بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

صدام حسین ایک ’ناکام کہانی‘: ’آمر ڈرتا ہے کہ اگر مارے گا نہیں تو مر جائے گا‘

صدام حسین ایک ’ناکام کہانی‘: ’آمر ڈرتا ہے کہ اگر مارے گا نہیں تو مر جائے گا‘

  • عارف شمیم
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

صدام حسین

،تصویر کا ذریعہPierre PERRIN

10 فروری 1973 کو پاکستان رینجرز اور پولیس نے مل کر اسلام آباد میں واقع عراقی سفارتخانے پر ایک چھاپہ مارا۔ اگرچہ سفارتی آداب اور قوائد و ضوابط کے حساب سے وہ ایک ناپسندیدہ فعل تھا لیکن پاکستان کی سکیورٹی کے حوالے سے اس وقت ایسا کرنا ضروری سمجھا گیا۔

پاکستان کی انٹیلیجنس کو یہ خبر ملی تھی کہ عراقی سفارتخانے میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے جو اس وقت ایران اور پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ میں مصروف تھے، جدید اسلحہ لایا گیا ہے۔ مسلح چھاپہ کامیاب رہا اور سکیورٹی فورسز کو روسی ساخت کی 300 سب مشین گنز اور 50 ہزار کے قریب گولیاں ملیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی رقم بھی ملی جو بقول حکومت کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو پہنچائی جانی تھی۔ عراقی سفیر اور سفارتخانے کے عملے کو فوراً ملک سے نکلنے جانے کا حکم دے دیا گیا۔

ذرا اندازہ لگائیں کہ اس وقت عراق کے اندرونی اور بیرونی معاملات کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں تھی؟ جی ہاں۔ جواب درست ہے، وہ صدام حسین ہی تھے۔

صدام حسین کا پورا دورِ اقتدار اس طرح کے ایڈونچر سے بھرا پڑا ہے۔ کبھی وہ اپنے دشمنوں کو قتل کرتے ہیں تو کبھی دوستوں کو، اگر آج کرد ان کا نشانہ ہیں تو کل ایرانی اور اس کے اگلے دن کوئی اور۔

قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبۂ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر سید قندیل عباس کہتے ہیں کہ صدام حسین نے تمام عمر ایسے ہی فیصلے کیے یا شاید انھیں دوست بنانا آتا ہی نہیں تھا۔ ان کے بقول پاکستان جیسے ملک کے ساتھ بھی انھوں نے منفی کردار کا ہی مظاہرہ کیا۔

عراقی سفارتخانے پر چھاپے کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ وہ دن پاک عراق تعلقات کے حوالے سے ایک سیاہ دن تھا جب 1973 میں عراقی سفارتخانے سے بہت زیادہ اسلحہ پکڑا گیا۔ ’چھاپے کے بعد پتہ چلا کہ یہ اسلحہ علیحدگی پسند بلوچوں کو دیا جانا تھا۔

اس کی بھی کہانی اس طرح سامنے آئی کہ اصل میں تو ایران اور عراق کا آپس میں مسئلہ تھا اور ایران عراق میں کردوں کی حمایت کر رہا تھا۔ اس کے جواب میں عراق نے ایرانی اور پاکستانی بلوچوں کو اسلحہ مہیا کر کے وہاں انتشار پھیلانا شروع کیا۔‘

اس واقعے کے بعد پاکستان اور عراق کے تعلقات جو پاکستان کے ایران سے بہتر تعلقات کی وجہ سے پہلے ہی کوئی بہت اچھے نہیں تھے مزید خراب ہو گئے اور پاکستان نے عراق کے اس اقدام کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف جانا۔ لیکن کیا صدام حسین کو اس سے کچھ فرق پڑا۔ شاید نہیں۔ انھوں نے اپنے ایڈونچر جاری رکھے۔

تکریت سے بغداد تک

صدام حسین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

صدام حسین 28 اپریل 1937 کو بغداد سے 140 کلو میٹر شمال مغرب میں واقع شہر تکریت کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا ان کی پیدائش سے پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی ماں کی دوسری شادی کے بعد 10 سال کی عمر میں صدام اپنے چچا کے پاس مستقل طور پر بغداد چلے گئے۔

صدام کی شادی بھی چچا کی بیٹی کے ساتھ ہی ہوئی۔ 20 سال کی عمر میں صدام حسین نے چچا کو دیکھتے ہوئے بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی، جو خود اس کے بہت بڑے حامی تھے۔ انھیں کی وجہ سے صدام کی احمد حسن البکر سے ملاقات ہوئی جو بعث پارٹی کے سرکردہ رہنما تھے۔

