بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سراج الدولہ کا وہ قید خانہ جس میں بند ’146 انگریزوں میں سے صرف 23 ہی زندہ بچے‘

سراج الدولہ کا وہ قید خانہ جس میں بند ’146 انگریزوں میں سے صرف 23 ہی زندہ بچے‘

  • ریحان فضل
  • بی بی سی ہندی، دہلی

قید خانہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کہا جاتا ہے کہ انگلینڈ میں کسی بھی سکول کا بچہ ہندوستان کے بارے میں تین چیزیں جانتا تھا، قید خانہ (بلیک ہول)، پلاسی کی جنگ اور سنہ 1857 کی بغاوت۔

درحقیقت سنہ 1707 میں بادشاہ اورنگزیب کی موت کے بعد مغل سلطنت کا تیزی سے زوال شروع ہوا اور تکنیکی طور پر مغل سلطنت کا حصہ ہونے کے باوجود بنگال ایک قسم کا آزاد صوبہ بن گیا۔

جب انگریزوں اور فرانسیسیوں نے وہاں اپنی فیکٹریوں کی قلعہ بندی شروع کر دی تو نواب سراج الدولہ کو لگا کہ وہ لوگ دیے گئے حقوق کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے اُن سے جواب طلب کیا۔

جواب دیا گیا مگر سراج الدولہ انگریزوں کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔ چنانچہ 16 جون سنہ 1756 کو انھوں نے کلکتہ پر حملہ کر دیا۔

جب یہ واضح ہو گيا کہ انگریزوں کی شکست یقینی ہے تو گورنر جان ڈریک اپنے کمانڈر، اپنی کونسل کے بیشتر ارکان، خواتین اور بچوں کے ساتھ دریائے ہگلی میں کھڑے جہاز پر سوار ہو کر فرار ہو گئے۔

انگریزوں کا ہتھیار ڈالنا

کلکتہ کے گیریزن کو کونسل کے ایک جونیئر رکن جوناتھن ہال ویل کے ذمے چھوڑ دیا گیا۔

20 جون سنہ 1756 کو سراج الدولہ کے سپاہی فورٹ ولیم کی دیواروں کو توڑ کر اس میں داخل ہو گئے اور وہاں موجود برطانوی فوج نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

سراج الدولہ ایک پینٹنگ میں اپنے سپاہیوں کے ہمراہ

،تصویر کا ذریعہBLOOMSBURY PUBLICATION

،تصویر کا کیپشن

گھوڑے پر سوار سراج الدولہ ایک پینٹنگ میں اپنے سپاہیوں کے ہمراہ

ایس سی ہل نے اپنی کتاب ’بنگال 1857-58 میں‘ میں لکھا ہے کہ ’سراج الدولہ نے فورٹ ولیم کے بیچ و بیچ اپنا دربار لگایا جہاں انھوں نے اعلان کیا کہ کلکتہ کا نام تبدیل کر کے علی نگر رکھا جا رہا ہے۔‘

’اس کے بعد انھوں نے راجہ مانک چند کو قلعے کا محافظ مقرر کیا۔ انھوں نے انگریزوں کے ذریعہ تعمیر کردہ گورنمنٹ ہاؤس کو مسمار کرنے کا حکم بھی دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ عمارت تاجروں کے لیے نہیں بلکہ شہزادوں کے لیے موزوں ہے۔ اس کے بعد اپنی کامیابی کے لیے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے انھوں نے نماز ادا کی۔‘

انگریز فوجی نے گولی چلائی

بعد میں جوناتھن ہال ویل نے اس کی تفصیلات دیتے ہوئے اپنے مضمون ’صوبہ بنگال سے متعلق دلچسپ تاریخی واقعات‘ میں لکھا کہ ’ہاتھ باندھ کر مجھے نواب کے سامنے پیش کیا گیا۔ نواب نے میرے ہاتھ کھولنے کا حکم دیا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ میرے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے انگریزوں کی مزاحمت اور گورنر ڈریک کے رویے پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔‘

تھوڑی دیر بعد سراج الدولہ وہاں سے اٹھے اور ایک گھر میں آرام کرنے چلے گئے جو ایک انگریز ویڈربرن کا تھا۔

ایس سی ہل نے لکھا کہ ’نواب کے کچھ فوجیوں نے ایک طرح سے چھوٹے پیمانے پر لوٹ مار شروع کر دی۔ انھوں نے کچھ انگریزوں کو لوٹ لیا لیکن اُن کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی۔‘

