مور چوری کرنے کے الزام میں حیدر آباد میں مختیار کار کے مالی عثمان سومرو کی جان چلی گئی، سومرو برادری کے درجنوں افراد نے مختیار کار کے گھر پر حملہ کردیا، لاش رکھ کر حیدر آباد بائی پاس پر دھرنا بھی دیا، پولیس نے مختیار کار اور اس کے بھائی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔
پولیس نے مختیار کار قاسم آباد کے گھر سے ملازم کی لاش ملنے کے واقعہ کا مقدمہ درج کرلیا، قتل کا مقدمہ متوفی عثمان سومرو کے والد کی مدعیت میں مختیار کار اور اس کے بھائی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ میرا بیٹا عثمان تقریباً دو سال سے مختیار کار ماجد خاصخیلی کے گھر پر کام کرتا تھا، کچھ روز قبل مختیار کار ماجد خاصخیلی کی اوطاق سے مور گم ہوگیا تھا، ماجد خاصخیلی نے میرے بیٹے پر مور چوری کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ڈی آئی جی حیدرآباد شرجیل کھرل کے مطابق احتجاج کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب قاسم آباد میں مختیار کار ماجد خاصخیلی کے گھر سے مبینہ طور پر عثمان سومرو نامی نوجوان کی لاش ملی جو بنگلے میں مالی تھا۔
لاش کے پاس سے ایک رائفل ملی عثمان سومرو کے گلے پر گولی کا نشان تھا۔ لاش ورثاء کے حوالے کی گئی تو ورثاء نے الزام عائد کیا کہ عثمان سومرو کو مور چوری کرنے کے الزام میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ہے۔
سومرو برادری کے درجنوں مشتعل افراد نے مختیار کار کے بنگلے پر حملہ کردیا گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور ماجد خاصخیلی اور ان کے بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
اطلاع ملنے کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے مختیار کار کو ہجوم سے نکالنے کی کوشش کی تاہم مشتعل افراد نے ایس ایچ او نسیم نگر کو سر پھاڑ کر زخمی کردیا۔
مشتعل افراد نے عثمان سومرو کی لاش رکھ کر بائی پاس پردھرنا دے دیا اور ٹائر جلا کر شاہراہ کو بلاک کردی۔
صوبائی وزیر جام خان شورو کے بھائی کاشف شورو کی جانب سے مختیار کار کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کے بعد ورثاء نے احتجاج ختم کردیا۔
ایس ایس پی ساجد امیر کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ عثمان سومرو کا واقعہ قتل ہے یا خودکشی تاہم جس وقت تفتیش ٹیم کرائم سین پر شواہد اکٹھا کررہی تھی اس وقت ہجوم نے شواہد ضائع کیے۔ پولیس پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد تفتیش کرے گی۔
Comments are closed.