کیا عالمی رہنماؤں کو طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے؟

افغانستان طالبان مذاکرات اور خواتین
،تصویر کا کیپشن

ستمبر 2022 میں طالبان کابل میں ایک چوکی پر کھڑے ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

  • مصنف, لِیس ڈُوسِٹ
  • عہدہ, بی بی سی، چیف انٹرنیشنل کارسپونڈنٹ

دو سال پہلے طالبان نے افغانستان پر تیزی سے قبضہ کیا تھا، تب سے لے کر اب تک کسی بھی ملک نے ان کی حکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔

حتیٰ کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ رابطہ کرنا بھی ایک متنازع بات سمجھی جاتی ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اُن کے ساتھ بات کرنے سے تبدیلی لانے میں مدد ملے گی، جبکہ دوسروں کا اصرار ہے کہ طالبان کبھی نہیں بدلیں گے اس لیے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

اور جب دنیا یہ فیصلہ کرنے کے لیے تذبذب کا شکار ہو کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں سے کیسے نمٹا جائے، تو ایسی حالت میں خواتین کے حقوق – یہاں تک کہ ان کے بیوٹی سیلون افغانستان سے بات چیت کرنے کے معاملے میں سودے بازی کا سامان بن کے رہ گئے ہیں۔

بیوٹیشن سکینہ – ایک مدھم روشنی والے کمرے میں، جس پر مضبوط سے پردے کھینچے ہوئے تھے، وہاں اُس نے اپنے لبوں کو چمکیلی رنگ والی آئی لائینر پینسل سے سجایا ہوا تھا یہ کیفیت اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ انھیں کیوں لگتا ہے کہ اس جیسی عورتیں اب عالمی رہنماؤں اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں سودے بازی کا سامان بن گئی ہیں۔

وہ کابل میں اپنے نئے خفیہ سیلون میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’طالبان خواتین پر سختیاں بڑھا رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں پر دباؤ ڈال کر وہ اپنی حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے عالمی رہنماؤں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘

حکومت کی جانب سے خواتین کے تمام بیوٹی پارلرز کو بند کرنے کے حکم کے بعد دو ہفتے قبل بیوٹی سیلون چلانے والیوں کو اپنا کاروبار زیرِ زمین لے جانا پڑا تھا۔ یہ افغان خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں اور آزادیوں کو محدود کرنے والے حکمناموں کے بظاہر ختم نہ ہونے والے سلسلے کا تازہ ترین اقدام ہے۔

سکینہ کو نہیں معلوم کہ طالبان کو کس طرح قائل کیا جا سکتا ہے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس قسم کی غیر یقینی صورتحال اور اضطراب کے ساتھ جو اس بڑے حساس سیاسی مسئلے سے دوچار ہے، وہ کہتی ہیں کہ ’اگر طالبان کے قبضے کو ایک باقاعدہ قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہم پر سے پابندیاں ختم کر دیں، یا وہ اس سے بھی زیادہ پابندیاں مسلط کر سکتے ہیں۔‘

طالبان کا اصرار ہے کہ خواتین کے حقوق جیسے مسائل کے بارے میں دنیا کو مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اُن کا اس میں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’اس ایک مسئلے پر توجہ دینا کرنا محض ایک بہانہ ہے۔‘

افغان شہر قندھار سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے- جو کہ طالبان کے امیرالمومنین ہیبت اللہ اخوندزادہ کا گھر ہے ذبیح اللہ مجاہد کا اصرار ہے کہ ’موجودہ حکومت کو بہت پہلے تسلیم کر لیا جانا چاہیے تھا۔ ہم نے کچھ شعبوں میں پیش رفت کی ہے اور ہم اس معاملے کو بھی حل کریں گے۔‘

طالبان حکومت سے بات کرنا یا نہ کرنا افغانستان کے مستقبل کو داؤ پر لگا کر وہاں کی مختلف کمیونیٹیز کو تیزی سے مزید تقسیم کرتا ہے۔

اس میں دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے افغان تارکین وطن کا ایک ’دیاسپورا‘ بھی ہے جو 15 اگست 2021 کو طاقت کے زور پر طالبان کے اقتدار میں آنے کے وقت خوف، غصے اور پریشانی کی حالت میں اپنے ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوا تھا۔

