اسرائیل کے بازاروں میں پاکستانی میوہ جات اور مسالے کیسے پہنچے؟

پاکستان

،تصویر کا ذریعہFISHEL BENKHALD

  • مصنف, زبیر اعظم
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام

’پاکستانی میوہ جات، کھجوریں اور مسالے اسرائیل کی مارکیٹ میں۔‘ یہ دعویٰ فشل بین خلد نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کے ساتھ کیا تو بہت سے صارفین کے لیے کافی حیران کن تھا۔

واضح رہے کہ فشل بین خلد کے مطابق وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے یہودی ہیں جو اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حامی ہیں۔

تاہم پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ عبارت درج ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔

اس کے باوجود فشل ماضی میں اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں اور وہ ایسا کرنے والے واحد پاکستانی نہیں۔

2022 میں پاکستانی صحافی احمد قریشی نے پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے ایک وفد کے ہمراہ اسرائیل کا دورہ کیا تھا جس کے دوران وفد نے اسرائیلی پارلیمنٹ ہاؤس سمیت اہم مقامات کے دورے کیے اور اسرائیلی صدر سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس وفد میں بھی فشل بین خلد شامل تھے۔

اس دورے پر پاکستان میں کافی تنقید ہوئی تھی تاہم احمد قریشی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ پاکستان کے پاسپورٹ پر عام شہری کی حیثیت سے اسرائیل گئے اور ان کے اس دورے سے حکومت یا فوج کا کوئی تعلق نہیں۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہAHMED QURAISHI

پاکستانی مصنوعات اسرائیل کیسے پہنچیں؟

فشل بین خلد کے اکاوئنٹ کے مطابق ان کا تعلق پاکستانی کی کوشر فوڈ انڈسٹری سے ہے۔

کوشر فوڈ یہودی مذہب کے عقائد کے مطابق تیار کردہ خوراک کو کہا جاتا ہے جیسے مسلمان حلال کھانے پر یقین رکھتے ہیں۔

اپنی ویڈیو کے ساتھ فشل نے لکھا کہ ’مجھے بطور پاکستانی مبارک ہو کہ میں نے پاکستان کی خوراک مصنوعات کی پہلی کھیپ اسرائیل کی منڈی میں برآمد کی۔‘

اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک سٹال پر مختلف میوہ جات، مسالے اور کھجوریں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جن پر عبرانی میں عبارت اور قیمتیں درج ہیں۔

اپنی اس پوسٹ میں فشل نے وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم نواز شریف، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ ساتھ مریم نواز، وفاقی وزیر احسن اقبال اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو بھی ٹیگ کیا۔

بی بی سے نے فشل سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ پاکستان اور اسرائیل کی درمیان سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود انھوں نے یہ کام کیسے کیا تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

ان کی اس پوسٹ پر جب عام صارفین نے سوال کیے یہ کیسے ممکن ہوا تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ ’یہ بہت مشکل کام تھا۔‘

ان کے مطابق انھوں نے دبئی اور جرمنی میں تین اسرائیلی تاجروں سے متعدد ملاقاتیں کیں جس کے بعد یہ ممکن ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی مصنوعات کا معیار اچھا تھا اور قیمت بھی مناسب تھی تاہم یہ پہلی تجرباتی کھیپ تھی۔‘

ان کے مطابق معیار کو یقینی بنانا، مصنوعات کی پیکیجنگ اور شپنگ کے عمل کو مکمل کرنا بھی مشکل مراحل تھے۔

ایک سوشل میڈیا صارف نے ان سے سوال کیا کہ پاکستانی مصنوعات پر اسرائیل میں کیسا ردعمل سامنے آیا تو جواب میں فشل بین خلد نے کہا کہ ’پاکستانی مصنوعات کا معیار اسرائیل میں قابل قبول تھا تاہم بہتری کی گنجائش موجود ہے۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’اسرائیلی خریداروں کا ردعمل کسی عام خریدار جیسا ہی تھا جن کو مناسب قیمت میں معیاری مصنوعات درکار ہوتی ہیں۔‘

ایک اور صارف نے پوچھا کہ انھوں نے پاکستانی بینک کا استعمال کیا یا پھر کسی غیرملکی طریقے سے لین دین کیا۔ فشل نے جواب میں کہا کہ ’اسرائیلی حکومت اور عام خریداروں کو پاکستان سے لین دین میں کوئی مسئلہ نہیں۔‘

