دوسری عالمی جنگ میں ہزاروں قیدیوں کو لے جانے والے جاپانی بحری جہاز جو ان کے لیے’جہنم‘ ثابت ہوئے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی
اس سال اپریل میں سمندرمیں ایک ایسے بحری جہاز کا ملبہ ملنے کی خبر آئی جو تقریباً 80 سال پہلے 1,060 قیدیوں کے ساتھ غرق ہوا تھا۔
جاپان کے اس مال بردارجہاز، مونٹیویڈیو مارُو، کوامریکی آبدوز سٹرجن نے یکم جولائی 1942 کو فلپائن کے پانیوں میں یہ نہ جانتے ہوئے تارپیڈو مارا تھا کہ اس میں دشمن جاپانیوں کے علاوہ حلیف آسٹریلیا کے تقریباً 980 آسٹریلوی فوجی اورعام شہری بھی سوار تھے۔
اس وقت دوسری عالمی جنگ تین سال سے جاری تھی۔
محوری طاقتیں کہلاتے جرمنی، اٹلی، اور جاپان اور اتحادیوں فرانس، برطانیہ، امریکہ، سوویت یونین اور ایک حد تک چین کے مابین اس جنگ نے دنیا کے تقریباً ہر خطے کو متاثر کیا اور اس میں چار سے پانچ کروڑ اموات ہوئیں۔ دونوں جانب سے سات کروڑفوجی یہ جنگ لڑے۔
بحرالکاہل میں فوجی کارروائیوں میں جاپانیوں نے ہزاروں برطانوی، ہندوستانی، فرانسیسی، ولندیزی، آسٹریلوی اور امریکی فوجیوں کو گرفتار کیا اور پہلے تو حراستی مراکز میں رکھا اور پھر مئی 1942 میں مال بردار جہازوں سے جبری مشقت کے لیے جاپان اور اس کے زیرِقبضہ علاقوں میں بھیجنا شروع کیا۔
امپیریل جاپانی نیوی اور امپیریل جاپانی آرمی نے ان بحری جہازوں کو اتحادی جنگی قیدیوں اور روموشا (ایشیائی جبری مزدوروں) کو فلپائن، ڈچ ایسٹ انڈیز، ہانگ کانگ اور سنگاپور سے جبری مشقت کے لیے جاپانی جزائر، فارموسا، مانچوکو، کوریا، مولوکا، سماٹرا، برما یا سیام لے جانے کے لیے استعمال کیا۔
حراستی مراکز میں تو جو سلوک ہوا سو ہوا، مارو کہلاتے ان جہازوں پر ان پر ایسی گزری کہ جو بچ گئے انھوں نے ان کو ’ہیل شِپس‘ یا ’جہنم نما‘ جہاز کا نام دیا۔
گریگوری ایف میکنو کی تحقیق ہے کہ سنہ 1945 میں جنگ کے اختتام تک 134 ایسے بحری جہازوں نے کل 156 سے زیادہ سفر کیے۔ ’ان میں ایک اندازے کے مطابق 126,000 اتحادی جنگی قیدی تھے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
میکنو، ’جہنم نما‘ جہازوں پر موت
پیسفک جنگ میں سمندر میں قیدی کے نام سے چھپی اپنی اس تحقیق میں لکھتے ہیں کہ ’انھیں اکثر جہاز کے مال بردار حصے میں بھرا جاتا۔ سامان رکھنے کی جگہ پر قیدیوں کو ہوا، جگہ، روشنی، باتھ روم کی سہولیات اور مناسب خوراک اور پانی۔۔۔ خاص طور پر پانی سے محروم رکھا جاتا۔
’بہت کم ہوا، وینٹیلیشن، خوراک یا پانی دستیاب ہوتا۔ بہت سے لوگ دم گھٹنے، فاقوں یا اسہال کی وجہ سے مر گئے۔ کچھ گرمی، حبس اور آکسیجن، خوراک اور پانی کی کمی کی وجہ سے ذہنی بیمار ہوگئے یا ان پر سکتہ طاری ہوگیا۔‘
