رانی جنداں: پنجاب کے تخت کے لیے’شیرنی کی طرح‘ لڑنے والی سکھ مہارانی جنھیں تاریخ ’ہیروئن‘ کے طور پر یاد کرتی ہے
رانی جنداں: پنجاب کے تخت کے لیے’شیرنی کی طرح‘ لڑنے والی سکھ مہارانی جنھیں تاریخ ’ہیروئن‘ کے طور پر یاد کرتی ہے
- مصنف, خوشحال لالی
- عہدہ, بی بی سی
’تم نے مجھے جیل میں ڈال دیا اور چاروں طرف پہرے لگا دیے، تم نے سوچا ہو گا کہ رانی جنداں کو قید رکھو گے، لیکن میں جا رہی ہوں۔ میں جادو کے زور سے تمھاری ناک کے نیچے سے گزر کے جا رہی ہوں۔‘
یہ جملہ مصنفہ چترا بنرجی کی کتاب ’دا لاسٹ کوئین‘ میں ایک طنزیہ خط کے طور پر درج ہے جو مہارانی جند کور (جنداں) نے جیل وارڈن کو لکھا تھا۔
مہارانی جند کور نے مبینہ طور پر یہ خط مرزا پور کے چنار قلعے کی قید سے فرار ہوتے ہوئے لکھا تھا۔
جند کور کو پہلے لاہور قلعہ میں قیدی کے طور پر رکھا گیا اور پھر شیخوپورہ جیل کا قیدی بنانے کے بعد پنجاب سے باہر اتر پردیش بھیج دیا گیا تھا۔
جند کور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی اور آخری ملکہ تھیں حالانکہ رنجیت سنگھ کے پاس اور بھی کئی مہارانیاں تھیں لیکن ملکہ کا خطاب صرف جندن کو ملا۔
رنجیت سنگھ کی موت کے بعد انھوں نے انگریزوں کی جانب سے سکھ سلطنت پر قبضہ کرنے اور پنجاب کو محکوم بنانے کی کوششوں کی سخت مخالفت کی۔
رانی جند کور پر دستاویزی فلم ’باغی رانی‘ بنانے والے مشہور پروڈیوسر مائیکل سنگھ نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’مہارانی جنداں نے نہ صرف اپنے بیٹے دلیپ سنگھ کو زندہ رکھا بلکہ پنجاب کا تخت حاصل کرنے کے لیے وہ شیرنی کی طرح لڑیں۔‘
انگریزوں کے خلاف لڑنے کی اپیل
چترا بنرجی اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ پہلی اینگلو سکھ جنگ کی شکست کے بعد لاہور میں خالصہ دربار کا انعقاد رک گیا تھا چنانچہ جنگ زدہ جرنیلوں کا ایک وفد دیوانِ عام پہنچا۔
انھوں نے مہارانی جند کور سے کہا کہ ’ہم آپ کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘
رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے دلیپ سنگھ اس وقت تخت پر بیٹھے تھے لیکن اس وقت ان کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ وہ ایسا ماحول دیکھ کر سہم گئے تاہم مہارانی جند کور نے ان کا خیال رکھا۔
انھوں نے پردے کے پیچھے سے ان لوگوں سے کہا کہ ’تم لوگ میرے کپڑے پہنو اور مجھے اپنے کپڑے دو، تم محل میں رہو اور میں تمہاری جگہ جنگ میں جاؤں گی اور ایک سچے خالصہ سپاہی کی طرح جان دوں گی۔‘
مہارانی کے اس چیلنج نے جنگ ہارنے والے لوگوں میں ایک بار پھر جوش و حوصلہ پیدا کیا اور جو لوگ بغاوت کا سوچ رہے تھے انھوں نے اپنا لہجہ بدل دیاـ
ان ہی میں سے ایک نے کہا کہ ’ہم لڑیں گے، مرنے سے کون ڈرتا ہے۔ جب قربانی کی بات آئے گی تو ہم اپنے مہاراجہ، اپنے پنجاب اور ہماری اپنی مائی (ماں) کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے۔‘
