دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہونے کے باوجود جاپان ڈیفالٹ کیوں نہیں کرتا؟

japan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گذشتہ سال ستمبر کے آخر تک جاپان اس حد تک مقروض ہو چکا تھا کہ قرضوں کے اس حجم کو سُن کر ہی آپ دنگ رہ جائیں گے اور بڑی بات یہ ہے کہ قرضوں کا یہ بوجھ یہاں رُکے گا نہیں بلکہ مستقبل میں بڑھتا ہی جائے گا۔

جاپان پر قرضوں کا مجموعی حجم 9.2 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو اُس کے جی ڈی پی کا 266 فیصد ہے۔ قرضے کی یہ رقم دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔

مثلاً اگر جاپان کے مقابلے میں امریکہ کے قرضوں کاحجم دیکھا جائے تو یہ 31 کھرب ڈالر ہے مگر یہ رقم امریکہ کے ٹوٹل جی ڈی پی کے صرف 98 فیصد کے برابر ہے۔

japan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

قرضوں کے اتنے بڑے حجم کی وجہ کیا ہے؟

قرضوں کے اتنے بڑے حجم کے یہاں تک پہنچنے کا سفر چند سال کا نہیں بلکہ ملکی معیشت کو رواں رکھنے اور اخراجات پورا کرنے کی جدوجہد کی مد میں لیے گئے قرضوں کا بوجھ بڑھنے میں کئی دہائیاں لگی ہیں۔

جاپان کے شہری اور معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے کاروباری ادارے قرضوں کے استعمال میں ہچکچاتے ہیں جبکہ ریاست اکثر انھیں خرچ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے نان ریزیڈینٹ سینیئر فیلو تاکیشی تاشیرو کا کہنا ہے کہ ’لوگ اپنے طور پر بہت زیادہ بچت کرتے ہیں مگر اس کے مقابلے میں مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کا رواج نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ جاپان میں بڑی آبادی کا عمررسیدہ یا بزرگی کی عمر میں ہونا ہے جس کے باعث حکومت کے سوشل سکیورٹی اور صحت کی خدمات پر اٹھنے والے اخراجات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ جاپان کی بیشتر آبادی کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ بے یقینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے وہ ذاتی بچت کو ترجیح دیتے ہیں۔

تاہم قرضے کہ اس بڑے حجم کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لیے جاپان پر بھروسہ کرتے ہیں۔

جاپان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بڑے حجم کے اس قرض کی وضاحت

جاپان پر قرض کا بوجھ بڑھنے کا آغاز نوے کی دہائی کے آغاز میں ہوا جب اس کے مالیاتی نظام اور رئیل سٹیٹ کا نظام تباہ کن نتائج کے ساتھ بلبلے کی مانند پھٹ گیا۔ اور اسی وقت جاپان پر قرض کی شرح اس کے جی ڈی پی کے صرف 39 فیصد کے برابر تھی۔

اس صورتحال کے باعث حکومت کی آمدنی میں کمی آئی جبکہ دوسری جانب اخراجات میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔

چند ہی برسوں میں یعنی سال 2000 تک جاپان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ کر اس کے جی ڈی پی کے 100 فیصد تک آ گیا تھا جو 2010 تک مزید دوگنا بڑھ گیا۔

دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت نے اسی رفتار سے آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا جس میں 2008 کی عالمی کساد بازاری، 2011 میں جاپان میں آنے والے زلزلے، سونامی اور حال ہی میں کورونا کی عالمی وبا نے اپنا حصہ ڈالا۔

جاپان ان واقعات کے اثرات کو کم کرنے اور اپنے مالیات کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بانڈز فروخت کرتا ہے تاکہ تعلیم، صحت اور دفاع جیسے شعبوں کے لیے سالانہ بجٹ کو برقرار رکھا جا سکے۔

باالفاظ دیگرجاپان اپنا قرض بین الاقوامی منڈیوں میں اس وعدے کے ساتھ بانڈز کی صورت میں فروخت کر دیتا ہے کہ وہ ناصرف سرمایہ کاروں کی مکمل رقم بلکہ اس پر کچھ نہ کچھ منافع مکمل طور پر سرمایہ کار کو واپس کر دے گا۔

japan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مستحکم اور پُرکشش

جاپان کی اس یقین دہانی کے بعد سرمایہ کار اپنا پیسہ وہاں لگاتے ہیں، خاص طور پر وہ انتہائی قدامت پسند عالمی سرمایہ کار جنھیں اگرچہ منافع تو کم ملتا ہے مگر اصل رقم انتہائی محفوظ رہتی ہے۔

