سٹارشپ: ’مریخ تک پہنچنے‘ کے مشن کا آزمائشی راکٹ جو پرواز کے آٹھ منٹ بعد تباہ ہوگیا

spaceship

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, جوناتھن ایموس
  • عہدہ, نامہ نگار برائے سائنس

امریکی کمپنی سپیس ایکس کا کہنا ہے کہ اس نے ریاست ٹیکساس سے لانچ کی گئی سٹارشپ کی دوسری ٹیسٹ فلائٹ کے ذریعے قابلِ ذکر پیشرفت حاصل کی ہے۔

اس 120 میٹر لمبی سٹارشپ کا اپریل میں ڈیبیو اچھا نہیں رہا تھا اور یہ دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی لیکن اس مرتبہ یہ زیادہ دور اور اونچائی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ تاہم راکٹ کی پرواز ایک بار پھر تکنیکی مسائل کے باعث محدود ہو گئی مگر اس مرتبہ یہ بات واضح تھی کہ اس سے پہلے سامنے آنے والے مسائل حل کر لیے گئے تھے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے کمپنی کو اس لانچ سے ہونے والی پیشرفت پرسراہا ہے۔

ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے ٹیوٹ کیا کہ ’سپیس فلائٹ ایک دلیری پر مبنی مہم جوئی ہے جس کے لیے کر دکھانے کا جذبہ اور جرات مندانہ جدت چاہیے۔ آج کا ٹیسٹ سیکھنے کا ایک موقع تھا، پھر دوبارہ پرواز ہو گی۔‘

سپیس ایکس کا مقصد اس دہائی کے آخر تک سٹارشپ کے ذریعے انسانوں کو چاند تک پہنچانا ہے۔ دو حصوں پر مشتمل سٹارشپ نے ٹیکساس کے ساحلی علاقے بوکا چیکا سے مقامی وقت کے مطابق سات بجے پرواز بھری اور یہ نوے منٹ کی پرواز ہونا تھی۔

اس کا مقصد تھا کہ اوپر کے حصے کو (جو 50 میٹر لمبا ہے اور اسے ’دی شپ‘ کہا جاتا ہے) زمین کے مدار میں تقریباً ایک بار گھمایا جائے۔ پھر اس نے ہوائی کے قریب سمندر میں گرنا تھا۔

تاہم یہ تجربہ مکمل نہ ہو سکا۔ لانچ کے آٹھ منٹ بعد سٹارشپ پر موجود کمپیوٹرز نے مشن ختم کر دیا اور راکٹ دھماکہ سے اُڑ گیا۔ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی وجہ کیا بنی۔

سٹارشپ

تاہم یہ پرواز اتنی دیر بھی جاری رہی، یہ اپریل کے واقعے کی نسبت ایک بڑی کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔

اپریل میں سٹارشپ نے لانچ کے وقت لانچ پیڈ کو بھی نقصان پہنچایا تھا اور پہلے مرحلے میں (جسے سوپر ہیوی بوسٹر کہتے ہیں) اس کے متعدد انجنز جواب دے گئے تھے۔ یوں ’دی شپ‘ کو مخصوص بلندی پر جا کر علیحدہ کرنے میں ناکام رہے۔ سنیچر کو ہونے والے ٹیسٹ میں یہ تمام مراحل بغیر کسی مسئلے کے بحفاظت طے ہو گئے۔

تاہم اب انجینیئرز یہ جاننا چاہیں گے کہ بوسٹر نے خود کو علیحدگی کے مرحلے کے بعد کیوں دھماکوں سے اڑا دیا اور 150 کلومیٹر کی بلندی پر پہنچنے کے بعد دی شپ سے رابطہ منقطع ہونے کے سراغ لگائیں گے۔

سپیس ایکس کی ویب کاسٹ میں کمنٹری کرنے والی کیٹ ٹائس کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی کامیابی والا دن ہے، حالانکہ ہمیں اس دوران اچانک سوپر ہیوی بوسٹر اور دی شپ کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ بہترین تھا کیونکہ ہم بہت سارے اعداد و شمار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس سے ہمیں اپنی اگلی پرواز کے لیے مدد ملے گی۔‘

کمپنی کی پروڈکشن لائن اس کی بوکا چیکا میں موجود ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ تجربہ گاہ میں موجود ہے۔ وفاقی لائسنسنگ ایجنسیوں سے منظوری کے بعد اس طرح کے ٹیسٹوں میں تیزی دیکھنے کو ملے گی۔

سٹارشپ دنیا کا سب سے طاقتور ترین راکٹ سسٹم ہے۔ سوپر ہیوی بوسٹر میں 33 انجن موجود ہیں جو 74 میگا نیوٹنز کی تھرسٹ پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان تمام راکٹس سے زیادہ طاقتور ہے جنھوں نے انسان کو چاند تک پہنچانے میں مدد دی تھی۔

اگر سپیس ایکس کے انجینیئرز سٹارشپ کی خامیوں کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک انقلابی پیش رفت ہو گی۔

کمپنی کا سٹارشپ کے حوالے سے نظریہ یہ ہے کہ یہ فوری اور مکمل طور پر دوبارہ استعمال کی جا سکے گی اور اسے ایک طیارے کی طرح چلایا جا سکے گا جس میں دوبارہ ایندھن بھرا جائے گا اور اسے دوبارہ فضا میں جانے کے لیے تیاری کیا جائے گا۔

اس صلاحیت کے علاوہ اس میں 100 ٹن سے زیادہ وزن مدار میں بھیجنے کی صلاحیت ہے جس کے باعث خلا میں ہونے والے سفر کی قیمت میں کمی واقع ہو گی۔

ایلون مسک کے لیے سٹارشپ ان کے ایک طویل عرصے سے موجود اس خواہش کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اور مختلف اشیا کو مریخ تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں گے اور انسان کو وہاں بسنے میں مدد دے سکیں گے۔

یہ ان کے سٹارلنک پراجیکٹ کی بھی معاونت کرے گا جس کا مقصد براڈ بینڈ انٹرنیٹ سیٹلائٹس کا عالمی نیٹ ورک قائم کرنا ہے۔

اس وقت مدار میں ہزار سٹارلنک سیٹلائٹس موجود ہیں تاہم اس کے بعد آنے والے ماڈلز زیادہ وزنی ہوں گے اور انھیں مدار تک پہنچانے کے لیے سٹارشپ کی ضرورت پڑے گی۔

سٹارشپ

BBCUrdu.com بشکریہ