’کچھ پرتگالیوں اور آرمینیائی باشندوں کو تو انھوں نے کھلا چھوڑ دیا اور فورٹ ولیم سے باہر نکل آئے لیکن چند ہی گھنٹوں میں نواب کے فوجیوں کا ہال ویل اور دیگر قیدیوں کے ساتھ سلوک بدل گیا۔ ہوا یہ کہ ایک برطانوی فوجی نے نشے میں پستول نکال کر نواب کے ایک فوجی کو گولی مار دی۔‘

سراج الدولہ

،تصویر کا ذریعہAleph

،تصویر کا کیپشن

20 جون 1756 کو سراج الدولہ کے سپاہی فورٹ ولیم کی دیواروں کو توڑ کر اس میں داخل ہو گئے اور وہاں موجود برطانوی فوج نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے

انگریزوں کو قیدخانے میں ڈال دیا گیا

جب یہ شکایت سراج الدولہ تک پہنچی تو انھوں نے پوچھا کہ بدسلوکی کرنے والے فوجیوں کو کہاں رکھا جاتا تھا تو انھیں بتایا گیا کہ عقوبت خانے میں۔ ان کے افسران نے انھیں مشورہ دیا کہ اتنے قیدیوں کو رات بھر کھلا چھوڑنا خطرناک ہو گا لہذا بہتر ہو گا کہ انھیں عقوبت خانے میں ڈال دیا جائے۔

سراج الدولہ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔

مجموعی طور پر 146 انگریزوں کو ان کے عہدے سے قطع نظر 18 فٹ لمبے اور 14 فٹ چوڑے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ اس میں صرف دو چھوٹی کھڑکیاں تھیں، یہ سیل صرف تین یا چار قیدیوں کو رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

ہال ویل نے لکھا کہ ’یہ سال کی شاید سب سے گرم مرطوب رات تھی۔ تمام قیدی 21 جون کی صبح چھ بجے تک بغیر کھانے، پانی اور ہوا کے اس سیل میں بند رہے۔‘

انگریزوں کی یہ پریشانی شام سات بجے سے شروع ہوئی اور اگلے دن صبح چھ بجے تک جاری رہی۔

ایس سی ہل کے الفاظ میں ’ان قیدیوں کی نگرانی پر تعینات فوجیوں کی ہمت نہیں ہوئی کہ نواب کو بیدار کریں اور ان کی حالت زار بتائيں۔ جب سراج الدولہ خود بیدار ہوئے اور انھیں قیدیوں کا حال بتایا گیا تو انھوں نے سیل کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ جب دروازہ کھولا گیا تو 146 قیدیوں میں سے صرف 23 قیدی ہی زندہ باہر آئے اور وہ بھی قریب المرگ تھے۔‘

لاشوں کو بغیر کسی آخری رسوم کی ادائیگی کے پاس میں ہی ایک گڑھا کھود کر ایک ساتھ دفن کر دیا گیا۔

قید خانہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مجموعی طور پر 146 انگریزوں کو ان کے عہدے سے قطع نظر 18 فٹ لمبے اور 14 فٹ چوڑے قید خانے میں ڈال دیا گیا

سکیورٹی اہلکاروں کو رشوت دینے کی کوشش

ہال ویل نے لکھا ہے کہ صرف ایک بوڑھے سکیورٹی گارڈ نے ان پر کچھ مہربانی کی۔

’میں نے نرمی سے ان سے کہا کہ آدھے لوگوں کو دوسرے کمرے میں بند کر کے ہماری پریشانیوں کو تھوڑا کم کر دیں۔ اس احسان کے بدلے میں تمہیں صبح ایک ہزار روپیہ دوں گا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ کوشش کریں گے لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آئے اور بتایا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔‘

’اس کے بعد میں نے رقم کو دو ہزار کر دیا۔ وہ دوسری بار غائب ہو گیا لیکن پھر واپس آ کر کہنے لگا کہ یہ نواب کے حکم کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا اور کسی کو بھی نواب کو بیدار کرنے کی ہمت نہیں۔‘