بعث پارٹی اور بعث ازم

جب صدام جوان ہو رہے تھے تو اس وقت پورے خطے، خصوصاً شام اور مصر میں عرب نیشنلزم یا قوم پرستی زور پکڑ رہی تھی۔ اس کا آغاز مصر کے جمال عبدالناصر کر چکے تھے۔ وہ ایک فوجی آفیسر کے رینک سے شروع ہوئے اور وزیرِ اعظم اور صدر بنے۔ ان کا عرب دنیا کو متحد کرنے کا ایک خواب تھا جو کچھ برس کے لیے شرمندۂ تعبیر بھی ہوا اور سنہ 1958 سے لے کر 1961 تک مصر اور شام کو ملا کر ایک متحدہ عرب ریپبلک بھی بنی، لیکن یہ زیادہ دیر تک اکٹھی نہ رہ سکی اور شام کے اس سے علیحدہ ہونے کے بعد صرف مصر ہی کچھ عرصہ تک الجمہوريہ العربيہ المتحدہ کہلاتا رہا۔

جمال ناصر نے اسرائیل کو ’صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے‘ دو جنگیں بھی لڑیں لیکن دونوں میں ہی ناکام رہے۔ لیکن اس سے عرب قوم پرستی کو جلا ملی اور صدام حسین اسی فضا کی پیداوار تھے۔

ڈلاویئر یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلشنز کے پروفیسر ڈاکٹر مقتدر خان کہتے ہیں کہ یورپ کا فاشزم بھی سوشلزم اور نیشنلزم کی ایک کاک ٹیل تھا۔ ’اس دوران اگرچہ سوشلزم کا دور چل رہا تھا لیکن عرب اتحاد کی باتیں بھی ہونا شروع ہو گئی تھیں۔

شام اور مصر مل کر ایک ملک ’یو اے آر‘ بن گئے تھے۔ جمال ناصر نے عرب دنیا میں عرب نیشنلزم اور عرب اتحاد کی لہر چلا دی تھی اور جب انھوں نے 1956 میں نہر سویز کو بچایا تو اس کے بعد عرب نیشنلزم کا ڈنکا مزید بجنے لگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں امریکہ کا بہت ہاتھ تھا، لیکن قوم پرستی کی لہر میں اس کے متعلق کوئی نہیں سوچتا۔‘

بائیں سے دائیں: لیبیا کے معمر قذافی، پی ایل او کے یاسر عرفات، مصر کے جمال عبدالناصر اور اردن کے شاہ حسین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بائیں سے دائیں: لیبیا کے معمر قذافی، پی ایل او کے یاسر عرفات، مصر کے جمال عبدالناصر اور اردن کے شاہ حسین

وہ کہتے ہیں کہ آہستہ آہستہ یہ بات بھی ثابت ہو چکی تھی کہ ماڈرنائزیشن اور نیشنلائزیشن کے پراجیکٹ اتنے کامیاب نہیں رہے تھے۔ ناصر اور عرب ممالک اسرائیل سے جنگ ہار چکے تھے اور اخوانِ المسلمون گروہ اس دور میں طاقتور ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس لیے عرب دنیا کے سوشلسٹ سیکیولرسٹ اس سے ڈر کے فوجی آمریت کی طرف راغب ہو گئے تھے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں کہ ’جب کوئی تحریک بنتی ہے تو اس کے کچھ آئیڈیالوگز یا نظریہ ساز ہوتے ہیں، لیڈر ہوتے ہیں۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نہ تو انھیں بیوروکریٹک ہونا چاہیئے، نہ ہی ڈیموکریٹک بلکہ ان کی شخصیت کرشماتی ہونی چاہیئے۔ صدام اور ان سے پہلے لوگوں نے ایک آئیڈیا تو لیا لیکن سب نے مختلف طریقے سے اس کی تشریح کی۔ اسی لیے جو بعث ازم ہمیں عراق میں نظر آتا ہے وہ شام کے باعث ازم سے بڑا مختلف ہے۔‘

صدام حسین اور جولائی کا مہینہ

صدام حسین کی زندگی میں جولائی کے مہینے کی بہت اہمیت رہی ہے۔ اس کی تفصیل ذرا بعد میں لیکن یہاں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ صدام حسین کے بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے ایک سال بعد ہی 14 جولائی 1958 کو عراقی فوج کے ایک بریگیڈیئر عبدالکریم قاسم نے عراق کے آخری بادشاہ فیصل دوئم اور ان کے خاندان کے دیگر اراکین بشمول وزیرِ اعظم نوری از سیعد کو ایک فوجی انقلاب کے دوران ہلاک کر دیا اور اس کے بعد عراق کو ایک جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیئے

قاسم (جو بعد میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے) اور ان کے ساتھیوں کے اختلافات اس وقت سامنے آئے جب انھوں نے جمال ناصر کی بنائی ہوئی یو اے آر میں شمولیت سے انکار کیا۔ اگرچہ انھوں نے بعد میں یو اے آر کی حمایت کرنے والی عراقی باتھ پارٹی کے 16 اراکین کو اپنی کابینہ میں رکھا لیکن پارٹی پھر بھی انھیں معاف نہ کر سکی اور ان کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا۔

ان کے قتل کے لیے بنائے گئے ڈیتھ سکواڈ کے ایک سرکردہ رہنما صدام حسین بھی تھے۔ جنرل قاسم کی کار پر گولیاں صدام حسین نے بھی چلائیں لیکن قاسم اس حملے میں بچ گئے۔ صدام حسین کچھ دوسرے افراد کے ساتھ شام فرار ہو گئے جو کہ باتھ نظریے کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

تاہم 1963 میں باتھ پارٹی کے حامی فوجیوں نے قاسم کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اس میں صدام شامل نہیں تھے کیونکہ وہ تو شام کے بعد مصر میں رہ رہے تھے۔

صدام کو پتہ تھا کہ واپس عراق جانے پر نئے حکمراں ابو سلام عارف انھیں قاسم کے قتل کی سازش میں موت کی سزا نہیں دیں گے کیونکہ وہ بھی تو انھیں ہٹا کر ہی آئے تھے، لیکن انھیں یہ بھی پتہ تھا کہ وہ گرفتار ضرور کیے جائیں گے۔ اور یہی ہوا۔ صدام کو 2 سال کی سزا سنائی گئی لیکن شاطر اور چلاک صدام جیل سے بھی فرار ہو گئے۔

1976 کی اس فائل فوٹو میں عراقی صدر احمد حسن البکر اور نائب صدر صدام حسین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

1976 کی اس فائل فوٹو میں عراقی صدر احمد حسن البکر اور نائب صدر صدام حسین

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1963 کے انقلاب کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل تھی کیونکہ امریکہ چاہتا تھا کمیونسٹ نظریات والی حکومت کا خاتمہ کر کے ایک ایسی حکومت کو لایا جائے جو امریکہ کی حامی ہو۔

اپریل 1966 میں ابو سلام عارف جنوبی عراق میں طیارے کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے اور ان کی جگہ ان کے بھائی عبدالرحمان عارف کو عراق کا صدر بنا دیا گیا۔ جولائی 1968 میں احمد حسن البکر نے عبدالرحمان کا تختہ الٹا اور خود اقتدار سنبھال لیا۔

اس انقلاب میں صدام بھی شامل تھے اگرچہ اس میں کوئی قتل و غارت گری نہیں ہوئی۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کن پٹی پر پستول رکھ کر وزیرِ اعظم نائف کو طیارے تک لائے اور ملک سے باہر جانے کو کہا۔ تاہم عبدالرحمان کو لندن جانے دیا گیا۔ یہ انقلاب بھی جولائی میں ہی لایا گیا اور اسی میں بعث پارٹی پوری طرح اقتدار میں آئی جس میں صدام پہلی مرتبہ عراق کے نائب صدر اور باتھ انقلابی کمانڈ کونسل کے ڈپٹی چیئرمین بنے۔

اگرچہ البکر صدر تھے لیکن پارٹی اور ملک کے معاملات میں زیادہ عمل دخل صدام حسین کا ہی سمجھا جاتا تھا اور اسی دوران وہ ایسی خفیہ فورس بھی تشکیل دے رہے تھے جس نے بعد میں ان کے اقتدار کی طوالت میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے مخالفوں کو بے دردی سے ختم کیا۔ صدام حسین 11 سال نائب صدر رہے۔

صدام اور صدارت

1979 میں اس تحریک میں پھر تیزی آئی کہ شام اور عراق کو ایک ملک بنا دیا جائے جو کہ شام کی بعث پارٹی کا ایک نظریہ بھی تھا۔ اس کے تحت صدام حسین کی جگہ شام کے صدر حافظ الاسد کو نائب بنایا جانا تھا جو کہ صدام حسین کو کسی طور قبول نہیں تھا۔ انھوں نے 16 جولائی 1979 کو عمر رسیدہ البکر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور عراق کے صدر بن گئے۔

