حکومتی سینیٹر فیصل جاوید خان نے کہا ہے کہ سال 2008 سے 2013 تک کے اشتہارات کا ڈیٹا نہیں دیا گیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت ہوا تو انہوں نے وزارتوں سے اشتہارات کی تفصیل لے کر کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
اس پر پرنسپل انفارمیشن آفیسر نے بتایا کہ 2008ء تا 2013ء کے دورانیے میں پی آئی او کے پاس اشتہارات دینے کا اختیار نہیں تھا، وزارتیں اور حکومتی ڈپارٹمنٹ خود اشتہارات دیتے تھے۔
جس پر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ وزارتوں سے اشتہارات کی تفصیل لے کر کمیٹی کو فراہم کی جائے۔
پی آئی او نے بتایا کہ چینلز کے اشتہارات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں کیٹیگری بنائی گئی۔
دوران اجلاس سیکریٹری پاکستان براڈکاسٹر ایوسی ایشن (پی بی اے) شکیل مسعود نے کہا کہ اشتہارات میڈیا پر اثرانداز ہونے کےلیے استعمال نہیں ہونے چاہئیں۔
انہوں نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کے اب بھی ڈھائی ارب کے واجبات ہیں۔
اس پر پی آئی او نے کہا کہ میڈیا کے واجبات ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جس پر فیصل جاوید نے کہا کہ ماضی کے قرضے تو اُتار رہے ہیں مگر میڈیا کے پیسے کیوں نہیں دے رہے؟
نمائندہ اے پی این ایس نے اجلاس کو بتایا کہ زیادہ تر میڈیا کے واجبات 2008 سے 2013 تک کے ہیں، بی آئی ایس پی اور این ٹی سی میجر ڈیفالٹر ہیں۔
فیصل جاوید نے کہا کہ اشتہارات زیادہ مل رہے ہیں تو ملازمین کی تنخواہیں کیوں نہیں بڑھائی جارہیں؟
شکیل مسعود نے کہا کمیٹی یہ بھی دیکھے کہ اشتہارات کس ریٹ پر چل رہے ہیں، اشتہارات چلنے کا منافع سے کوئی تعلق نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ 2 سال میں 2 ارب سے بھی کم رقم اشتہارات کی مد میں خرچ کی۔
شکیل مسعود نے مزید کہا کہ حکومت کے اشتہار میڈیا پر اثرانداز ہوتے ہیں، ایسی پالیسی بنائی جائے کہ حکومت اثرانداز نہ ہوسکے، میڈیا کے بقایاجات ہیں ادا کیے جائیں۔
فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ اشتہارکی مد میں ہمارے دور میں میڈیا کے کوئی بقایاجات نہیں جس پر شکیل مسعود نے انہیں بتایا کہ آپ کے دور کے بھی بقایا جات موجود ہیں۔
Comments are closed.