دم گھٹنے سے موت

جب لوگوں کو رات کے نو بجے پیاس محسوس لگنے لگی تو صورتحال مزید خراب ہونے لگی۔ ایک بوڑھے سپاہی کو ان پر کچھ رحم آیا۔ وہ مشکیزے میں پانی لے کر آئے اور کھڑکی کی سلاخوں سے پانی اندر پہنچایا۔

ہال ویل مزید لکھتے ہیں کہ ’میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ مجھ پر کیا گزر رہی تھی۔ کچھ لوگ جو دوسری کھڑکی پر کھڑے تھے پانی کی امید میں انھوں نے کھڑکی چھوڑ دی۔ وہ اتنی تیزی سے پانی کی طرف بھاگے کہ انھوں نے راستے میں بہت سے لوگوں کو کچل دیا۔‘

’میں نے دیکھا کہ تھوڑے سے پانی نے ان کو سکون دینے کی بجائے ان کی پیاس بڑھا دی۔ ہر طرف ’ہوا ہوا‘ کی آواز گونج رہی تھی۔ پھر ان لوگوں نے فوجیوں کو مشتعل کرنا شروع کر دیا کہ وہ غصے میں ان پر گولیوں سے فائر کر کے ان کی تکلیف کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں، لیکن گیارہ بجے تک ان کی ساری طاقت ختم ہو گئی تھی۔ ان کا گرمی سے دم گھٹ رہا تھا اور وہ ایک دوسرے پر گرنے اور مرنے لگے۔‘

یادگار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یادگار کی تعمیر

بعد میں ہال ویل نے وہاں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کروائی۔ کچھ برسوں بعد بجلی گرنے سے اسے بہت نقصان پہنچا۔ اینٹوں سے تعمیر کردہ اس یادگار کو فورٹ ولیم کے اس وقت کے گورنر جنرل فرانسس ہیسٹنگس نے مسمار کرا دیا۔

سنہ 1902 میں وائسرائے لارڈ کرزون نے قید خانے سے تھوڑی دور دلہوزی سکوائر (آج بنوے بادل، دنیش باغ) میں ان لوگوں کی یاد میں سنگ مرمر کی ایک اور یادگار تعمیر کی۔

لوگوں کے مطالبے پر سنہ 1940 میں اسے سینٹ جارج چرچ کے صحن میں منتقل کر دیا گیا جہاں یہ آج بھی موجود ہے۔

کچھ مؤرخین نے ہال ویل کی دی گئی وضاحت پر سوال اٹھایا ہے۔ ایس سی ہل نے لکھا کہ ’ہال ویل کے ذکر کردہ 123 مردہ لوگوں میں سے ہمیں صرف 56 افراد کے ریکارڈ ملتے ہیں۔‘

ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام

انڈیا کے معروف مؤرخ جادوناتھ سرکار کا ماننا ہے کہ ہال ویل نے اپنی تفصیل میں ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔

سرکار اپنی کتاب ’دی ہسٹری آف بنگال‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ دیکھتے ہوئے کہ اس جنگ میں بہت سے انگریز مارے گئے تھے، سراج الدولہ کو اتنے انگریزوں کے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعد میں ایک زمیندار بھولا ناتھ چندر نے 18 سے 15 فٹ کا بانس کا دائرہ بنا کر لوگوں کو اس میں جمع کیا تھا۔‘

’یہ تعداد 146 سے کہیں کم پائی گئی۔ ہال ویل کی تفصیل میں ان تمام لوگوں کو مردہ خانے میں دکھایا گیا تھا جو یا تو لڑائی میں پہلے ہی مارے گئے تھے یا جن کے زندہ رہنے یا فرار کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

معروف مؤرخ ولیم ڈیلریمپل اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’دی انارکی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’حالیہ تحقیق کے مطابق 64 افراد کو اس کوٹھری میں رکھا گیا تھا جس میں 21 جانیں بچا لی گئیں۔ اس واقعے کے 150 سال بعد بھی اسے برطانوی سکولوں میں ہندوستانی عوام کی بربریت کی مثال کے طور پر پڑھایا گیا لیکن غلام حسین خان سمیت اس وقت کے مؤرخین کی تحریروں میں اس واقعے کا کوئی ذکر نہیں۔‘

انگریزوں میں غصہ

تاریخ کے صفحات میں اس واقعے کو جتنا بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو لیکن برطانیہ میں قوم پرستی کو فروغ دینے میں اس کا بھرپور استعمال کیا گیا۔