ڈاکٹر مقتدر کہتے ہیں کہ صدام حسین کے اقتدار میں آنے کے پیچھے اس دور کی عرب سیاسی فضا کا بہت ہاتھ تھا اور اس میں وہی محرکات کارفرما تھے جو اس دور کے دوسرے رہنماؤں کو لائے تھے۔

’مصر میں جمال ناصر کی سربراہی میں فوجی انقلاب آیا تھا، اسی طرح 59 میں کرنل قذافی اس طرح اقتدار میں آئے، صدام بھی ان کو پسند کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ اس وقت عرب سوشلزم اور عرب نیشنلزم کا ایک مکسڈ نظریہ تھا۔ جس کے تحت یہ سارے آمر سامنے آئے۔ شام میں حافظ الاسد، مصر میں ناصر، لیبیا میں قذافی اور عراق میں صدام حسین۔ جن ملکوں میں لیجیٹیمیٹ یا قانونی بادشاہت نہیں تھی وہاں آمر ہی سامنے آئے۔ مصر میں اگرچہ پہلے تھی لیکن وہ برطانوی راج کے اندر تھی اور اس کی وہ حیثیت وہ نہیں تھی جو مراکش یا سعودی عرب کی بادشاہت کی تھی۔‘

جنوری 1976 میں فرانس کے وزیرِ اعظم ژاک شیراک کے بغداد کے دورے پر گارڈ آف آنر لیتے ہوئے صدر صدام حسین کے ساتھ ایک تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جنوری 1976 میں فرانس کے وزیرِ اعظم ژاک شیراک کے بغداد کے دورے پر گارڈ آف آنر لیتے ہوئے صدر صدام حسین کے ساتھ ایک تصویر

لندن کے سکول آف اوریئنٹل سٹڈیز (سواس) میں پی ایچ ڈی سکالر طارق سلیمان اسے ایک بڑے کینوس پر دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں صدام حسین جیسے لوگ نو آبادیاتی دور کی پیداوار تھے۔

’صدام حسین پوسٹ کالونیئل لیگیسی کا نمائندہ ہے۔ اس طرح کے نمائندے کی صدام حسین سے بہتر شاید مثال نہ ملے۔ نو آبادیاتی نظام نے دو چیزوں کو بنانے کی کوشش کی تھی۔ پہلی ایک مذہبی یا فرقہ وارانہ کلاس اور دوسری ایک ایسی کلاس جو کہ سیکیولر ہو اور جو نو آبادیاتی نظام کے ’وائٹ مینز برڈن‘ یا سویلائزیشن (تہذیب) کے پراجیکٹ کو لے کر آگے چلے۔ اور اس کے ایسا کرنے کے لیے اس کے اندر ایک مغربی سیکیولر پڑھی لکھی اشرافیہ کو بنانا بہت ضروری تھا۔ اور صدام حسین اس سیکیولر کلاس کا نمائندہ تھا جو انھوں نے بنائی تھی۔ اور اس سارے عمل کو اگر آپ صدام حسین کے پس منظر میں دیکھیں تو ہمیں ایک چیز نظر آتی ہے کہ کلاس بنانے کی کوشش تو کی گئی لیکن ادارے نہیں بنائے۔ اس لیے جب یہ کلاس ڈویلپ ہوئی تو اس نے ایک آمرانہ قسم کا کلچر بنایا۔‘

طارق سلیمان کہتے ہیں کہ آمریت میں یہ ایک چیز صاف ہے کہ اپنی گرفت مظبوط کرنے کے لیے آپ سفاک ہو جاتے ہیں، تنگ نظر ہو جاتے ہیں یا دوسروں کے خیالات برداشت نہیں کر سکتے اور آپ سمجھتے ہیں کہ جب تک ایسا کریں گے آپ اقتدار میں رہیں گے۔

کیا صدام واقعی ایک سفاک رہنما تھے؟

حال ہی میں ویڈیو سٹریمنگ سروس نیٹ فلیکس پر دکھائی جانے والی ایک ڈوکیومنٹری سیریز ’ہاؤ ٹو بیکم اے ٹائرینٹ‘ یا ’جابر کس طرح بنا جاتا ہے‘ میں بتایا گیا ہے کہ جابر حاکم کو اپنی صلاحتیوں میں ایک طرح کا برتری کے احساس کا خبط ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ صرف وہ ہی مسائل کو حل کر سکتا ہے۔

جابر حاکم ہمیشہ مطلق یا مکمل طاقت چاہتا ہے جس میں صرف اسی کے پاس جزا اور سزا کا اختیار ہو۔ ڈاکٹر مقتدر اسے فرعونیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدام حسین اپنے آپ کو انتہائی طاقتور اور عقلِ کل سمجھتا تھا کہ وہ تو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کا نقصان اس نے اور سارے عراق نے اٹھایا۔