فاطمہ گیلانی ان چار خواتین میں سے ایک ہیں جو اُس افغان ٹیم کا حصہ تھیں جس نے اقتدار پر قبضہ کرنے تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی تھی، وہ اب کہتی ہیں کہ ’طالبان سے بات نہ کریں، یہ کہنا بہت آسان بات ہے۔‘

’اگر آپ بات چیت نہیں کرتے ہیں تو پھر آپ کیا کریں گے؟‘

پچھلی حکومت کے خاتمے کے بعد سے، وہ اب تک پس پردہ بات چیت کی کوششوں میں شامل رہی ہیں۔

وہ مختلف افغان دھڑوں کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، بشمول سابق فوجی کمانڈر اور پرانے جنگجو سردار، جو اب بھی طاقت کے ذریعے موجودہ نظام کو ختم کرنے کی امید رکھتے ہیں، زور دے کر کہتی ہیں کہ ’ہمیں ایک اور جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔‘

افغانستان طالبان مذاکرات اور خواتین

،تصویر کا کیپشن

جیسے جیسے افغانستان میں غربت بڑھ رہی ہے، کابل میں مزید خاندان بھیک میں ملنے والی روٹی کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

دنیا بھر میں پھیلے ہوئے افغان تارکین وطن (دیاسپورا) مطالبہ کر رہے ہیں کہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ان پر مزید سخت پاندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے۔

جلاوطن خواتین کی زیر قیادت نیوز روم ’زن ٹائمز‘ کی بانی اور چیف ایڈیٹر، زہرہ نادر کہتی ہیں کہ طالبان سے ’بات چیت کرنے کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے تو بتا دیا ہے کہ وہ کون ہیں اور وہ کس قسم کا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔‘

افغان طالبان سے رابطے قائم کرنے کے حامی سفارت کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بات چیت کا کوئی در کھولنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اُن کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ کہ ہم اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔

لیکن طالبان میں رابطوں میں بہتری کے امکانات معدوم ہونے کی وجہ سے عدم اطمینان بڑھ رہا ہے اور ان کے سینیئر رہنما خواتین کے بارے میں مزید سخت فتوے دے رہے ہیں جس سے حالات مزید مایوس کن ہو رہے ہیں۔

طالبان کی درمیانے درجے کی قیادت سے حالیہ ملاقاتوں میں شامل ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم ان افغانوں سے رابطہ کاری نہیں کرتے ہیں جو ممکنہ طور پر ہوشیار طریقے سے رابطے قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان لوگوں کو افغانستان پر اپنے عوام کو قیدی بنانے کی کھلی آزادی دے رہے ہیں۔‘

ذرائع نے قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی کے ساتھ طالبان کے امیر اخوندزادہ کے درمیان حالیہ غیر معمولی ملاقات کی طرف اشارہ کیا- جو طالبان کے امیرالمومنین کی کسی غیر ملکی اہلکار کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ بات چیت کے بارے میں بریفنگ دینے والے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے فریقین کے درمیان وسیع خلا کی تصدیق کی، خاص طور پر جب بات تعلیم اور خواتین کے حقوق کی ہو، لیکن ساتھ ہی ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کے امکان کا بھی اشارہ دیا ہے لیکن آگے بڑھنے کا یہ سفر آہستہ آہستہ ہوگا۔

دونوں کے درمیان مذاکرات کاآغاز بہت ہی سخت مرحلہ ہے کیونکہ مشترکہ بنیاد تلاش کرنا مشکل کام ہے۔

’افغانستان اینالِسٹ نیٹ ورک‘ سے وابستہ کیٹ کلارک کہتی ہیں کہ ’ان فریقین کے درمیان جو برسوں سے ایک دوسرے سے لڑتے رہے، اعتماد کا سنگین فقدان ہے، بلکہ ایک دوسرے سے نفرت بھی ہے۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ مغرب اب بھی ان کی قوم کو خراب کرنا چاہتا ہے جبکہ مغرب کو خواتین کے حقوق اور ان کی آمرانہ حکمرانی کی وجہ سے طالبان کی پالیسی پسند نہیں ہے۔‘

کیٹ کلارک نے فریقین کے درمیان رابطوں میں کمی کے ایک نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’مغرب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے جیسے معاملے کو رعائت کے طور پر دیکھ سکتا ہے، لیکن طالبان اسے اپنے حق کے طور پر دیکھتے ہیں، اُن کے خیال میں امریکی سپر پاور کو شکست دینے اور دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کرنے کا اُن کا حق انھیں خدا نے دیا ہے۔‘