جن 1,600 سے زائد فوجیوں کی کہانی جنگی نامہ نگارجارج ویلر نے اپنے اخبار کے ذریعے دنیا بھرکوسنائی، تین سال سے جاپان کی قید میں ہونے کے باعث لاغر ہو چکے تھے۔
امریکی اخبار ڈیلی نیوز میں چھپی، مسافر اور مال بردار جہاز اوریوکو مارو کے سفرکی یہ کہانی 13 دسمبر 1944 کو شروع ہوئی جب قیدی فلپائن کے شہر منیلا سے جاپان روانہ کیے گئے۔
ویلر نے لکھا کہ ’قیدی اگر جانتے کہ اس سفرمیں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے کہ کچھ اگلی صبح سے پہلے ہی دم گھٹنے سے مر جائیں گے تو بہت سے لوگ بلاشبہ اپنے جاپانی محافظوں کی سنگینوں سے فوری موت کا انتخاب کرتے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’یوکو مارو کے تین ہولڈ (سامان وغیرہ رکھنے کی جگہیں) بے ہوا، گندے گڑھوں جیسے تھے، جن میں قیدیوں نے زندگی کی جنگ لڑی۔ کچھ پہلے ہی دن دم گھٹنے سے زندگی ہار چکے تھے، کچھ ہوا اور روشنی کے لیے چِلاتے، لاشوں کے درمیان رہتے پاگل ہو گئے، سب تقریباً ننگے، بھوکے پیاسے اور بیمار تھے۔‘
جان جیکبز بھی دوسرے قیدیوں کی طرح منیلا کی بلی بڈ جیل سے اس جہاز پرلائے گئے تھے۔
جیکبز کو جس ہولڈ میں پھینکا گیا وہ اتنا پرہجوم نہیں تھا لیکن دوسرے ہولڈز میں قیدیوں کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ انھیں سانس لینے کے لیے ہوا بھی نہیں ملتی تھی۔
’وہ پاگل ہو گئے، بازوؤں اور ٹانگوں پر ایک دوسرے کو کاٹ کاٹ کر ان کا خون چوستے۔ مرنے سے بچنے کے لیے لوگ سیڑھی چڑھتے تو انھیں اوپر سے محافظ گولی مار دیتے۔ 20 سے 30 کے درمیان قیدی یا دم گھٹنے سے مر گئے یا رات کو قتل کر دیے گئے۔‘
لیکن میکنو کا کہنا تھا کہ پھر بھی زیادہ تر اموات امریکی اور اتحادی بحریہ کے بحری جہازوں، آبدوزوں اور ہوائی جہازوں کے نام نہاد ’فرینڈلی فائر‘ کے نتیجے میں ہوئیں۔
’تقریباً 1,540 اتحادی جنگی قیدیوں کی موت ان بحری جہازوں پر حالات اور تشدد کے نتیجے میں ہوئی۔ 19,000 سے زیادہ اموات اتحادیوں کے حملوں کے نتیجے میں ہوئیں۔‘
’یہ نام نہاد دوستانہ حملے ہمیشہ حادثاتی نہیں ہوتے تھے۔ بظاہر بعض اوقات جنگی قیدیوں کے بارے میں فکر کرنے سے زیادہ جاپانی بحری جہازوں کو ڈبونا زیادہ ضروری تھا۔‘
یوکو مارو پر کئی حملے کیے گئے۔ جیکبز سمیت تقریباً 300 امریکی ہی اس بحری جہاز سے زندہ نکل پائے۔ اور سنہ 1945کے دوران میں 17 ایسے بحری جہاز تھے جو امریکی حملوں میں ڈوبے۔ یوکومارو بھی دوسرے جہازوں کی طرح ایک ایسا ہی بحری جہازتھا، جسے سنہ 1942 میں جاپانی سمجھ کرہدف بنایا گیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جاپانی ٹرانسپورٹ بحری جہاز بویو مارو ایک قافلے میں امبون کے راستے 1,126 فوجیوں اور 269 ہندوستانی جنگی قیدیوں کو لے کر سنگاپور جا رہا تھا کہ 26 جنوری 1943 کو امریکی آبدوز واہو نے دیکھا اور اسے تارپیڈو مار کر ڈبو دیا ۔