حکومت ہند کی ’امرت مہوتسو‘ کی ویب سائٹ پر جند کا ذکر گمنام ہیروز کے طور سے کیا گیا ہے۔ اس ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ’مہارانی جند کور 1843 سے 1846 تک سکھ سلطنت کی آخری ملکہ تھیں۔ وہ سکھ سلطنت کے پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی بیوی اور آخری مہاراجہ دلیپ سنگھ کی والدہ تھیں۔ دوسرے سکھوں کی طرح انھوں نے بھی صرف دو چیزیں سیکھیں، حکومت کرنا یا بغاوت کرنا۔‘
مہارانی جند کو، جنھیں رانی جنداں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ابتدا میں صرف رنجیت سنگھ کی بیوی کے طور پر پہچانا جاتا تھا لیکن آخر کار وہ ملکہ اور ’ماں‘ بن گئیں جنھوں نے سکھ ریاست کی خودمختاری کے لیے جدوجہد کی۔
بہت سے مؤرخین نے اپنی تحریروں میں انھیں ’رانی مائی‘ یا ’ملکہ ماں‘ بھی لکھا لیکن ہندوستان میں برطانوی راج نے انھیں ’پنجاب کی میسالینا‘ کے طور پر فروغ دیا۔ حالانکہ حکومت ہند کی سرکاری معلومات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جند کور اور رومن مہارانی والیریا میسالینا میں مماثلت نہیں تھی۔
چترا بنرجی نے اپنی کتاب ’دا لاسٹ کوئین‘ میں جند کا بیان بھی درج کیا کہ ’انگریز مجھے پنجاب کی میسالینا کہتے ہیں، اس کے پیچھے گلاب سنگھ کی سازش ہے۔‘
یاد رہے کہ روم کی ملکہ میسالینا اپنی سلطنت کو دوبارہ قائم کرنے کی سازش کرنے میں اپنی شہوت پسندی کے لیے بھی شہرت رکھتی تھیں۔
امرت مہوتسو ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ ’انگریزوں نے جند کور کا موازنہ میسلینا سے کیا تاکہ ان کے کردار کو مسخ کیا جا سکے اور پنجاب پر حکمرانی کے لیے انھیں بدنام کیا جا سکے۔‘
جب رانی جنداں نے پنجاب کی قیادت کی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جند کور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی اور آخری ملکہ تھیں
پرتھوی پال سنگھ کپور نے کتاب ’The Major Currents of the Freedom Struggle in Punjab ‘ میں لکھا ہے کہ رنجیت سنگھ نے ان کی خوبصورتی اور مذہبی رجحان کی وجہ سے جند کور سے شادی کی۔
انھوں نے رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے کو جنم دیا اور اس کے 10 ماہ بعد مہاراجہ کی وفات ہو گئی۔
رنجیت سنگھ کے بڑے بیٹے کھڑک سنگھ، پوتے نونہال سنگھ کی موت، مہاراجہ شیر سنگھ، کنور پرتاپ سنگھ اور راجہ دھیان سنگھ کے قتل کے بعد رانی جند کور کے پانچ سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کو مہاراجہ اور جند کور کو ان کا سرپرست بنایا گیا۔
پال سنگھ کپور لکھتے ہیں کہ ’جند کور کو سرپرست بننے کے بعد ریاست کے اندر اور باہر سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔‘
ایک احتجاج برطانوی حکومت کی طرف سے تھا اور دوسرا ان درباریوں کی طرف سے جو ان سے ملتے تھے اور ملکہ کے خلاف سازشیں کر رہے تھے لیکن ملکہ نے دلیپ سنگھ کی نوعمری کے دور میں لاہور میں برطانوی فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری نہ دی۔