ہلابجہ پر کیے جانے والے کمیائی حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہلابجہ پر کیے جانے والے کمیائی حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر

ہر آمر کو یہ بھی لگتا ہے کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی اپنے نام کا سکہ جمائے اور لوگوں کے دلوں میں خوف بھر دے۔ اس کا عملی مظاہرہ صدام حسین نے صدر بننے کے فوراً بعد 22 جولائی 1979 کو کیا۔

صدام جس طرح اقتدار میں آئے تھے یہ سب کو معلوم تھا اور باتھ پارٹی میں بہت سے لوگ اس کے خلاف تھے اور نجی محفلوں میں اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ صدام حسین نے ایک پارٹی کانگریس بلائی اور کہا کہ اس کمرے میں جو لوگ موجود ہیں ان میں سے کچھ میری لیڈرشپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اس کے بعد انھوں نے پارٹی کے ایک سینیئر رکن محی عبدالحسین کو بلایا اور کہا کہ پہلے وہ اقرار کریں کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔ اس کے بعد عبدالحسین نے ان افراد کے نام پڑھنے شروع کر دیے جو صدام حسین کی مخالفت کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ صدام نے انھیں بلیک میل کیا تھا کہ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو وہ ان کی بیوی اور بیٹیوں کو ان کے سامنے ریپ کروا کر قتل کر دیں گے۔

’ہاؤ ٹو بیکم اے ٹائرینٹ‘ میں دکھائی جانے والی ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جس جس شخص کا نام لیا گیا اس کے ڈر سے پیسنے چھوٹ رہے تھے۔ ہر نام کے بعد سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ آتے اور ان افراد کو اپنے ساتھ لے جاتے جن کے نام لیے جاتے تھے۔ اس مجلس کے دوران 68 افراد کو گرفتار کیا گیا، 22 کو غداری کے جرم میں سزائے موت دی گئی اور پہلی اگست تک باتھ پارٹی کے سینکڑوں اعلیٰ عہدیدار موت کی گھاٹ اتارے جا چکے تھے۔

ڈاکٹر مقتدر اس کی ایک اور مثال دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدام نے اپنی فرعونیت میں اپنے دونوں دامادوں تک کو بے دردی سے قتل کروا دیا جو کہ اس سے بھاگ کر کہیں اور اپنے بال بچوں کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ان دونوں کا جرم یہ تھا کہ صدام کے بڑے بیٹے اودے کو یہ پسند نہیں تھے اور اس کو ان پر شک تھا۔ جب پہلی خلیجی جنگ کے کچھ سال بعد 1995 میں دونوں اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ بھاگ کر اردن چلے گئے اور پناہ کی درخواست کی تو صدام سے یہ برداشت نہ ہو سکا۔

اس نے انھیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اپنی بیٹیوں کو فون کر کے اور درمیان میں لوگوں کو ڈال کر انھیں یقین دلایا کہ سب واپس آ جائیں۔ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور معاف کر دیا جائے گا۔ چھ ماہ اردن میں رہنے کے بعد پورا خاندان واپس عراق آ گیا۔

صرف دو دن بعد دونوں کو ایک ڈیتھ سکواڈ کے ذریعے قتل کروا دیا گیا اور ان کی لاشوں کو ایک گاڑی کے ساتھ باندھ کر پورے شہر میں گھمایا گیا۔ یہ ان سب کے لیے پیغام تھا جو سمجھتے تھے کہ صدام کمزور ہو گئے ہیں۔

صدام حسین کل 24 سال عراق کے صدر رہے اور اتنے لمبے عرصے تک اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے کسی بھی ایسے حربے سے پرہیز نہیں کیا جس سے نا صرف ان کے مخالف صفہ ہستی سے مٹ جائیں بلکہ مستقبل میں ایسا سوچنے والوں کے دل میں شدید ڈر پیدا ہو جائے اور وہ انجام سے لرز جائیں۔

اس کی ایک اور مثال سابق عراقی وزیرِ اعظم عبدالرزاق سیعد النائف کی ہے۔ جب ان 1968 میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو وہ بھاگ کر لندن چلے گئے۔

صدام نے قاتلوں کا ایک گروہ انھیں مارنے کے لیے لندن بھیجا۔ ان پر گولیاں چلائی گئیں جس میں وہ تو بچ گئے لیکن ان کی بیوی زخمی ہو گئیں۔ پر صدام حسین نے انھیں مارے بغیر دم نہیں لیا اور 9 جولائی 1978 کو لندن کے پارک لین کے علاقے میں انھیں گولی مار کر قتل کر دیا۔

