افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور امریکی انخلا: دو دہائیوں تک امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟
- داؤد اعظمی
- بی بی سی ورلڈ سروس
جہاں امریکہ کی سربراہی میں نیٹو افواج نے دو دہائیوں تک افغانستان میں جنگ لڑنے کے بعد یہاں سے مکمل انخلا کا سلسلہ شروع کر دیا ہے وہیں پہلے سے افغانستان کے متعدد علاقوں پر قابض طالبان اب ملک کے دیگر حصوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
گذشتہ چند ہفتوں میں طالبان نے افغانستان کے جنوبی اور مشرقی صوبوں پر حملے تیز کر دیے ہیں اور اب تک ملک کے 34 میں سے 20 صوبوں کے دارالحکومتوں پر طالبان کے مکمل قبضے کا خدشہ ہے۔
حملوں کی اس نئی لہر کے دوران طالبان نے کابل کے مغرب میں واقع ایک اہم وادی پر بھی قبضہ کیا ہے جس سے وفاقی دارالحکومت کابل کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے لگ بھگ 60 ہزار جنگجو ہیں اور سنہ 2001 کے بعد، یعنی امریکی اتحاد کی جانب سے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد، فی الحال افغانستان میں سب سے بڑے علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
کابل کی حکومت کو امریکہ کی جانب سے فوجی اور مالی معاونت کے باوجود یہ جنگ زیادہ شدید اور پیچیدہ ہوتی گئی۔ امریکہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس جنگ میں دو کھرب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی جا چکی ہے۔
اس پسِ منظر میں یہ سوال انتہائی اہمیت رکھتا ہے کہ آخر افغانستان جیسے وسیع و عریض اور ترقی پذیر ملک میں ایک عرصے سے سپر پاور امریکہ اور نیٹو افواج کی کھربوں ڈالرز کی جنگی مشینری کا مقابلہ کرنے والے طالبان کی آمدن کے ذرائع کیا ہیں؟
طالبان کتنے دولت مند ہے؟
طالبان نے سنہ 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی اور وہاں شریعہ قانون کو سختی کے ساتھ نافذ کیا۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد سے وہ طویل عرصے سے ملک بھر میں بغاوت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان کی فنڈنگ کے ذرائع کے بارے میں ویسے تو صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ خفیہ طور پر کام کرنے والی عسکری تنظیمیں اپنی آمدن اور اخراجات کی تفصیلات واضح نہیں کرتیں۔ تاہم افغانستان کے اندر اور ملک سے باہر بی بی سی نے جو انٹرویوز کیے ان سے ان کے پیچیدہ مالی نیٹ ورک اور ٹیکس کے نظام کا اندازہ ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بغاوت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سنہ 2020 میں سکیورٹی کونسل کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق اس کے رکن اور دیگر ممالک کی جانب سے لگائے گئے اندازوں کے مطابق طالبان کی مجموعی سالانہ آمدن 30 کروڑ ڈالر سے 1.5 ارب ڈالر تک ہے۔
حکام نے سنہ 2019 میں طالبان کی آمدن میں کمی کے حوالے سے اطلاعات دی تھیں تاہم ان کے مطابق طالبان اپنے وسائل کو بہت احتیاط اور مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہیں اور انھیں اس وقت کسی بحران کا سامنا نہیں ہے۔
آمدن میں کمی کی ایک وجہ پوست کی کاشت اور اس سے آنے والی آمدن میں کمی بھی ہے، تاہم ساتھ ہی امداد اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے ملنے والی رقم میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور انتظامی منصوبوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے سڑکوں پر ٹول ٹیکس بڑھایا گیا ہے جو ملک کے شمالی حصے میں ان کی طاقت میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ زکوٰة اور عُشر کی مد میں بھی عوام سے رقوم حاصل کی جاتی ہیں خاص کر طالبان کے زیرِ انتظام شہری علاقے میں۔
گذشتہ دو دہائیوں میں افغان اور امریکی حکومتوں نے ان نیٹ ورکس پر لگام لگانے کی کوشش کی ہے۔ امریکی فوج منشیات تیار کرنے والے کارخانوں پر بمباری بھی کرتی رہی ہے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔
بہر حال طالبان کی آمدن کے ذرائع منشیات کی تجارت کے علاوہ بھی ہیں۔ سنہ 2012 میں اقوام متحدہ نے اس عام تصور کے خلاف خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں پوست کی معیشت طالبان کی آمدن کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
