آسٹریلیا کے دورۂ پاکستان کے باوجود آسٹریلوی کرکٹرز کا انڈیا میں آئی پی ایل میں شرکت کا راستہ کیسے نکالا گیا؟
- عبدالرشید شکور
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
فرنچائز کرکٹ اور وہ بھی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) ہو تو کرکٹرز اس کی چمک دمک سے بھلا کیسے دور رہ سکتے ہیں؟
کھلاڑی ہی نہیں کرکٹ بورڈ بھی آئی پی ایل کی چمک دمک اور سب سے بڑھ کر انڈین کرکٹ بورڈ کے اثر و رسوخ کے سامنے خاموش ہو جاتے ہیں۔
چوبیس برس کے بعد پاکستان آنے والی آسٹریلوی ٹیم میں بھی متعدد ایسے کھلاڑی ہیں جو آئی پی ایل کا حصہ ہیں لیکن آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کی پالیسی کے تحت وہ پاکستان کا دورہ ختم ہونے پر ہی آئی پی ایل میں شامل ہو سکتے ہیں۔
آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کی یہ پالیسی ہے کہ جب تک انٹرنیشنل کرکٹ ہو رہی ہو اس کا کوئی بھی کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑی فرنچائز کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔
لیکن چونکہ آسٹریلوی ٹیم کا دورۂ پاکستان ایسے وقت میں ہو رہا ہے جس سے آئی پی ایل بھی متصادم ہے لہذا آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے ایک راستہ نکالا کہ اس پالیسی کے تحت ہی کھلاڑی آئی پی ایل سے بھی محروم نہ رہیں اور اپنی قومی ڈیوٹی بھی ادا کرلیں۔
اب اسے آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کا ذہین قدم ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے تین اہم کھلاڑیوں کو پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں آرام کے نام پر اپنی پالیسی کو بھی سرخرو رکھا اور آئی پی ایل میں ان کی شرکت کو بھی ممکن بنا دیا۔
آئی پی ایل میں شامل آسٹریلین کھلاڑی
پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی آسٹریلوی ٹیسٹ ٹیم میں شامل اوپنر ڈیوڈ وارنر، فاسٹ بولرز جوش ہیزل ووڈ اور کپتان پیٹ کمنز آئی پی ایل کھیلیں گے۔
ڈیوڈ وارنر کو دہلی کیپٹل نے سوا چھ کروڑ انڈین روپے کے عوض حاصل کیا ہے جب کہ کپتان پیٹ کمنز کو حاصل کرنے کے لیے کولکتہ نائٹ رائیڈرز نے سوا سات کروڑ انڈین روپے ادا کیے ہیں۔ جوش ہیزل ووڈ کی خدمات رائل چیلنجرز بنگلور نے پونے آٹھ کروڑ انڈین روپے میں حاصل کی ہیں۔
ان تینوں ہی کھلاڑیوں کو پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں شامل نہیں کیا گیا۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ سیریز 25 مارچ کو ختم ہو گی جس کے بعد تین ون ڈے انٹرنیشنل میچ 29 ، 31 مارچ اور تین اپریل کو کھیلے جائیں گے۔ اس دورے کا واحد ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشل میچ پانچ اپریل کو کھیلا جائے گا۔
ڈیوڈ وارنر، جوش ہیزل ووڈ اور پیٹ کمنز چھ اپریل سے آئی پی ایل میں ایکشن میں نظر آئیں گے جس کا آغاز 26 مارچ سے ہو گا۔
کپتان پیٹ کمنز
آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے آئی پی ایل میں حصہ لینے والے کرکٹرز کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز ختم ہونے کے بعد انڈیا جا کر وہاں آئی پی ایل کے لیے درکار قرنطینہ مکمل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں شامل نہ کیے جانے والے ان تین کرکٹرز ڈیوڈ وارنر، جوش ہیزل ووڈ اور پیٹ کمنز کے علاوہ بھی متعدد آسٹریلوی کرکٹرز اس سال آئی پی ایل کھیل رہے ہیں۔ ان میں پانچ کرکٹرز مارکس اسٹوئنس، شان ایبٹ، نیتھن ایلز، جیسن بیرن ڈورف اور مچل مارش ایسے ہیں جو پاکستان کے خلاف اعلان کردہ ون ڈے ٹیم میں بھی شامل ہیں۔
یہ پانچوں کرکٹر پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز ختم کر کے انڈیا جائیں گے اور قرنطینہ مکمل ہونے پر آئی پی ایل کھیل پائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
فرنچائز اور انٹرنیشنل کرکٹ میں توازن