شرومنی سمیتی کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب ’ممتاز سکھ شخصیات‘ میں جند کور کے بارے میں ایک مضمون میں سمرن کور لکھتی ہیں کہ ’پہلی اینگلو سکھ جنگ کے بعد، 15 دسمبر 1849 کو لاہور میں بات چیت کی شرائط طے کرنے کے لیے مذاکرات ہوئے۔ اس دوران دیوان دینا ناتھ کی رائے تھی کہ معاہدہ کرنے سے پہلے ملکہ سے بھی مشورہ لیا جانا چاہیے تو فریڈرک کیوری نے کہا تھا کہ ’گورنر جنرل سکھ ریاست کے سرداروں اور ستونوں کی رائے لیتا ہے، ملکہ کی نہیں۔‘
’ملکہ کو اتنا ہراساں کیا گیا کہ انھیں پانی تک نہ دیا گیا‘
جند کور ریاست کے اندر اور باہر ہونے والی سازشوں کی سختی سے مخالفت کر رہی تھیں۔ انھیں عوام کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
تاہم جب انگریزوں نے تیج سنگھ کو وزیر کا عہدہ دیا اور انھیں مہاراجہ دلیپ سنگھ کے بچے کو ویکسین لگانے کو کہا تو مہاراجہ نے ملکہ کی ہدایت کے مطابق ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد رانی اور دلیپ سنگھ کو شاہی قلعے کے اندر قید کر دیا گیا۔ پرتھیپال سنگھ کپور لکھتے ہیں کہ ’پنجاب کے گورنر ہنری لارنس اور اس کے درباریوں نے ملکہ کو نئی انتظامیہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا۔‘
اس دوران ملکہ کو شاہی قلعے کے ایک مینار میں قیدی کے طور پر رکھا گیا تھا۔
سمرن کور، افغان حکمران دوست محمد کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے(جو خالصہ دربار کے ایک عرصہ تک مخالف تھے) لکھتی ہیں ’ملکہ کو اتنا ہراساں کیا گیا کہ انھیں پانی تک نہ دیا گیا، ان کی تلاشی لی گئی۔ وہ کون سی اذیت ہے، جو انگریز سرکار نے انھیں نہیں دی۔‘
دلیپ سنگھ کو تخت سے ہٹا کر انگریزوں نے لندن بھیج دیا
بغاوت کی تحریک
مہارانی جند نے خالصہ دربار کے حامیوں اور ہمدردی رکھنے والوں کو خطوط لکھنا جاری رکھا تاکہ ان پر ہونے والی پابندیوں اور سختیوں سے وہ آگاہ رہ سکیں۔
ان خطوط کا عوام پر گہرا اثر ہوا اور اسی وجہ سے انگریزوں نے ملکہ کو لاہور سے باہر بھیج دیا۔
انھیں اپنے بیٹے دلیپ سنگھ سے الگ کرنے کے لیے شیخوپورہ جیل میں رکھا گیا جہاں ان کے ساتھ ایک عام قیدی جیسا سلوک کیا گیا لیکن ان کے ساتھ ماہی نام کا ایک معاون موجود تھا، جسے خالصہ عدالت کے ایک وفادار جاسوس نے کسی نہ کسی طرح جیل بھیج دیا تھا۔
رنجیت سنگھ کی موت کے بعد بھی خالصہ دربار کی فوج نے انگریزوں کے خلاف دو جنگیں لڑیں
جند نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں ایک کھلا خط عوام کے نام لکھا، جس کے بعد پنجاب میں انگریزوں کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی۔ خالصہ اپنی ’مائی‘ کی توہین پرسخت برہم تھا۔
چترا بنرجی لکھتی ہیں کہ ’ملتان میں آبائی ریاست کو بغاوت پر اکسانے کے لیے شیر سنگھ اٹاری والا اور اس کے والد چتر سنگھ نے ایک فوج تیار کر کے میدان میں اتاری اور رام نگر میں انگریزوں پر حملہ کیا۔ دوست محمد نے اپنے بیٹے کی قیادت میں افغان گھڑ سواروں کا ایک دستہ مدد کے لیے بھیجا۔‘