رابرٹ کلائیو نے سات اکتوبر 1756 کو پارلیمنٹیرین ولیم موبٹ کے نام اپنے خط میں لکھا کہ اس واقعے کو سُن کر ہر دل غم و غصے اور نفرت سے بھر گیا ہے۔

’یہ غصہ خاص طور پر سراج الدولہ پر ہے جس نے ہم سے کلکتہ چھین لیا اور جو ہمارے ہم وطنوں کا قاتل ہے۔ کلکتہ پر جس آسانی سے قبضہ کیا گیا اس سے بھی ہماری شدید تذلیل ہوئی۔‘

برطانوی حلقوں میں ہر طرف یہ احساس پایا جاتا تھا کہ برطانوی وقار کو قائم کیا جانا چاہیے اور اس کا بدلہ لیا جانا چاہیے۔

نکولس ڈرکس نے اپنی کتاب ’کاسٹس آف مائنڈ کلونیلزم اینڈ میکنگ آف ماڈرن انڈیا‘ میں لکھا کہ ’بلیک ہول یعنی قید خانہ ایک لیجنڈ بن گیا تھا اور اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہادر تاجروں پر ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کے ظلم کے طور پر دکھایا گیا تھا۔‘

’اس واقعے کے ایک سال بعد یہ خبر لندن پہنچی، وہ بھی جب خود ہال ویل جہاز کے ذریعے وہاں پہنچے۔ بعد میں اس واقعہ کو نواب سراج الدولہ پر سنہ 1757 میں حملہ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔‘

ہال ویل

،تصویر کا ذریعہBLOOMSBURY PUBLICATION

،تصویر کا کیپشن

کلکتہ کی گیریزن کو کونسل کے ایک جونیئر رکن جوناتھن ہال ویل کے ذمے چھوڑ دیا گیا

ہال ویل کی دی گئی تفصیل پر سوال

بعدازاں ایچ ایچ ڈاڈویل نے اپنی کتاب ’کلائیو ان بنگال 1756-60‘ میں لکھا کہ ’ہال ویل، کک اور اس واقعہ کے بارے میں لکھنے والے دیگر افراد کی تفصیل جعلی تھی۔ ان میں زیادہ تر افراد فورٹ ولیم کے حملے میں مارے گئے تھے۔‘

نکولس ڈرکس نے لکھا: ’بلیک ہول واقعہ کی 14 وضاحتوں میں سے ایک کے علاوہ تمام ہال ویل کے مضمون کے حوالے کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ 14ویں تفصیل اس واقعے کے 16 سال بعد لکھی گئی تھی۔‘

سنجیدہ تاریخ دانوں کو عقوبت خانے کے اس واقعے پر شکوک و شبہات ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ لوگ کوٹھری میں نہیں بلکہ لڑائی میں مارے گئے تھے۔

ایک مؤرخ ونسینٹ اے اسمتھ نے اپنی کتاب ’آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا: فرام ارلیئر ٹائمز ٹو دی اینڈ آف 1911‘ میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ پیش تو آیا تھا لیکن کچھ تفصیلات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔

’نواب سراج الدولہ ذاتی طور پر اور براہ راست ان مظالم کے ذمہ دار نہیں تھے۔ انھوں نے اپنے ماتحتون پر چھوڑ دیا تھا کہ قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ انھوں نے ان قیدیوں کو اپنے منھ سے اس چھوٹے سے کمرے میں رکھنے کا حکم نہیں دیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے نہ تو اپنے ماتحت افراد کو اس ظلم کی سزا دی اور نہ ہی اس پر غم کا اظہار کیا۔‘

ہال ویل میموریئل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانوی سامراج کو درست ٹھہرانے کوششیں

قید خانے کے اس واقعے کو نہ صرف ہندوستان میں برطانوی سامراج کی توسیع کی اصل وجہ بتایا گیا بلکہ اس کی بنیاد پر ہندوستان میں برطانوی حکومت کو جائز ٹھہرانے کی کوشش بھی کی گئی۔

لیکن جوں جوں برطانوی سامراج کا سورج غروب ہوتا گیا یہ واقعہ بھی تاریخ کے اندھیرے میں سماتا چلا گیا۔

اس واقعے کے ایک سال کے اندر ہی رابرٹ کلائیو نے نہ صرف کلکتہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا بلکہ پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کو شکست دے کر ہندوستان میں انگریزی حکومت کی بنیاد رکھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.