بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

انڈین میڈیا میں قزاقستان اور یوکرین کی کوریج پر روس کیوں بے چین ہے؟

انڈین میڈیا میں قزاقستان اور یوکرین کی کوریج پر روس کیوں بے چین ہے؟

قزاقستان کے فوجی

،تصویر کا ذریعہEPA

انڈیا میں روسی سفارت خانے نے مقامی میڈیا میں قزاقستان اور یوکرین کی کوریج پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انڈین میڈیا کی رپورٹنگ پر اعتراض کیا ہے۔

سات جنوری کو قزاقستان میں روسی فوج بھیجنے کے بارے میں انڈین میڈیا میں جس طرح کی رپورٹس شائع کی گئیں تھی روس نے اس پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔

روسی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈین میڈیا قزاقستان میں روسی فوجیوں کی آمد کے بارے میں مکمل سچائی نہیں بتا رہا۔

اس پریس نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’جب قزاقستان میں پرتشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور وہاں سیاسی عدم استحکام کا بحران منڈلا رہا تھا، ہم اس پر نظر رکھ رہے تھے۔

’قزاقستان ہمارا دوست ملک ہے اور اس کی روس کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت داری ہے۔ وہاں ہونے والا تشدد ملک کی سلامتی اور سالمیت کو متاثر کرنے کی کوشش تھی۔ وہاں تربیت یافتہ اور منظم بیرونی گروہوں کو استعمال کیا گیا۔ قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکائف نے اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم (سی ایس ٹی او) کے تحت مدد طلب کی تھی۔ جس کے بعد چھ جنوری کو تنظیم کی جانب سے اجتماعی امن فوج بھیجی گئی۔‘

روس کو کیا اعتراض ہے؟

روسی سفارت خانے نے لکھا ’سی ایس ٹی او کی اجتماعی سلامتی کونسل 2022 کے چیئرمین آرمینیا کے وزیراعظم نکول پشینیان ہیں اور انھوں نے قزاقستان میں اجتماعی امن فوج بھیجنے کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا۔

’بیرونی مداخلت کی وجہ سے قزاقستان کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو لاحق خطرے کے پیش نظر اجتماعی سلامتی کونسل کے آرٹیکل چار کے تحت مختصر مدت کے لیے امن فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فوج کو بھیجنے کی وجہ قزاقستان میں استحکام لانا ہے۔‘

روسی وزارت خارجہ نے انڈین میڈیا کی جانب سے اس ‘حقیقت’ کو نہ بتانے پر اعتراض کیا ہے۔

روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ‘اجتماعی سلامتی کے معاہدے پر 15 مئی 1992 کو اتفاق کیا گیا تھا اور اس کے آرٹیکل چار کے مطابق، رکن ممالک کے درمیان استحکام برقرار رکھنے اور ملکوں کی قومی سلامتی اور سالمیت کو بیرونی حملوں سے بچانے کے لیے رکن ملک کی درخواست پر فوجی اور دیگر قسم کی امداد بھیجی جائے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

قزاقستان کے فوجی

،تصویر کا ذریعہEPA

سی ایس ٹی او امن فوج کی تعیناتی تبھی ہو گی جب تمام رکن ممالک کے درمیان اتفاق رائے ہوگا۔ اور قزاقستان کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ چھ جنوری کو قزاقستان میں بھیجے جانے والی امن فوج میں روسی فوج کے علاوہ آرمینیا، بیلاروس اور تاجسکتان کے فوجی بھی شامل تھے۔

سات جنوری کو حکام نے بیان جاری کیا کہ امن و امان بحال ہو گیا ہے۔

یوکرین پر روس کے دلائل

لیکن روس کا غصہ انڈین میڈیا میں قزاقستان کے بحران میں روس کے کردار کی کوریج تک محدود نہیں رہا۔ 9 جنوری کو روسی وزارت خارجہ نے ایک اور بیان جاری کیا۔ روسی وزارت خارجہ نے اس بار یوکرین کے بحران پر انڈین میڈیا کی کوریج پر شدید تنقید کی۔

روسی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ ’انڈین میڈیا نے ایک بار پھر یوکرین بحران اور روس کے مؤقف کے حوالے سے جانبدارانہ تصویر پیش کی ہے۔

’انڈین میڈیا میں یوکرین کے حکام کے بارے میں تضحیک آمیز بیان بھی سامنے آیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یوکرین کے بحران کے حوالے سے انڈین میڈیا میں شائع ہونے والے جانبدارانہ مواد کا انڈیا کی حکومت کے سرکاری مؤقف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ معروف ماہرین کی رائے بھی انڈین میڈیا کی کوریج سے مختلف ہے۔ اس سب کے درمیان ہم پورے معاملے پر حقائق کو سامنے رکھے ہوئے ہیں۔‘

پیوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین کی سرحد پر روس نے ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں

روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’روس کسی بھی ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ہمارا مقصد یوکرین کے لوگوں کو لڑانا نہیں ہے۔

’ہم اس تنازع کا کوئی فوجی حل بھی نہیں چاہتے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوتن اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی طرف سے اس نکتے کو کئی بار دہرایا جا چکا ہے۔ ہم اس معاملے میں عالمی برادری سمیت انڈیا کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یوکرین کی حکومت اپنے غلط فیصلوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔’

روسی وزارت خارجہ نے لکھا کہ دراصل یہ یوکرین کی فوج اپنے ہی لوگوں کے خلاف گذشتہ آٹھ برسوں سے لڑ رہی ہے۔ سنہ 2001 میں اس نے 1,923 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور بے گناہوں پر گولیاں برسائیں اور انھیں اسکولوں اور عام زندگی میں روسی زبان استعمال کرنے پر روک دیا گیا۔

روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ‘ہم دیکھ رہے ہیں کہ یوکرین کی حکومت امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک سے فوجی مدد لے رہی ہے۔ امریکہ سنہ 2014 سے یوکرین کی فوج پر ڈھائی ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ سنہ 2002 میں 30 کروڑ ڈالر الگ سے مختص کیے گئے تھے۔ نیٹو کے رکن ممالک روس کے خلاف یوکرین میں اپنی موجودگی بڑھا رہے ہیں۔‘

A burnt minibus pictured in a street in Kazakhstan's main city, Almaty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

‘وہ یوکرین میں فوجی اڈے بنا رہے ہیں اور فوجی مشقیں بھی کر رہے ہیں۔ اس طرح کی سات فوجی مشقیں یوکرین میں ہو چکی ہیں۔ روس پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم یوکرین کی سرحد پر فوج تعینات کر رہے ہیں۔

’کسی بھی خودمختار ملک کو اپنی سرزمین میں فوج تعینات کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم نے کسی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ ہم اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کچھ بھی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔‘

یوکرین کی سرحد پر روسی فوجی

یوکرین کی سرحد پر روس نے ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ روس یوکرین پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے۔

تاہم روس اس کی تردید کرتا رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادی میر پیوتن کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اسے بھاری قیمت چکانی ہو گی۔

یوکرین کا تنازع چل ہی رہا تھا کہ قزاقستان میں تشدد بھڑک اٹھا اور روس نے وہاں اپنی فوج بھیج دی۔ امریکہ نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ روس ایک بار کہیں پہنچ جائے تو آسانی سے واپس نہیں جاتا۔ یوکرین اور قزاقستان دونوں سابق سوویت یونین کا حصہ تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.