھ رہے ہیں کہ اس حملے کے پیچھے کیا سوچ کارفرما تھی۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ’گن وائلینس آرکایو‘ کے مطابق یہ ملک میں اس سال میں کھلے عام فائرنگ کا 131 واں واقعہ ہے۔

خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹڈ پریس کے اعدادوشمار کے مطابق سنہ 1999 میں ایک ہائی سکول میں قتل عام کے بعد یہ کسی سکول میں فائرنگ کا 15واں بڑا واقعہ ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