ایسا لگتا تھا کہ پنجاب اپنی آزادی دوبارہ حاصل کر لے گا لیکن انگریزوں کی طرف سے پورے ہندوستان میں فوج کی تعیناتی اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ کی ایک بار پھر دھوکہ دہی کی وجہ سے یہ فتح ممکن نہ ہو سکی۔
سکھ فوج نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔ شیر سنگھ کے تین گھوڑے لڑتے لڑتے مارے گئے۔ فوج کے پاس گولہ بارود ختم ہوگیا اور آخر کار اٹاری والا کو ہتھیار ڈالنا ہی پڑے۔
لوگوں کا خیال تھا کہ بھائی مہاراج سنگھ جیسے مذہبی رہنما بھی بغاوت میں شامل ہو گئے تھے۔ اس میں ہنری لارنس اور تیج سنگھ کے قتل کی سازش بھی شامل تھی جو معلومات افشا ہونے کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکی۔
کپور لکھتے ہیں کہ ’پنجاب میں انگریزوں کے خلاف ابتدائی بغاوتوں میں مہارانی جند کا دماغ تھا اور بھائی مہاراج سنگھ اس لڑائی کے روح رواں تھے۔ اس وقت برطانوی حکومت نے بھائی کی گرفتاری کے لیے ان کے سر کی قیمت ایک لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی۔‘
پہلی جنگ آزادی
دلیپ سنگھ سے نہ صرف ریاست چھینی گئی بلکہ انگریز سارا خزانہ انگلستان لے گئے
سینیئر صحافی جگتار سنگھ اور گرودرشن سنگھ باہیا نے اپنی کتاب ’کالا پانی‘ میں پنجاب یا پنجابیوں سے متعلق آزادی کی تحریکوں کا ذکر کیا ہے، جس میں انھوں نے بھائی مہاراج سنگھ کی قیادت میں برطانوی راج کے خلاف بغاوت کو جند کور کی کوششوں سے ہندوستان کی آزادی کی پہلی جدوجہد قرار دیا۔
وہ بہت سے مؤرخین کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1849 میں برطانوی راج کے خلاف لڑی جانے والی جنگ موجودہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی آزادی کی پہلی جنگ ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’1857 کے غدر کو پہلی جنگ آزادی کہنا ایک بحث کا موضوع ہے۔ پنجاب سے متعلق مؤرخین نے اطمینان سے دوسری اینگلو سکھ جنگ (1849) کو پہلی جنگ آزادی قرار دیا۔‘
تاہم پنجابی اور سکھ مؤرخین کی اس رائے کو ہندوستان میں قومی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ ہندوستان میں 1857 کی غدر کو ہندوستان کی پہلی جدوجہد آزادی کہا جاتا ہے۔
نیپال سے سرگرمیاں
چونار جیل سے سادھوی کے طور پر فرار ہونے کے بعد جند کور نیپال پہنچیں جو ابھی تک برطانوی سلطنت کی کالونی نہیں تھی۔ نیپال کے اس وقت کے وزیر اعظم جنگ بہادر نے انھیں پناہ دی لیکن ان کے اس اقدام سے حکومت ہند کے لیے ایک عجیب سی صورتحال پیدا ہو گئی۔
پرتھویپال سنگھ کپور لکھتے ہیں کہ ’نیپال میں رہتے ہوئے مہارانی جند کور نے پنجاب کے باغیوں اور الہٰ آباد میں بند سیاسی قیدیوں سے رابطہ کیا۔ وہ پنجاب میں برطانوی اقتدار کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے تمام دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا۔‘
انھوں نے نیپال سے دلیپ سنگھ سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ تب تک جنگ بہادر کے ساتھ رانی کے تعلقات خراب ہو چکے تھے اور ان کی بینائی بھی خراب ہو گئی تھی لیکن وہ امرتسر اور پٹنہ میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دلیپ سنگھ سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