یہ بحث نئی نہیں کہ کرکٹرز اپنی قومی ڈیوٹی پر فرنچائز کرکٹ کو کیوں فوقیت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کی بڑی وجہ پیسہ ہے جو کرکٹرز کو انٹرنیشنل کرکٹ کے مقابلے میں فرنچائز کرکٹ اور وہ بھی آئی پی ایل میں بہت زیادہ ملتا ہے۔
یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ سال جب پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کے دورے پر تھی تو جنوبی افریقہ کے متعدد کھلاڑی سیریز کے دوران ہی قومی ٹیم چھوڑ کر آئی پی ایل کھیلنے چلے گئے تھے۔
پاکستان کے سابق فاسٹ بولر وقار یونس بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ʹوقت کے ساتھ ساتھ کرکٹ میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں اور سب سے بڑی تبدیلی ٹی ٹوئنٹی فرنچائز کرکٹ ہے۔ فرنچائز کرکٹ اس کھیل کے لیے بہت اچھی ہے کیونکہ اس سے کھلاڑیوں کے معیار زندگی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔‘
وقاریونس کا کہنا ہے ʹکسی بھی نوجوان کرکٹر کے لیے یہ روزی کمانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ جب کرکٹ شروع کرتا ہے تو اس کے لیے کرکٹ صرف کھیل سے محبت والی بات ہوتی ہے لیکن جب وہ پروفیشنل کرکٹ میں آتا ہے تو اسے معاشی طور پر خود کو اور اپنی فیملی کو مستحکم کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ اور یہ سوچ غلط بھی نہیں ہے کہ اسے پیسے بنانے ہیں لیکن اس میں بڑوں کا کام اہم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی کس طرح رہنمائی کرتے ہیں۔ʹ
’ہر کرکٹر آئی پی ایل کھیلنے کی خواہش رکھتا ہے اور کیوں نہ کرے‘
وقار یونس کہتے ہیں ʹیہ کرکٹ بورڈز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کرکٹرز کے لیے انٹرنیشنل اور فرنچائز کرکٹ میں کس طرح توازن قائم رکھتے ہیں کہ کھلاڑیوں کا مالی نقصان بھی نہ ہو اور انٹرنیشنل کرکٹ بھی جاری رہے۔
کچھ کرکٹ بورڈ اپنی ٹیسٹ کرکٹ کو بچانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں جیسا کہ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے دورے کے پیش نظر اپنے کرکٹرز کو آئی پی ایل میں جانے کی اجازت پاکستان کی سیریز کے بعد دی ہے۔ʹ
وقاریونس کا کہنا ہےʹ آئی پی ایل سب سے بڑی لیگ ہے۔ ہر کرکٹر اس میں کھیلنے کی خواہش رکھتا ہے اور کیوں نہ کرے۔ اگر ہم انڈین کرکٹرز کی بات کریں تو وہ صرف آئی پی ایل ہی کھیلتے ہیں کیونکہ انڈین کرکٹ بورڈ ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے لہذا انھیں کسی دوسری لیگ میں کھیلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
بی سی سی آئی نے فرنچائز کرکٹ اور اپنی انٹرنیشنل کرکٹ کو صحیح طریقے سے متوازن رکھا ہے۔‘
’کرکٹرز کو روکنا ممکن نہیں‘
سابق وکٹ کیپر راشد لطیف کہتے ہیں ʹکسی بھی کرکٹر کو فرنچائز کرکٹ سے روکنا ممکن نہیں۔ اگر کسی کرکٹر کو فرنچائز کرکٹ میں اچھے پیسے مل رہے ہیں تو وہ ملک کی بجائے فرنچائز کرکٹ کو ترجیح دے گا اور یہ اس کا حق ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کسی بھی کرکٹرکو پابند نہیں کرسکتے کہ وہ ملک کی طرف سے کھیلے۔ اس کی مثال فٹبال کی ہے جس میں یہ چیز بہت پہلے ختم کر دی گئی یہی وجہ ہے کہ ملک سے کنٹریکٹ نہیں ہوتا، کلب سے کنٹریکٹ ہوتا ہے۔ʹ
راشد لطیف کا کہنا ہے ʹہم آئی پی ایل اور پی ایس ایل کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہ ذمہ داری ملکوں پر عائد ہوتی ہے۔ ایک ٹیسٹ میچ کی فیس کتنی ہے؟ اس کے برعکس ایک کھلاڑی کو فرنچائز کرکٹ میں کتنا معاوضہ ملتا ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’میں کرس جارڈن کی مثال دے سکتا ہوں۔ کراچی کنگز کی طرف سے کھیلنے کا اس کا ایک میچ کا معاوضہ 15 ہزار ڈالر بن رہا تھا۔ یہ وہ واضح فرق ہے جس کی وجہ سے آج کل کرکٹرز فرنچائز کرکٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ کرکٹ بورڈز ٹیسٹ اور ون ڈے میچ کی فیس اتنی کر دیں تو پھر کوئی بھی کرکٹر فرنچائز کرکٹ میں نہیں جائے گا۔‘
Comments are closed.