بیرونی طاقتیں جب افغانستان میں کوئی مثبت پیش رفت دیکھتی ہیں تو وہ اپنی تنقید کو متوازن کرنے کے لیے ان کی تعریف بھی کرتی ہیں، جیسے بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن جس سے محصولات کی وصولی میں اضافہ ہوا، اور دولتِ اسلامیہ گروپ کی طرف سے درپیش سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے کچھ کوششیں وغیرہ۔ اور مغربی طاقتیں اسلامی ممالک اور دیگر معتدل پسند علماء سے تعاون کرتی ہیں تاکہ طالبان کی اسلام کی انتہائی سخت گیر تشریحات پر مشترکہ خدشات پر متفقہ موقف اپنائیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی طالبان کے بارے میں حکمت عملی میں سختی بھی ہے۔

یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی اب ’جنس کی بنیاد پر علحیدگی‘ کی بات کرتا ہے کیونکہ طالبان نے خواتین پر عوامی پارکوں، خواتین کے جموں (ورزش گاہوں) اور بیوٹی پارلروں پر پابندی لگا کر ان کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا ہے۔ اب ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے لیے قانونی مقدمہ تیار کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔

افغانستان طالبان مذاکرات اور خواتین

،تصویر کا کیپشن

طالبان نے افغانستان میں دکانوں کے مالکان کو حکم دیا ہے کہ عورتوں کے لباس پہنے عورت کی شکل کے مجسموں کے سروں کو ہٹا دیں۔

کچھ ملے جلے پیغامات اور علاقائی اور مغربی ممالک کے درمیان کبھی کبھار تصادم کے باوجود، اب تک عالمی طاقتوں، بشمول روس اور چین کے درمیان ہم آہنگی کے آثار کم ہی نظر آئے ہیں جن میں طالبان کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔

اس تعطل کی وجہ سے عام افغانوں کے لیے تباہ کن نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں جلی حروف میں بیان کیا گیا ہے کہ افغان فنڈ کے لیے ان کی انسانی ہمدردی کی اپیل کے جواب میں اس برس جولائی کے آخر تک صرف ایک چوتھائی فنڈ دیا گیا ہے، کیونکہ عطیہ دہندگان طالبان کی وجہ سے افغانستان سے منھ موڑ لیتے ہیں۔ عطیات کی کمی کی وجہ سے اب بھوکے سونے والے افغان بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 84 فیصد گھرانے اب صرف خوراک خریدنے کے لیے رقم ادھار لے رہے ہیں۔

اور یہ تشویش بھی ہے کہ اسلامک سٹیٹ جیسے اسلام پسند گروہ اپنے قدم جما رہے ہیں۔

دوسری جانب طالبان اپنی حکومت کی ایک حسیِن تصویر پیش کرتے ہیں۔ اور انھیں تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود بھی، ان کے ایلچی – اپنی روایتی پگڑیوں اور مخصوص لباس میں ملبوس دنیا میں اس وقت کئی طیاروں میں مختلف دارالحکومتوں میں ملاقاتوں کے لیے سفر کر رہے ہیں۔

قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی تقریباً روزانہ ہی کابل میں وفود کا استقبال کرتے ہیں، تمام معمول کے پروٹوکول کے ساتھ، بشمول جھنڈے اور سرکاری تصاویر خوبصورت کمروں میں لگائی جاتی ہیں۔

کابل میں مغربی سفارت خانے بند ہیں، سوائے ایک چھوٹی یورپی یونین اور ایک جاپانی مشن کے۔ اس بارے میں بحث جاری ہے کہ کیا اب خلیجی ریاست قطر میں مقیم سفارت کاروں کو کم از کم کابل میں ہونا چاہیے اگر وہ کوئی اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

دنیا کے کسی بھی دارالحکومت میں اس 40 برس کی جنگ کے ایک اور خونی باب کھولنے کی اب کوئی خواہش نہیں ہے۔

اور طالبان رہنماؤں کے درمیان کسی بھی اختلاف کے باوجود ان کا اتحاد ایک مقصد ہے جو سب سے بڑھ کر اہم ہے۔

تاہم اس مسئلے کا کوئی فوری یا آسان حل نہیں ہیں۔

بیوٹیشن سکینہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے دل سے صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ ہم واقعی تکلیف میں ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’شاید وہ لوگ جو ہم میں سے نہیں ہیں، اسے سمجھ نہیں سکتے، لیکن یہ واقعی تکلیف دہ ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