تائیوان کی ’سلیکون شیلڈ‘ چین کے حملے کو روکنے میں کیسے مدد فراہم کر رہی ہے؟
عوامی جمہوریہ چین سے صرف 180 کلومیٹر دور، تائیوان اپنے ابدی دشمن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اُن کی زبان ایک ہے، اجداد ایک ہیں، نسل ایک ہے، لیکن سیاسی نظام مختلف ہے۔
آبنائے تائیوان کی ایک جانب، بیجنگ ایک سپر پاور کا دارالحکومت ہے جہاں 1.3 ارب افراد آباد ہیں اور جو کیمونسٹ جماعت کی آہنی گرفت میں ہے۔ دوسری جانب، تائپائی ایک جمہوری ملک کا دارالحکومت ہے جس میں دو کروڑ تیس لاکھ افراد بستے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 1949 میں تنازع کے بعد سے تائیوان کو بین الاقوامی تنظیموں تک رسائی سے محروم کر دیا گیا اور آج بھی اسے بین الاقوامی سطح پر محدود پہچان حاصل ہے۔
درحقیقت، دنیا کے صرف 15 ممالک اس سرزمین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، جبکہ چین اس جزیرے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور اسے چین کا ایک باغی صوبہ تصور کرتا ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی نے سنہ 2005 میں علیحدگی پسندی متعلق ایک قانون کی منظوری دی، جس کے ذریعے حکومت کو اختیار دیا گیا تھا کہ اگر تائیوان کی طرف سے چین سے علیحدگی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تو وہ تائیوان کے خلاف طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔
اِس صورت میں یہ خطرہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر تائیوان نے آزادی کا اعلان کیا تو اس جزیرہ نما ملک پر فوجی حملہ ہو سکتا ہے۔
ان نامواقف حالات میں تائیوان نے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی جس میں اس کو کسی بڑی حد تک اپنے دفاع میں مدد ملی ہے۔ اس حکمت عملی کو ’سلیکون شیلڈ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دراصل جدید صنعتوں پر مشتمل ایک بہت پیچیدہ اور وسیع نظام ہے جس میں لڑاکا طیاروں سے لے کر شمسی توانائی پیدا کرنے والے پینل، ویڈیو گیمز اور طبی آلات بھی تیار کیے جاتے ہیں۔
’سلیکون شیلڈ: پروٹیکشن اگینسٹ چائنیز اٹیک‘ کے عنوان سے لکھی گئی کتاب کے مصنف کریگ ایڈیسن سے بی بی سی نے ’سلیکون شیلڈ‘ کی اصلاح کی وضاحت کرنے کو کہا۔
چپ کسی بھی الیکٹرانک ڈیوائس (آلے) کا ’دماغ‘ ہوتا ہے۔ ’سلیکون شیلڈ‘ کیا ہے؟ ہم اس کی وضاحت کیسے کر سکتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ ترین معیار کی ’سیمی کنڈکٹر‘ (جزوی موصل) چپ تیار کرنے والے ملک کی حیثیت، جو تائیوان کو حاصل ہے وہ چینی فوجی کارروائی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
دنیا کے اس حصے میں جنگ کے اثرات اتنے تباہ کن ہوں گے کہ چین کی معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اُس کو اِس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ ایشیا کا یہ دیو قامت ملک، دنیا کی باقی معاشی طاقتوں کی طرح، تائیوان میں تیار کردہ انتہائی نفیس چپ پر انحصار کرتا ہے۔
یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سیمی کنڈکٹر (جزوی طور پر موصل) دھاتوں سے بنائے جاتے ہیں، یعنی عام طور پر سلیکون سے بنے ہوئے انٹی گریٹڈ سرکٹس۔
یہ تائیوان کو کس چیز سے بچاتا ہے؟
سلیکون کی شیلڈ یا ڈھال ایم اے ڈی (باہمی تباہی کی یقین دہانی) کا خیال سرد جنگ کے تصور کی طرح ہے، کیونکہ آبنائے تائیوان میں کوئی بھی فوجی کارروائی چین کے لیے اتنی نقصان دہ ہو گی کہ جتنی یہ تائیوان اور امریکہ کے لیے ہو سکتی ہے۔