افیون، ٹیکس اور جبری مالی وصولی
افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا ملک ہے۔ یہاں سے سالانہ ڈیڑھ سے تین ارب ڈالر کی افیون کی بڑی تجارت ہوتی ہے اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر ہیروئن سمگل کرتا ہے۔
افغان حکومت کے کنٹرول والے علاقے میں بھی پوست کی کاشت ہوتی ہے لیکن زیادہ تر پوست طالبان کے کنٹرول والے علاقے میں پیدا ہوتی ہے اور یہ ان کی آمدن کا بڑا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔
طالبان اس کے مختلف مراحل پر عائد ٹیکس سے رقوم حاصل کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کسانوں سے پوست کی کاشت کے لیے دس فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔ ان لیبارٹریوں سے بھی ٹیکس لیا جاتا ہے جہاں افیون سے ہیروئن بنائی جاتی ہے اور ان تاجروں سے بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو غیر قانونی منشیات کی سمگلنگ کرتے ہیں۔
غیر قانونی منشیات کی معیشت میں طالبان کا سالانہ حصے کا اندازہ دس کروڑ سے 40 کروڑ امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے۔
سنہ 2020 کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے مطابق ملک کے ننگرہار صوبے کے ایسے علاقوں پر قبضہ جہاں پوست کی کاشت زیادہ ہوتی ہے خاص کر ایک ایسے وقت میں جب افغان فورسز نے بدخشان صوبے میں مادنیات کی کانوں کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر طالبان نے اپنے زیرِ انتظام صوبوں میں زراعت، انفراسٹرکچر، ضروری اشیا اور متعدد صنعتوں پر ٹیکس لگائے ہیں۔
طالبان نے ٹیلی فون سروسز فراہم کرنے والے اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں سے گذشتہ ایک سال میں بھتہ حاصل کیا ہے۔
منشیات کی صنعت
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں بغاوت کے خلاف امریکی حکمت عملی کے زیادہ جارحانہ رخ کے تحت امریکہ نے ایک بار پھر طالبان کے مالی نیٹ ورک اور ٹیکس کے ذرائع کو نشانہ بنانے پر توجہ مرکوز کی تھی جن میں منشیات کی تجربہ گاہیں بھی شامل ہیں جن میں افیون سے ہیروئن بنائی جاتی ہے۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ طالبان کی 60 فیصد سے زیادہ آمدنی منشیات سے ہوتی ہے۔
اس وقت امریکہ کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا تھا کہ فضائی مہم نے طالبان کو افیون کی تجارت سے ہونے والی ایک تہائی آمدن کو ختم کر دیا تاہم ان تجربہ گاہوں کا دوبارہ بنانا آسان اور کم خرچ میں ممکن تھا۔
طالبان منشیات کی صنعت میں اپنی شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں اور وہ پوست کی کاشت پر سنہ 2000 میں مکمل پابندی عائد کرنے کے اپنے عمل پر فخر کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ جہاں ایک عرصے تک طالبان کی آمدن کا اہم ذریعہ ہیروئن کی کاشت اور پیداوار رہی ہے وہیں اب آئس یا کرسٹل میتھ کی پیداوار افغانستان میں منشیات کی ایک نئی صنعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
کرسٹل میتھ کو ہیروئن سے زیادہ منافع بخش اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی پیداوار میں استعمال ہونے والے اجزا کی قیمت قدرے کم ہوتی ہے اور اس کے لیے بڑی لیبارٹریوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
سکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے کرسٹل میتھ کی 60 فیصد لیبارٹریوں کا کنٹرول ہے جن میں سے زیادہ تر صوبہ فراہ اور نمروز میں موجود ہیں۔
اس کی پیداوار میں استعمال ہونے والے اجزا میں سے سب سے اہم ایفیڈرین ہے جسے اس سے قبل درآمد کیا جاتا تھا تاہم اب اس کے پودے کو افغانستان میں ہی کاشت کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق کرسٹل میتھ کی سمگلنگ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
منشیات اور ٹیکس لگانے کے علاوہ آمدن کے ذرائع کیا ہیں؟
طالبان کا مالی نیٹ ورک منشیات کی سمگلنگ پر ٹیکس کی مد میں رقم وصولی کے علاوہ بھی خاصا وسیع ہے۔
سنہ 2018 کے اوائل میں شائع ہونے والی بی بی سی کی تفتیشی رپورٹ میں یہ پتا چلا تھا کہ طالبان افغانستان کے 70 فیصد علاقے میں سرگرم ہیں اور اس کا وہاں وجود ہے۔
ان علاقوں میں طالبان نے اپنے دور اقتدار میں رائج ٹیکس کے نظام کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ اپنے محصولات دوسری صنعتوں جیسے ٹیلی مواصلات اور موبائل فون آپریٹرز سے بھی حاصل کرتے ہیں۔