کپور کے مطابق ’جب 1857 کی بغاوت شروع ہوئی تو جند کور نے پنجاب میں انگریز باغیوں کو خط لکھے اور بنارس اور الہ آباد میں ہندوستانی رجمنٹ کے کمانڈروں سے رابطہ کیا اور کہا کہ انگریزوں کے پاس ہندوستان میں لڑنے کے لیے فوجیوں کی تعداد ناکافی ہے۔‘
ہندوستان میں جند کور کی انگریز مخالف سرگرمیوں سے تنگ آ کر دلیپ سنگھ کو بالآخر 1860 میں اپنی ماں کو برطانیہ لے جانے کی اجازت مل گئی تاہم اس وقت تک دلیپ سنگھ پوری طرح سے انگریزوں کے رنگ ڈھنگ اپنا چکے تھے۔
آخری وقت میں ملکہ جند دلیپ سنگھ کو سکھ مذہب میں واپس لانے میں کامیاب رہیں
گوروں کی سرزمین پر آخری رسومات نہ کی جائیں: جنداں کی وصیت
تاریخی حوالوں کے مطابق جند کور کی اپنے بیٹے دلیپ سے ملاقات اپریل 1861 میں ہوئی تھی لیکن جب ملکہ نے دلیپ سنگھ کے چھوٹے بال دیکھے تو وہ گھبرا گئیں۔ سمرن کور لکھتی ہیں کہ جب ماں جنداں اپنے بیٹے سے ملیں تو انھوں نے تین باتیں کہیں۔
- آپ کا مذہب سکھ مت ہے ،آپ شیر کا امرت چکھیں (دوبارہ سکھ بنو)
- انگریزوں نے آپ کو دھوکہ دے کر سلطنت چھین لی
- بھیرووال معاہدے پر دستخط ہوئے اور اس معاہدے کے تحت انگریز آپ کے محافظ تھے اور آپ کو تخت سے نہیں ہٹا سکتے تھے۔
سمرن کور نے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا کہ یہ جندن کی شخصیت کا اثر تھا جس سے دلیپ سنگھ دوبارہ سکھ بن گئے۔
برطانیہ آنے کے باوجود دلیپ سنگھ کو جندن سے ملنے نہیں دیا گیا۔ اس دوران جنداں کی صحت مسلسل خراب ہوتی چلی گئی، اس لیے دلیپ سنگھ نے انتظامیہ سے اجازت طلب کی کہ ملکہ کو یارکشائر می واقع ملگرو کے قلعے میں لانے دیا جائے۔ انھوں نے یہ قلعہ لارڈ نارمنڈی سے لیز پر لیا تھا اور انھیں اپنی ماں کو وہاں لانے کی اجازت مل گئی۔
یہاں جنداں کے پاس وافر وقت تھا کہ وہ دلیپ سنگھ کو سکھ ریاست کے ساتھ غداری کی کہانیاں سنا سکیں۔ انھوں نے دلیپ سنگھ کو ماں اور بیٹے کی دردناک کہانی سنائی۔
ان کی وفات برطانیہ میں 1863 میں ہوئی جس سے قبل جنداں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ ’گوروں کی سرزمین پر میری آخری رسومات ادا نہ کی جائیں۔‘
اپنی والدہ کی خواہش کا احترام کرنے کے لیے دلیپ سنگھ ان کی میت لے کر ہندوستان آئے لیکن حکومت نے انھیں پنجاب آنے کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ ان کی آخری رسومات ناسک میں گوداوری کے کنارے پر ادا کی گئیں اور وہاں ایک چھوٹا سا مقبرہ تعمیر کیا گیا۔
بعد ازاں دلیپ سنگھ کی بیٹی شہزادی بمبا اپنی دادی کی استی (راکھ) وہاں سے نکال کر لاہور لے گئیں تاکہ انھیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مقبرے میں رکھ سکیں۔
یوں تو جنداں کے مقبرے پہلے ممبئی اور پھر لاہور میں بنائے گئے لیکن مہارانی پنجاب کی تاریخ کا ایک ایسا اہم اور یادگار کردار ہیں جنھیں ہمیشہ ہیروئن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
Comments are closed.