جاپان میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی کے حوالے سے تاشیرو مزید کہتے ہیں کہ ’ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے آفر کیے جانے والے بانڈز (قرض دینے والے ادارے) قرضوں کی ضمانت کے طور پر بآسانی استعمال کر سکتے ہیں (اس لیے وہ محفوظ سرمایہ کاری نہیں سمجھی جاتی)‘۔

تاہم، قرض کا حجم ملک کی مجموعی معیشت کے حجم سے تقریباً ڈھائی گنا زیادہ ہو تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کو اس بڑی رقم کی ادائیگی میں یقینی طور پر مشکل پیش آئے گی؟

ماہرین کے مطابق قرضوں کے اس بڑھتے حجم کے باوجود ملک کے ڈیفالٹ میں نہ جانے کی وجہ یہ ہے کہ جاپان سرکاری بانڈز پر دیے جانے والا منافع انتہائی کم رکھتا ہے مگر دوسری جانب محفوظ سرمایہ کاری کی مارکیٹ میں اس پر بہت زیادہ اعتماد اور بھروسہ کیا جاتا ہے۔

ماہر اقتصادیات شی ناگائی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بعض سرمایہ کار ایسے ہوتے ہیں جو زیادہ منافع کے بجائے سرمایہ کاری کے محفوظ ہونے اور استحکام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور وہ اپنی اضافی بچت کو محفوظ بنانے کے لیے وہ جاپان کا انتخاب کرتے ہیں۔‘

Japan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کم ادائیگی

ولیمز کالج میساچوسٹس کے معاشیات کے پروفیسر کین کٹنر کہتے ہیں کہ ’جاپان نے قرضوں پر شرح سود انتہائی کم رکھی ہے۔ قرض کی سطح بہت زیادہ ہونے کے باوجود حکومت اپنے قرض دہندگان کو نسبتاً کم سود ادا کرتی ہے۔ اور یہ حکمت عملی غیر معینہ مدت تک بلند قرض کو برقرار رکھ سکتی ہے۔‘

اہم بات یہ بھی ہے کہ جاپان کا زیادہ تر قرض غیر ملکی کرنسی میں نہیں بلکہ جاپان کی اپنی کرنسی یعنی ’ین‘ میں ہے۔

پروفیسر کین کٹنر کہتے ہیں کہ قرض اپنی کرنسی میں ہونے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جاپان کے مرکزی بینک کو بین الاقوامی منڈیوں میں ہر کچھ عرصے بعد ہونے والے اُتار چڑھاؤ سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ درحقیقت جاپان پر موجود قرض کا 90 فیصد سرمایہ کاری کرنے والوں نے خرید رکھا ہے۔

پروفیسر کٹنر کا کہنا ہے کہ زیادہ جاپانی قرضہ غیر ملکیوں کے پاس نہیں ہے، اُن کے مطابق پچھلی بار جب انھوں نے چیک کیا تھا تو ’یہ تقریباً 8 فیصد تھا۔ اس کا زیادہ تر حصہ جاپانی مالیاتی اداروں اور بینک آف جاپان کے پاس ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ اقدام بنیادی طور پر حکومتی خسارے کو موناٹائز کرتا ہے۔ چنانچہ سادہ الفاظ میں جاپانی حکومت  جب بانڈز فروخت کرتی ہے، تو اس کا مرکزی بینک وہ خرید لیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

japan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس پالیسی کے تحت، بینک آف جاپان طویل مدتی شرح سود کو کم رکھنے کے لیے بڑی مقدار میں سرکاری قرضہ خرید رہا ہے، جس سے معیشت کو رواں دواں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

پروفیسر کٹنر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’نتیجتاً، حکومت کو اپنے جاری کردہ تمام قرضوں کے لیے نجی شعبے کے سرمایہ کار تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، اور بانڈز پر ادا کیا گیا سود مرکزی بینک کے ذریعے حکومت کو واپس چلا جاتا ہے۔

یہ بنیادی طور پر حکومتی خسارے کو موناٹائز کر رہا ہے، جو عام طور پر کسی بھی معیشت کو بلند افراط زر کی جانب لے جاتا ہے مگر جاپان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہواوراس لیے جب کہ باقی دنیا میں شرح سود میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے تو جاپان میں شرح سود کم ہی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