افغانستان کی بجلی کمپنی کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ طالبان ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی کے صارفین سے سالانہ 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ حاصل کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ براہ راست جنگ سے بھی آمدن پیدا کی جاتی ہے۔ ہر بار جب طالبان کسی فوجی چوکی پر قبضہ کرتے ہیں یا شہری مرکز پر قبضہ کرتے ہیں تو وہ خزانہ خالی کر دیتے ہیں اور متعدد ہتھیاروں کے ساتھ کاریں اور بکتر بند گاڑیاں بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
کانیں اور معدنیات
افغانستان معدنیات اور قیمتی پتھروں سے مالا مال ہے اور برسوں کی جنگ کے سبب ان کا بہت فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ افغانستان میں کان کنی کی صنعت ایک ارب ڈالر کی ہے۔
خیال رہے کہ زیادہ تر کان کنی چھوٹے پیمانے پر ہوتی ہے اور غیر قانونی طور پر ہوتی ہے۔
طالبان کے زیرِ انتظام ایسے علاقے جہاں قانونی اور غیر قانونی طور پر کان کنی ہوتی ہے طالبان کی جانب سے وہاں سے بھی جبری وصولیاں کی جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی اینالیٹیکل سپورٹ اور سینکشنز مانیٹرنگ ٹیم نے سنہ 2014 کی اپنی رپورٹ میں کہا کہ طالبان نے جنوبی ہلمند صوبے میں 25 سے 30 غیرقانونی کان کنی کے آپریٹروں سے ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم حاصل کی۔
مشرقی ننگرہار صوبے میں طالبان کے آپریشن کے سرسری جائزے سے ان کے کام کرنے کے طریقے پر روشنی پڑتی ہے۔ صوبے کے گورنر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے صوبے سے حاصل ہونے والا نصف محصول یا تو طالبان کو جاتا ہے یا پھر دولت اسلامیہ کو۔
انھوں نے اندازاً بتایا تھا کہ طالبان معدنیات سے بھرے صوبے سے نکلنے والے ہر ٹرک سے 500 ڈالر تک وصول کرتے ہیں جبکہ صوبے سے روزانہ ایسے سینکڑوں ٹرک نکلتے ہیں۔
سنہ 2020 کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے مطابق ہلمند صوبے میں جائزہ ٹیم کے دورے کے دوران انھیں ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئیں جن کے مطابق سلیمانی ماربل، سونا، ایروگنائٹ، تانبہ، ٹن، زنک اور دیگر نایاب مادنیات کی کان کنی بھی طالبان کی آمدن کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے جن پر باقاعدگی سے ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ضلع راغستان میں سونے کی کان کنی سے ماہانہ دو لاکھ ڈالر کمایا جاتا ہے۔ اس علاقے میں 100 سے زیادہ ایسکویٹرز موجود ہیں، جن سے طالبان انفرادی طور پر ہفتہ وار 300 سے 400 ڈالر حاصل کرتے ہیں۔
طالبان، مقامی تاجروں اور جن حکومتی اہلکاروں سے ہم نے بات کی ان کے مطابق طالبان ملک بھر میں کان کنی سے سالانہ پانچ کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم محصول کے طور پر حاصل کرتے ہیں۔
غیر ملکی فنڈنگ
کئی افغان اور امریکی اہلکار ایران، روس اور پاکستان سمیت مختلف علاقائی حکومتوں پر طویل عرصے سے یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ افغان طالبان کی مالی مدد کرتے ہیں۔ تاہم یہ ممالک اس کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔
سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے کئی خلیجی ممالک کے شہری طالبان کی انفرادی حیثیت میں مالی امداد کرنے والوں میں شامل ہیں۔
ہر چند کہ ان کا تخمینہ مشکل ہے لیکن فنڈنگ کے یہ ذرائع بھی طالبان کے ذخائر میں خاطر خواہ رقم ڈالتے ہیں اور ماہرین اور حکام کے مطابق یہ سالانہ 50 کروڑ ڈالر تک ہو سکتے ہیں۔
یہ ایک عرصے سے جاری روابط ہیں۔ سنہ 2008 میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اےکی ایک کلاسیفائڈ رپورٹ میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ طالبان نے اس سال ساڑھے دس کروڑ امریکی ڈالر بیرون ممالک سے تعاون کی شکل میں حاصل کیے تھے جن میں سے زیادہ تر خلیجی ممالک سے آئے تھے۔
یہ تحریر بی بی سی کے صفحات پر سنہ 2018 میں شائع ہوئی تھی تاہم موجود حالات اور سکیورٹی کونسل کی 2020 کی رپورٹ کی مدد سے اس میں مزید تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔
Comments are closed.