صدام حسین اور ایران کا ’ایڈونچر‘

دسمبر 1979 میں آیت اللہ خمینی کے ایران کے سپریم لیڈر بننے سے پہلے ہی 16 جولائی کو صدام حسین عراق کے صدر بن چکے تھے۔ اس سے تقریباً چار ماہ پہلے 16 فروری کو ایران کے آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی ملک سے فرار ہو چکے تھے۔ ٹھیک ایک سال بعد 1980 میں ایران عراق جنگ شروع ہو گئی جو تقریباً آٹھ سال جاری رہی۔

ڈاکٹر مقتدر سمجھتے ہیں کہ ایرانی انقلاب کے بعد صدام حسین کو ڈر تھا کہ کہیں اس کی لہر عراق میں بھی نہ آ جائے کیونکہ عراق میں شیعہ برادری کی اکثریت تھی۔ جبکہ ڈاکٹر قندیل سمجھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ جنگ صرف صدام حسین کا فیصلہ نہیں تھا۔

’امریکہ اور مغربی ممالک کی ایران کے انقلاب سے پہلے ہی پلاننگ تھی کہ انقلاب کو آنے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔ اس کے لیے انھوں نے شہنشاہ ایران کو استعمال کیا۔ جب وہ روک نہ سکے تو شاید دوسری سٹیج پر انھوں نے اس کو کسی اور سمت بھیجنے کی کوشش کی، ایران کے اندر اسلامی گروہوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور بنی صدر وزیرِ اعظم بن گئے۔ اگر یہ حکمتِ عملی کامیاب ہو جاتی تو یقیناً انقلاب کا رخ مڑ جاتا۔ یہ ترکیبیں کامیاب نہ ہو سکیں۔

ایران عراق جنگ میں ایرانی سکبول ٹیچروں کو بھی جنگ کی تربیت دی گئی تھی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایران عراق جنگ میں ایرانی سکبول ٹیچروں کو بھی جنگ کی تربیت دی گئی تھی

’انقلاب کے فوراً بعد کوئی بھی ملک وینٹیلیٹر پر پڑا ہوا ہوتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ایران کی فوج ختم ہو چکی ہے، اقتصادی طور پر اس کا برا حال ہے۔ میرا خیال ہے کہ صدام سے یہ ایڈونچر کرایا گیا کہ اگر اب ایران کو ایک اور دھچکہ لگایا جائے تو انقلاب بالکل ناکام ہو جائے گا۔ مغرب نے، امریکہ نے اور عربوں نے بھی صدام کو اس عرب اور عجم مسئلے پر سپورٹ کیا۔ آٹھ سال کی جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے نہ صرف آخر میں اپنے کچھ علاقے چھڑوا لیے بلکہ وہ عراق کے اندر بھی گھس گیا۔‘

ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں کہ صدام حسین کے بارے میں دو ’پرسیپشن‘ ہیں: ایک یہ کہ وہ بہت ضدی اور ’شارپ‘ فیصلے کرنے والے انسان تھے۔

’اس طرح کا شخص جو بھی فیصلہ کرتا ہے پھر اسے لاگو کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایران، کویت اور پھر امریکی سربراہی والے اتحاد کے ساتھ جنگ صدام حسین کی ضدی شخصیت کی وجہ سے تھی۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انھیں بڑی طاقتوں نے استعمال کیا اور آخر میں کیونکہ وہ ایک تھکے ہوئے گھوڑے تھے اس لیے ان کو ہٹانا ہی ہٹانا تھا۔‘

ڈاکٹر قندیل سمجھے ہیں کہ صدام حسین سے بہت ’مس کیلکیولیشنز‘ بھی ہوئیں۔ ’جب انھوں نے ایران اور پھر کویت پر حملہ کیا تو ان کا خیال تھا کہ ان کے عوام ایک انقلابی رہنما کے طور پر ان کی حمایت کریں گے اور ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

طارق سلیمان بھی اسی خیال کے حامی نظر آتے ہیں کہ ایران پر حملے کے پیچھے امریکہ کی بھی شہہ تھی۔ ’امریکہ ایرانی انقلاب کے متعلق سمجھتا تھا کہ وہ اس سٹیج پر ٹھیک نہیں ہے اور انھوں نے صدام حسین کو استعمال کیا اور صدام حسین اس سارے عمل میں استعمال بھی ہوئے۔ امریکہ کے اس خیال سے کہ ایران کے انقلاب کو آتے ہی ختم کیا جائے سبھی کو نقصان پہنچا۔‘