ایک صارف نے جب لکھا کہ یہ بہترین پہلا قدم ہے تو فشل نے جواب میں کہا کہ ’دراصل میں ایسا کرنے والا پہلا شخص نہیں ہوں لیکن میرے لیے یہ پہلا قدم ضرور ہے۔‘

ایک صارف نے فشل سے سوال کیا کہ کیا انھوں نے یہ مصنوعات کراچی سے براہ راست اسرائیل بھجوائیں یا پھر متحدہ عرب امارات یا ترکی کے راستے۔

اس سوال کا فشل نے جواب نہیں دیا۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہFISHEL BENKHALD

ایسے میں متعدد صارف فشل سے کاروباری مشورے لیتے بھی دکھائی دیے۔

ایک اور پاکستانی صارف نے ان سے سوال کیا کہ پاکستان سے کھجوریں کیسے بیرون ملک بیچی جا سکتی ہیں تو انھوں نے لکھا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، اس کا دارومدار معیار اور قیمت پر ہے۔

ایک صارف نے لکھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے بعد پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

فشل بین خلد کون ہیں؟

فشل بین خلد کا تعلق کراچی سے ہے۔ انھوں نے چند سال قبل حکومت پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ان کو بطور یہودی پاکستان کا پاسپورٹ جاری کیا جائے۔

سوشل میڈیا پر فشل کافی سرگرم رہتے تھے اور پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات کی حمایت کرتے تھے۔

گذشتہ سال انھوں نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا جہاں ایک وفد کے ہمراہ انھوں نے اسرائیلی صدر اور حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔

ان کے اکاوئنٹ کے مطابق وہ کراچی میں یہودی برادری سے تعلق رکھتے ہیں جس کی تعداد پاکستان کے قیام کے بعد سے مسلسل کم ہوتی رہی ہے۔

ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق فشل کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ یہودی تھیں تاہم اسی رپورٹ کے مطابق فشل کے بھائی ان کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدین مسلمان تھے۔

اس رپورٹ میں فشل کا انٹرویو بھی کیا گیا جس میں انھوں نے کہا کہ ان کی والدہ کا انتقال اس وقت ہوا جب ان کی عمر صرف نو سال تھی اور ان کے پاس اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں کہ وہ یہودی تھیں تاہم ان کو یاد ہے کہ وہ یہودی عقائد پر یقین رکھتی تھیں۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہFISHEL BENKHALD

پاکستان اور اسرائیل کی متنازع تاریخ

پاکستان میں اسرائیل کے خلاف پائی جانی والی رائے کے ہوتے ہوئے ہر حکومت کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے جیسے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور اگر حکمران اس حوالے سے کوئی نرمی برتیں تو انھیں سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

ماضی میں پاکستانی حکام پر خفیہ طور پر اسرائیل سے روابط کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔

پاکستان میں اسرائیل سے متعلق تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی تجاویز سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئیں تو عوام نے سابق صدر پر بھی اسرائیل سے دوستی کرنے جیسے الزامات عائد کیے۔

سابق سفیر آصف درانی نے 16 مئی کو بی بی سی کو بتایا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا براہ راست کوئی تنازعہ نہیں اور نہ اسرائیل کبھی پاکستان کے خلاف براہ راست بیانات دیتا ہے۔ ان کے مطابق اچھے تعلقات کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔

آصف درانی کے مطابق انڈیا نے سنہ 1992 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مزید مربوط بنایا اور اگر اس وقت پاکستان بھی تعلقات بہتر کر لیتا تو اس کا اچھا اثر پڑنا تھا۔

سابق سفیر کے مطابق 57 اسلامی ممالک میں سے 36 کے اسرائیل کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔

اسرائیل کے سفارت کاوں سے امریکہ کے شہر نیویارک میں اپنی ایک ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے آصف درانی نے کہا کہ اسرائیلی سفات کاروں کے مطابق اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو باقی بچ جانے والے اسلامی ممالک بھی انھیں تسلیم کر لیں گے۔

سابق سفیر کے مطابق پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق اور مخالفت میں اپنے دلائل موجود ہیں جس وجہ سے یہ بحث جلد کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