سویڈن میں ڈرون طیارے نے ہارٹ اٹیک کے دوران ایک شخص کو بچا لیا
سویڈن میں ایک آٹونمس یعنی خود مختار ڈرون کی مدد سے عارضہ قلب سے متاثر ایک 71 سالہ مریض کی جان بچائی گئی ہے۔
اس ہنگامی صورتحال میں ڈرون نے مریض کا علاج کر رہے ڈاکٹر کے پاس ’ڈی فِبری لیٹر‘ وقت پر پہنچا کر مدد کی۔ مذکورہ مریض سویڈن میں گھر کے باہر برف صاف کرنے میں مصروف تھا جن انھیں ہارٹ اٹیک ہوا۔
عارضہ قلب یعنی کارڈیئک اریسٹ میں دل اچانک کام کرنا بند کر دیتا ہے جسے ہارٹ فیل ہونا بھی کہتے ہیں۔ ’ڈی فبری لیٹر‘ وہ آلہ ہے جو کارڈیئک اریسٹ کے مریض کے دل کو بجلی کا جھٹکا لگا کر اس پر طاری کپکپاہٹ کو ختم کر دیتا ہے اور نارمل دھڑکن کو رواں کر دیتا ہے۔
مریض نے، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ آلے کا اتنی جلدی پہنچنا بہت ’حیرت انگیز‘ تھا۔
ڈرون تیار کرنے والی کمپنی ایورڈرون کا کہنا ہے کہ اس طرح ایمبولنس کے پہنچنے سے پہلے ہی ڈی فِبری لیشن یعنی دل کی دھڑکن بحال کرنے کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔
ایورڈرون کا کہنا ہے کہ اطلاع موصول ہونے کے تین منٹ کے اندر آٹومیٹِڈ ایکسٹرنل ڈی فِیبری لیٹر (اے ای ڈی) مریض کے پاس پہنچ گیا تھا۔
قریب سے گزر رہا ڈاکٹر
مریض نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یاد نہیں کہ دسمبر کے اس روز کیا پیش آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کے سامنے سے برف کی تہہ ہٹا رہے تھے جب ان کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی اور ’ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔‘
بعد میں ان کی بیوی نے انھیں بتایا کہ وہ بہت خوش قسمت تھے۔ اتفاق سے اسی لمحے ڈاکٹر مصطفیٰ علی اپنی کار میں وہاں سے گزر رہے تھے اور وہ فوراً مدد کو آئے اور ایورڈرون کو الرٹ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا ’میں مقامی ہسپتال میں اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا جب میں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے گھر کے سامنے اچانک گر پڑا۔‘
’اس کی نبض رک چکی تھی۔ میں نے سی پی آر (کارڈیو پلمونری ریسسی ٹیشن) کا عمل شروع کر دیا اور قریب کھڑے شخص سے ایمرجنسی والوں کا نمبر ملانے کو کہا۔‘
سی پی آر کے عمل میں دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر مریض کے سینے پر بار بار دباؤ ڈالا جاتا ہے اور مریض کے منہ یا ناک پر اپنا منہ رکھ کر مریض کے پھیپھڑوں میں تازہ ہوا پھونکی جاتی ہے۔ دل پر دباؤ پڑنے سے خون کی گردش رواں ہو جاتی ہے اور آکسیجن دماغ کو پہنچنے لگتی ہے۔ اس طرح وقتی طور پر دماغ کی موت واقع نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر علی کا کہنا تھا ’چند ہی منٹ کے بعد میں نے دیکھا کہ کوئی چیز میرے سر کے اوپر منڈلا رہی تھی۔ یہ ڈرون تھا جو ڈی فِبری لیٹر لے کر پہنچا تھا۔‘
ایورڈرون کے چیف ایگزیکٹیو میٹس سالسٹروم کا خیال ہے کہ مریض کی جان بچانے کی اجتماعی کوشش میں ڈرون نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’اس میں سی پی آر کرنے والے ڈاکٹر کی ابتدائی کاوش، ابتدائی ڈی فِبریِلیشن اور ہسپتال کے راستے میں ایمبولنس کے اندر دی جانی والی ابتدائی طبی امداد سب کا حصہ ہے۔‘
سویڈن میں ڈرون کے ذریعے ڈی فِبری لیٹر پہنچانے کا تجربہ سب سے پہلے 2020 میں کیا گیا تھا۔
کارڈیئک ارسٹ کے 14 مشتبہ واقعات میں سے 12 تک ڈرون نے بلآ تاخیر کامیابی کے ساتھ ڈی فبریلیٹر پہنچا دیے تھے۔
سات واقعات میں تو ایمبولنس کے پہنچنے سے پہلے ڈرون پہنچ گئے تھے۔
دسمبر کے واقعے میں تو ڈاکٹر مریض کے پاس موجود تھا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورتحال میں عام لوگ زندگی بچانے والا یہ آلہ استعمال کر سکتے ہیں؟
سالسٹروم کہتے ہیں کہ ان ڈی فِبری لیٹر کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ عام لوگ بھی اسے استعمال کر سکتے ہیں، ’ایسے وقت میں آپ فون پر ایمرجنسی سینٹر سے رابطے میں ہوتے ہیں جو آپ کی رہنمائی کر سکتا ہے۔‘
ایورڈرون دوسرے ممالک مثلاً برطانیہ کو بھی یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔
صحت عامہ کے شعبے میں ڈرون کا استعمال دوسرے ملکوں پہلے ہی سے ہو رہا ہے مگر کسی میڈیکل ایمرجنسی میں اس کے کامیاب استعمال کا یہ پہلا واقعہ تھا۔
اڑنے کو تیار
ایورڈرون کا کہنا ہے کہ ان کے سسٹم کی خاص بات ان کا ڈرون ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
یہ ڈرون ایمرجنسی سینٹر کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جیسے ہی کارڈیئک اریسٹ کی کوئی اطلاع موصول ہوتی ہے تو یہ اڑان بھر لیتے ہیں۔
اگرچہ یہ ڈرون آٹونمس ہیں، تاہم حفاظتی نقطۂ نگاہ سے ’ایک پائلٹ ان کمانڈ‘ اس سارے عمل کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے اور ایئر ٹریفک کنٹرول سے کلیئرنس بھی حاصل کرتا ہے۔
سالسٹروم کا کہنا ہے ’بظاہر یہ ایک طویل عمل لگتا ہے مگر اطلاع موصول ہونے کے صرف 60 سیکنڈ کے اندر یہ مکمل ہو جاتا ہے۔‘
کمپنی کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں وقت بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دل کی ڈھڑکن رکنے کے بعد ہر منٹ کی تاخیر سے زندہ بچ جانے کے امکانات 7 سے 10 فیصد تک کم ہونے لگتے ہیں۔
Comments are closed.