درحقیقت، یہ مسلح تصادم کو شروع ہونے سے روکنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ مسلح کارروائی کی قیمت، نہ صرف دنیا کے لیے، بلکہ خود چین کے لیے اتنی زیادہ ہو سکتی ہے، کہ شی جی پنگ کی حکومت کو فوجی کارروائی کا حکم دینے سے پہلے کئی مرتبہ سوچنا پڑے گا۔
کیا اس تحفظ کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال موجود ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر چینی حکومت ضروری ہو تو تائیوان کو طاقت کے زور سے حاصل کرنے کے لیے اپنے بیان کردہ ارادے کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’سلیکون شیلڈ’ کام کر رہی ہے۔
اگر تائیوان دنیا کو ٹیکنالوجی کا اتنا اہم فراہم کنندہ نہ ہوتا تو چین اس علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے کارروائی کر چکا ہوتا۔ تائیوان آبنائے میں 1996 کے میزائل کے بحران میں، امریکہ نے چین کی جنگی مشقوں کو روکنے کے لیے جنگی طیاروں کے دو گروپ بھیجے تھے تاکہ تائیوان کو بچایا جا سکے، جس میں میزائل فائر کرنا بھی شامل ہے۔
یہ موجود مفادات کی ایک مخصوص مثال ہے تاکہ حملہ نہ ہو۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین تائیوان کو ڈرانا چاہتا تھا جب اس نے 1996 میں آبنائے میں فوجی مشقیں کی تھیں۔
تو امریکہ تنازع میں کسی طرح آتا ہے؟
زیادہ تر فوجی ماہرین متفق ہیں کہ چین کے پاس تائیوان کے خلاف مکمل پیمانے پر حملہ کرنے کی فوجی صلاحیت نہیں ہے۔ جون میں امریکی کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین، جنرل مارک ملی نے کہا تھا کہ چین کے لیے یہ حملہ ’غیر معمولی حد تک پیچیدہ اور مہنگا‘ ثابت ہو گا۔
تائیوان کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کرتے وقت، چین کو بھی اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ آیا جزیرے کے دفاع کے لیے امریکہ سامنے آئے گا یا نہیں۔
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ امریکہ خاموش رہے گا اور چین کو طاقت کے ذریعہ تائیوان پر قبضہ کرنے دے گا۔ کیوں؟
عالمی ہائی ٹیک سپلائی کی فراہمی میں خلل پڑنے سے خود امریکہ کی معیشت کو نقصان پہنچے گا اور اس حملے سے چین کے دنیا کے جدید ترین چپ کارخانوں پر قبضہ ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کے لیے ایک اور بہت بڑا خطرہ یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ جدید ترین ہتھیار چین کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جو واشنگٹن نے گذشتہ چند برسوں میں تائی پے کو فروخت کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کیا کوئی یہ سوچتا ہے کہ امریکہ خاموش بیٹھ کر ایسا ہونے دے گا؟
کیا امریکہ نے مختلف حکومتوں کے دوران تائیوان کے بارے یکساں پالیسی برقرار رکھی ہے؟ جب صدر جمی کارٹر نے 1979 میں بیجنگ کے ساتھ یکطرفہ طور پر سفارتی تعلقات قائم کیے اور تائیوان کے ساتھ سرکاری تعلقات منقطع کیے تو کانگریس نے تائیوان تعلقات کا قانون منظور کیا، جو تائیوان کو دفاعی ہتھیاروں کی فروخت کا اختیار دیتا ہے۔
تائیوان کے بارے میں امریکی پالیسی ’سٹریٹجک ابہام‘ میں سے ایک ہے۔ یہ ابہام امریکہ اس لیے برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ چین کو یہ اندازہ لگانے میں مشکل ہو کہ اگر وہ تائیوان کے خلاف طاقت کا استعمال کرتا ہے تو امریکہ کا رد عمل کیا ہو گا۔
تاہم سنہ 2001 میں صدر جارج بش نے کہا تھا کہ وہ تائیوان کو چین کے حملے سے بچانے کے لیے ’جو بھی چاہے‘ کرے گا۔
لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے زیادہ تر دوسرے صدور عوامی سطح پر کچھ نہیں کہتے ہیں، اگرچہ ان کے اقدامات الفاظ سے زیادہ بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، 1996 میں آبنائے تائیوان میزائل بحران میں، صدر بل کلنٹن نے دو جنگی بحری جہازوں کو چینی جنگی مشقوں کی نگرانی کا حکم دیتے ہوئے بیجنگ کو ایک سخت پیغام بھیجا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات استوار کیے، جس میں تائی پے کو جدید اسلحہ کی فروخت کا اختیار بھی شامل ہے۔
اور قریبی تعلقات کی یہ پالیسی صدر جو بائیڈن کے تحت جاری ہے۔ جون کے اوائل میں، امریکی سینیٹرز کا وفد ’بائیڈن کووڈ 19 ویکسین عطیہ پروگرام‘ کے ایک حصے کے تحت بوئنگ سی 17 میں تائیوان پہنچ گیا تھا۔
تائیوان کے ایک ہوائی اڈے پر امریکی دیو ہیکل طیارے کی ظاہری شکل کو چین نے چھوٹے علاقے کے لیے واشنگٹن کی حمایت کی ایک اور علامت کے طور پر دیکھا تھا۔
مارکیٹ میں سیمی کنڈکٹر مائکرو چپس کی کمی کا تائیوان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
گاڑیوں کی صنعت میں سیمک کنڈکٹر کی کمی کا آغاز ہوا، کیونکہ کاروں کی صنعت کووڈ کی وبا کے بعد طلب کے بڑھنے کی رفتار کا انداز نہیں کر پائے۔ پہلے انھوں نے اپنے چپ آرڈرز منسوخ کر دیے لیکن پھر انھیں احساس ہوا کہ جب نئے آرڈر دینا پڑے تو انھیں انتظار کے لیے لائن کے آخر میں کھڑا ہونا پڑا۔
بعدازاں، یہ لیپ ٹاپ اور گیم کنسولز سمیت دیگر الیکٹرانک مصنوعات میں بھی پیدوار کم کر دی، جس کی پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے زیادہ مانگ تھی۔
تائیوان ان مصنوعات کی چپس کا ایک بڑا سپلائی کرنے والا ملک ہے، اور یہ صورتحال عالمی سپلائی چین میں رکاوٹ بن گئی۔
تائیوان کا کیا جواب تھا؟
اس قلت کے جواب میں تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی (ٹی ایس ایم سی) جس کا عالمی مارکیٹ میں چپس کی فراہمی میں چوتھا حصہ ہے، پیداواری صلاحیت بڑھانے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ، لیکن یہ ایک طویل مدتی حل ہے۔
قلیل مدت میں، اس دوران اس نے پیشگی آرڈروں کو پورا کرنے کے لیے ’ڈبل بکنگ‘ کرنے والے صارفین کے بجائے فوری ضروریات کے ساتھ چپ خریداروں کے ’حقیقی‘ آرڈرز کو پورا کرنے کو ترجیح دینے کی پالیسی اپنائی ہے۔
اس جیو پولیٹیکل توازن میں ٹی ایس ایم سی کمپنی کیا کردار ادا کرتی ہے؟
ٹی ایس ایم سی نے چپ انڈسٹری کا سوئس بننے کی کوشش کی ہے، یعنی غیر جانبدار رہنے کی، لیکن وہ حکمت عملی ختم ہو چکی ہے۔ اس کمپنی کو چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں امریکہ کی طرف سے پابندیوں کو قبول کرنا پڑا جو واشنگٹن نے چینی ٹیک کمپنی، ہواوے ٹیکنالوجیز کمپنی پر عائد کی تھی۔
درحقیقت، ٹی ایس ایم سی کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں تھا کیونکہ اس کے زیادہ تر صارفین (اپنی 2020 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 62 فیصد) شمالی امریکہ سے ہیں۔
اس کی فروخت ایپل، نیوڈیا اور کوالکوم جیسی کمپنیوں کو ہوئی ہے اور اس سال اس کی فروخت کا صرف 17 فیصد چین (ہواوے سمیت) گیا تھا۔
اس کے نتیجے میں ٹی ایس ایم سی امریکی کمپنیوں جیسے اپلائیڈ میٹریلز، لام ریسرچ اور کے ایل اے پر بھی انحصار کرتا ہے، جو مائیکرو چیپس بنانے کے لیے مشینیں تیار کرتی ہیں، لہذا یہ امریکی خواہشات کے خلاف یا اس ٹیکنالوجی تک رسائی پر پابندی عائد ہونے کے خطرہ کے خلاف نہیں جا سکتی تھی۔
اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ٹی ایس ایم سی تائیوان کی ایک امریکی کمپنی کے ساتھ ’روح‘ کا رشتہ ہے، کیوںکہ اس کے بانی (مورس چانگ) اور اس کے بیشتر سی ای او اور اعلیٰ عہدیدار وہاں کالج جاتے تھے اور امریکی کمپنیوں میں طویل کیریئر رکھتے تھے۔
در حقیقت ان میں سے بہت سے امریکی شہری ہیں۔
کیا کوئی ایسا ملک ہے جو تکنیکی لحاظ سے خود کفیل ہو؟
کوئی بھی ملک ٹیکنالوجی کے تمام پہلوؤں میں خود کفیل نہیں ہے اور یقینی طور پر سیمی کنڈکٹرز میں نہیں ہے۔ حالیہ دہائیوں میں، سیمی کنڈکٹر انڈسٹری بکھری ہوئی ہے اور سپلائی چین کے مختلف حصے دنیا بھر کے مختلف مقامات اور مختلف کمپنیوں کے ذریعہ بنائے جاتے ہیں۔
چپ ڈیزائن بنیادی طور پر امریکہ میں کیا جاتا ہے، بورڈ مینوفیکچرنگ تائیوان میں کی جاتی ہے اور چپ اسمبلی اور جانچ چین یا جنوب مشرقی ایشیاء میں کی جاتی ہے۔
فوجی صنعت میں استعمال ہونے والی چپس کی تیاری امریکہ منتقل کرنے کے لیے ٹی ایس ایم سی کے اپنے نئے کارخانے امریکی ریاست ایریزونا میں تعمیر کرنے کے فیصلے کے پیچھے کیا امریکہ ہے؟
ٹی ایس ایم سی پر امریکی حکومت نے دباؤ ڈالا کے وہ ایریزونا میں پلیب فیکٹری بنانے میں سرمایہ کاری کرے۔ سنہ 1996 میں امریکہ نے دو طیارہ بردار بحری جہاز بھیجے تھے۔
یہ سچ ہے کہ محکمہ دفاع کے ’معتبر سپلائر‘ گلوبل فاؤنڈری، جس کے تحت امریکہ میں پلیٹ فیکٹریاں ہیں، ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کے بعد امریکی فوج اپنی زمین پر کسی سہولت پر چپس کی محفوظ فراہمی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ ٹی ایس ایم سی محکمہ دفاع کے اس فیصلے سے کہ ایریزونا میں ایک اعلیٰ درجے کی پلیٹ فیکٹری بنائی جائے سے فائدہ اٹھائے گی۔
’مجھے لگتا ہے کہ ٹی ایس ایم سی کی نئی فیکٹریوں کے اصل فائدہ اٹھانے والے وہاں موجود بڑے امریکی صارفین جیسے ایپل، کوالکوم اور نیوڈیا ہوں گے۔ اب وہ یہ جان کر زیادہ اطمینان محسوس کر سکتے ہیں کہ انھیں ملک میں کچھ اہم ٹکڑے مل سکتے ہیں اور ہر چیز کے لیے تائیوان پر انحصار نہیں کرتے ہیں۔‘
چین چپ بنانے والا پاور ہاؤس بننے کے منصوبے تیار کر رہا ہے، تائیوان پر انحصار سے خود کو آزاد رکھنے میں کتنا وقت درکار ہوگا؟
چین واحد ملک نہیں ہے جو تائیوان پر انحصار سے خود کو آزاد کرنا چاہتا ہے۔ اس کا اطلاق امریکہ، یورپ اور جاپان پر بھی ہوتا ہے۔
سیمی کنڈکٹر کی تیاری میں خود کفالت، اگر اس میں چپ ڈیزائن سے لے کر بورڈ مینوفیکچرنگ تک پوری سپلائی چین شامل ہو تو یہ عملی طور پر ناممکن ہے۔ اگر یہ تکنیکی طور پر بھی ممکن ہوتا تو بھی، اس کے حصول کی لاگت کسی بھی ملک کے لیے ممنوع ہو گی۔
یہ نہ صرف چین، بلکہ ریاست ہائے متحدہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ لہذا، اس لحاظ سے، چین میں خود انحصاری کے بارے میں سب کچھ گمراہ کن ہے۔ چین اپنی نام نہاد ’خود کفالت‘ مہم میں جو کچھ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ درآمد شدہ چپس پر اپنا انحصار کم کرنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ گھر میں ہی اپنی چپس بنانے میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔
چینی پلیٹ فیکٹریوں کو چپس بنانے کے لیے اب بھی غیر ملکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنا پڑے گا اور یہ صورتحال کئی دہائیوں تک تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔
Comments are closed.