اسی طرح جب جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو صدام نے غصہ عراقی کردوں پر نکالا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایران کے ساتھ جنگ کے دوران کردوں نے ایران کا ساتھ دیا تھا۔ ان کی سکیورٹی فورسز نے کردوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ جائیں اور 1988 میں انھوں نے کردوں کے خلاف اپنا آخری حربہ استعمال کیا۔

صدام کی فورسز نے 16 مارچ کو عراقی کردستان کے شہر ہلابجہ پر کمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ اس حملے میں تقریباً پانچ ہزار کے قریب لوگ مارے گئے جن میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

کویت پر حملہ بھی کچھ اسی قسم کی ایک مہم تھی جو بالآخر صدام حسین کی تباہی کا سبب بنی۔ عراق کے کویت سے سرحدی مسائل تو بہت پرانے تھے لیکن صدام کو یقین تھا کہ جب وہ اس کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر لے گا تو دنیا اس کا ساتھ دے گی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے کویت پر حملے کے منصوبے کو بھی صیغۂ راز میں رکھا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حملے کے متعلق انھوں نے اپنے دونوں دامادوں اور ایک کزن سے ہی مشاورت کی تھی۔

عراق میں موجود سفارتکار جوزف سی ولسن نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ صدام نے امریکہ کو یہ بھی پیشکش کی تھی کہ اسے کویت پر حملہ کرنے دیا جائے اور جتنا تیل وہ چاہیں لے سکتے ہیں۔

طارق سلیمان سمجھتے ہیں کہ صدام حسین میں وہ بصیرت نہیں تھی جو ایک بین الاقوامی سٹیس مین میں ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدام نے دنیا کو بھی مختلف طریقے سے سمجھا کہ یہ لوگ بادشاہت کے خلاف ہیں اور شاید کویت میں کوئی مداخلت نہ کرے کیونکہ وہ ایک بادشاہت ہے۔ ’اسے علاقہ بھی ملے گا اور دولت بھی جو اس کو مزید مضبوط بنائے گی۔ اور اس سے خطے اور مسلم دنیا میں اس کی قائدانہ صلاحتیوں کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ اس اعتبار سے وہ صدام حسین کی اندازے کی غلطی تھی جس کی قیمت آخر کار اسے اقتدار اور جان کھو کر چکانا پڑی۔‘

پہلی خلیجی جنگ میں بھاگتی ہوئی عراقی فوج نے سینکڑوں کویتی تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دی تھی

،تصویر کا ذریعہNICHOLAS KAMM

،تصویر کا کیپشن

پہلی خلیجی جنگ میں بھاگتی ہوئی عراقی فوج نے سینکڑوں کویتی تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دی تھی

’دوسرا ان کی فلسطینیوں کے لیے حمایت بھی ایک طرح سے غلط بنیادوں پر تھی۔ وہ خود کش بمباروں کو پیسے دیتے تھے۔ اور ان کی فلسطینی قیادت کا کردار لینے کی کوششوں سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں سیاسی دانشمندی بالکل نہیں تھی۔‘

ڈاکٹر مقتدر کا بھی یہی خیال ہے کہ صدام صرف ان گروہوں میں ہی مقبول تھے جنھیں وہ نظریاتی طور پر پیسے بھیجتے یا حمایت کرتے تھے جیسا کہ تیسری دنیا کے کچھ گروہ یا حماس وغیرہ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدام حسین جنھوں نے طاقت اور جبر کے زور پر 24 سال حکومت کی اور مشرق اور مغرب میں ان کے اتحاد بنتے اور بگڑتے رہے، کیا ان کا کوئی واقعی میں دوست بھی تھا۔

کیا صدام کبھی ’پاپولر‘ لیڈر رہے

ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں کہ وہ کوئی پاپولر لیڈر نہیں تھے۔ ’انھیں لوگوں کا گروہ یا کچھ لوگ سپورٹ کرتے تھے۔ وہ بغاوت کر کے اقتدار میں آئے تھے اور اتنا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی وہ کبھی پاپولر لیڈر نہیں بنے۔

صدام کے اقتدار کا ہم شام سے موازنہ نہیں کر سکتے کیونکہ حافظ الاسد کی عوام میں حمایت بھی تھی۔ صدام کو تو تکریت جو کہ ان کا اپنا علاقہ تھا اور جہاں سے ان نے بہت سارے لوگ اپنے آس پاس رکھے ہوئے تھے، وہاں سے بھی پوری حمایت نہیں ملی تھی۔‘

