اسلام آباد کی عدالت کے جج نے خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وارنٹِ گرفتاری 16 مارچ تک معطل کر دیے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی کی عدالت میں عمران خان کے وکلاء پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ عمران خان پر لگائی گئی تمام دفعات قابلِ ضمانت ہیں۔
جج نے سوال کیا کہ اس سے پہلے کیا قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری ہوئے تھے؟
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ اس سے پہلے خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری نہیں ہوئے۔
عدالت نے عمران خان کے وکلاء کو دستاویزات ٹھیک کر کے دینے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ 15 منٹ سے پڑھ رہا ہوں مجھے آپ کی طرف سے دی گئی دستاویزات سمجھ نہیں آ رہیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان سابق وزیرِ اعظم ہیں، انہیں سیکیورٹی مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، حکومت نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے۔
جج نے سوال کیا کہ کوئی ایسا خط ہے آپ کے پاس جس میں لکھا ہو کہ عمران خان کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے؟
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ میں آپ کو مہیا کر دیتا ہوں۔
جج نے کہا کہ آپ کل تک مہیا کر دیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں طلب کر رکھا تھا۔
جج نے کہا کہ عمران خان کی الیکشن مہم تو شروع ہے۔
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ عمران خان جوڈیشل کمپلیکس میں پیش ہوئے۔
جس پر ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدرگیلانی نے سوالات کیے کہ عمران خان جوڈیشل کمپلیکس میں پیش ہوئے لیکن کچہری میں تو پیش نہیں ہوئےناں؟ کچہری میں 2014ء میں حملہ ہوا، کیا اس کے بعد کچہری شفٹ ہوئی؟ عمران خان کی حکومت تھی لیکن پھر بھی کچہری شفٹ نہیں ہوئی، آپ نے اپنے دورِ حکومت میں کچہری کو شفٹ نہیں کروایا۔
جج نے ریمارکس میں کہا کہ تحریکِ انصاف نام تو ہے لیکن کیا کیا ہے؟ باتیں تو بہت ہوتی ہیں، تحریکِ انصاف کا کوئی ایک لیگل ریفارم بتا دیں؟
جج نے کہا کہ کچہری میں عمران خان پہلے بھی آ چکے ہیں، دوبارہ بھی آ سکتے ہیں، انہیں کیس کی نقول فراہم کرنی تھیں، اس لیے عدالت نے بلایا تھا، ذاتی حیثیت میں ملزم کو کیس کی نقول فراہم کی جاتی ہیں، کسی اور کو نہیں کی جاتیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ دفعات قابلِ ضمانت ہیں یا نہیں، اس کا وارنٹِ گرفتاری سے تعلق نہیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے، یہی میرا کیس ہے۔
جج نے کہا کہ سیکیورٹی تو واپس لے لی گئی لیکن کوئی خط تو دے دیں عدالت کو۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پنجاب حکومت نے جو سیکیورٹی واپس کی اس کا خط عدالت میں جمع کروا دیتا ہوں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ 21 مارچ کی تاریخ دے دیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ویڈیو لنک کی درخواست کی ہے۔
جج نے کہا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ ویڈیو لنک پر کیا ہونا ہے، پھر 2 ماہ کی تاریخ دے دیتا ہوں۔
عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ نجی مصروفیات کے باعث کل پیش نہیں ہو سکتا، پرسوں کی تاریخ دے دیں۔
عدالت نے پولیس کو 16 مارچ تک عمران خان کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔
اسلام آباد کی عدالت نے پی ٹی آئی کے وکلاء کو سیکیورٹی واپس لینے سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔
عدالت نے خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں عمران خان کے وارنٹِ گرفتاری 16 مارچ تک معطل کر دیے اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 16 مارچ تک ملتوی کر دی۔
اس سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اپنے خلاف جاری ہونے والے ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری کو آج ہی چیلنج کیا تھا۔
سیشن جج طاہر محمود کے رخصت پر ہونے کے باعث ڈیوٹی جج سکندر خان کی عدالت میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جانب سے درخواست دائر کی گئی۔
ڈیوٹی جج سکندر خان نے درخواست ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی کو مارک کر دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز خاتون جج کو دھمکی دینے سے متعلق کیس میں عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔
Comments are closed.