16ویں پنجاب رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے 195 ہندوستانی جنگی قیدی اور 87 جاپانی ہلاک ہوئے۔ 18 ستمبر 1944 کو مثال کے طور پر ایک برطانوی آبدوز نے جاپانی ’جہنم نما‘ جہاز جونیو مارو کو تارپیڈو مار کر ڈبو دیا۔ تقریباً 6,000 لوگ مر گئے جن میں 4,120 جاوا کے مزدور اور 1,520 اتحادی جنگی قیدی تھے۔
مگر یوکومارو یوں منفرد تھا کہ اس کے واقعات کو بہت تفصیل سے دستاویزی شکل دی گئی۔ یوکو مارو کے بچ جانے والوں کو اولونگاپو نیول سٹیشن کے ڈبل ٹینس کورٹ میں رکھا گیا۔
آرکائیوسٹ لی گلیڈون کے مطابق پہلے دو دن کوئی خوراک یا طبی امداد فراہم نہیں کی گئی۔‘ اس کے بعد انھیں روزانہ پانچ چمچ کچے چاول اور ٹینس کورٹ کے نلکے سے کچھ پانی پینے کی اجازت دی گئی۔ 21 دسمبر کو جنگی قیدیوں کو اولونگاپو نیول سٹیشن سے سان فرنانڈو، پامپانگا لے جایا گیا، جہاں انھیں ایک جیل اور فلم تھیٹر میں بند کر دیا گیا۔‘
’جاپانی لیفٹیننٹ جنسابورو توشینو نے لیفٹیننٹ کرنل ای کارل اینجل ہارٹ کو بتایا کہ وہ قیدی جو زخموں کے باعث سفر جاری رکھنے کے قابل نہیں تھے ان میں سے پندرہ کا انتخاب کیا گیا۔ 22 دسمبر کو ان کو ایک قبرستان میں قتل کر کے ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔‘
’باقی قیدیوں کو ٹرینوں میں لاد کر سان فرنینڈو، لا یونین بھیج دیا گیا۔ تیز دھوپ میں ان کی پیاس اتنی خوفناک تھی کہ بہت سوں نے سمندر کا پانی پیا، جس سے ان میں سے اکثر مر گئے۔‘
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر فاتح اتحادی طاقتوں نے یورپ اور ایشیا بھر میں جنگی جرائم کے مقدمات چلائے۔ فلپ آر پِکیگلو ان مقدموں کا احاطہ کرتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1945 سے سنہ 1951 تک اتحادی فوجی عدالتوں نے ایشیا میں تقریباً 2200 مقدمات چلائے جن میں 3000 جاپانیوں کو قید اور 920 دیگر کو موت کی سزا سنائی گئی۔
وقت بدلا 2023 کی جس مہم میں آسٹریلیا کے قیدیوں کے ساتھ ڈوبے جہاز مونٹیویڈیو مارو کے ملبے کا پتا چلا اس میں ماہرین کے مطابق جاپان نے اپنی تحقیق سے مدد کی۔
آسٹریلوی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ کموڈور ٹم براؤن نے پچھلے 18 مہینے فنڈ ریزنگ اور مہم کی منصوبہ بندی میں مدد کی۔ انھوں نے امریکی صحافی الیکس ولسن کو بتایا کہ جاپان نے مہم جوؤں کی مسلسل حوصلہ افزائی بھی کی۔
براؤن کا کہنا تھا کہ خیرسگالی کے اس طرح کے اظہار سے زخم بھرنے میں مدد ملتی ہے۔
Comments are closed.