تاہم ڈاکٹر قندیل یہ ضرور کہتے ہیں کہ بطور لیڈر ان میں ایک طرح کی بہادری بھی تھی۔ ’جب وہ اقتدار میں آئے تو بالکل ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انھوں ایران کے ساتھ ایک معاہدے کو سب کے سامنے پھاڑ دیا تھا۔ اسی طرح ایران کے ساتھ جنگ کے آغاز میں جب عراقیوں نے خرم شہر کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا تو صدام نے وہاں ایک پریس کانفرنس کی اور جب پریس کانفرنس کے آخر میں ایک صحافی نے سوال کیا تو انھوں نے اٹھ کر کہا کہ ’اگلا جواب تہران میں جا کر دوں گا۔‘

ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ ’اگر آپ صدام کا پورا دور دیکھیں تو آپ کو کہیں بھی ان کی کوئی خارجہ پالسیی نظر نہیں آتی۔ شاید ان کے دوست تھے ہی نہیں۔‘

طارق سلیمان کہتے ہیں کہ ’جب صدام آئے تھے تو اس وقت عراق اور عرب دنیا میں ’پاپولسٹ‘ تحریکیں تھیں۔ لیکن ہم کبھی بھی وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی بھی سٹیج پر کبھی پاپولر رہے ہوں۔ ان کی ساکھ صرف ان کی دہشت اور سکیورٹی فورسز کی وجہ سے تھی اور اسی کے باعث وہ کئی سال تک حکومت کرتے رہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا صدام حسین کے کچھ دوست بھی تھے طارق سلیمان کا کہنا تھا کہ ’نیشن سٹیٹ میں ذاتی مفاد کی جگہ نہیں ہوتی۔ لوگ ریاست کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کسی شخص کے ساتھ نہیں۔ ایران کے شاہ کو دفن ہونے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔‘

صدام حسین کے بڑے بیٹے اودے جن کو صدام کی طرح کا سفاک شخص سمجھا جاتا تھا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

صدام حسین کے بڑے بیٹے اودے جن کو صدام کی طرح کا سفاک شخص سمجھا جاتا تھا

صدام حسین کی وراثت

دو دہائیوں سے زیادہ عراق پر حکومت کرنے کے بعد 2003 میں صدام کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ دسمبر 2006 میں انھیں انسانیت کے خلاف جرائم کی سزا کے طور پر ’بغداد کا قصائی‘ کہہ کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صدام کے حق میں کسی نے آواز اٹھائی؟ کیا وہ اپنی پارٹی یا اپنے ارد گرد کوئی سیاسی سوچ اور نظریے والے لوگ اکٹھے کر پائے؟ انھوں نے ورثے میں عراق کے لیے کیا چھوڑا ہے۔

طارق سلیمان سمجھتے ہیں کہ انھوں نے سفاکانہ وراثت ہی چھوڑی ہے۔ ’ان کے قریبی لوگ بھی کسی سیاسی گروپ میں آنے کی بجائے زیادہ تر دہشت گرد گروہوں میں چلے گئے ہیں۔ باتھ پارٹی کے بہت سے رہنماؤں اور اراکین نے بعد میں داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔‘

ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں کہ صدام ایک ناکام کہانی تھی۔ ان کے بقول صدام کے پاس جتنی طاقت تھی وہ بہت کچھ کر سکتے تھے۔ ’وہ ایسی پالیسیاں بنا سکتے تھے جن سے ان کے اپنے عوام کی بھلائی ہوتی اور وہ ان کے ساتھ کھڑی ہوتی۔ اگر وہ ذرا عقل سے کام لیتے تو ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ سکتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ موت کے بعد بھی ان کو جو تھوڑی بہت شہرت ملی وہ مسلم دنیا میں امریکی مخالف جذبات کی وجہ سے ملی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان میں ٹرکوں کے پیچھے ایوب خان کی تصویر لگا کر یہ لکھا ہوتا ہے کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔

طارق سلیمان کہتے ہیں کہ اگر میں کسی سے ان کا موازنہ کروں تو جوزف سٹالن سے بنتا ہے۔ آمر کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتے۔ آمر جنھیں نڈر سمجھا جاتا ہے اصل میں ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کا عدم تحفظ انھیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتا ہے جس سے وہ بہادر یا نڈر نظر آتے ہیں۔ آمر کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ مارے گا نہیں تو مر جائے گا۔‘

ڈاکٹر مقتدر آخر میں ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عراق صدام کی وجہ سے ہونے والی تین جنگیں نہ لڑتا تو وہ آج کہاں ہوتا۔ ایک سفاک آمر ملک کا کیا حال کر سکتا ہے اس کا جواب اسی سوال چھپا ہوا میں ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.