حلبجہ بمباری: صدام حسین کا اپنے ہی شہریوں پر کیمیائی گیسوں کا وہ حملہ جو عراق آج تک نہیں بھول پایا
- مصنف, جان سمسن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
آج سے لگ بھگ 36 برس قبل عراقی فوج نے عراق ہی کے کرد اکثریتی قصبے حلبجہ پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی ہزاروں شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
16 مارچ 1988 کو حلبجہ پر کیمیائی حملے کے بعد کے مناظر میری زندگی کے اب تک کے سب سے خوفناک مناظر تھے۔ متاثرہ علاقے میں جگہ جگہ لاشیں اور انسان گرے پڑے تھے۔
جب میں نے ان مناظر کو قریب سے دیکھا تو ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جو موت آنے سے قبل اپنے کسی عزیز کی حفاظت کر رہے تھے، کسی کے پاس ایک بچہ تھا تو کوئی اپنی بیوی کو لیے بیٹھا تھا۔
صدام حسین کی جانب سے حلبجہ کی کرد آبادی کو سبق سکھانے کے لیے ان پر استعمال کیے جانے والے کیمیائی ہتھیاروں سے خارج ہونے والی اعصاب شکن گیسوں سے کوئی بچ نہیں سکا تھا۔
میں نے اس سے قبل ایران عراق جنگ میں فوجیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے نتائج دیکھے تھے وہ کافی خوفناک تھے لیکن ان خطرناک گیسوں نے مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ کیا کیا، یہ دیکھنا انتہائی دلخراش تھا۔
وہ کیمیائی ہتھیار جو عراقی فضائیہ نے استعمال کیے تھے ان کا تقریباً فوری اثر ہوتا تھا۔ میں نے ایک گھر دیکھا جہاں بم ایک کمرے کی چھت سے گھر میں گرایا گیا تھا جہاں کئی لوگ کھانا کھا رہے تھے۔
اس حملے میں سب مارے گئے تھے لیکن یہ واضح طور پر ایک، دو سکینڈ کے انتہائی مختصر وقت میں ہوا تھا۔ ایک بوڑھا شخص کھانا کھاتے کھاتے ہلاک ہوا جبکہ دوسرا مسکرا رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی لطیفے کے دوران ہی انھیں کاٹ دیا گیا ہو (یعنی انھیں حملے کے نتیجے میں سنبھلنے کا موقع تک نہ ملا) جبکہ دیگر افراد آہستہ آہستہ اور انتہائی تکلیف دہ درد کی شدت برادشت کرتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔
میں نے ایک عورت کو بھی دیکھا تھا جس کا پورا جسم ایک گول دائرے کی طرح مڑ چکا تھا، اس کا سر اس کے پیروں کو چھ رہا تھا۔ اس کے کپڑوں پر قے اور خون کے نشان تھے اور اس کا چہرہ تکلیف اور اذیت کے تاثرات سے بھرا پڑا تھا۔
یہ لوگ کیوں مرے؟ کیونکہ اس قصبے میں رہنے والوں نے ایران، عراق جنگ کے آخری ہفتوں میں پیش قدمی کرنے والے ایرانی فوجیوں کا خوشی سے استقبال کیا تھا۔ صدام حسین اور ان کے کزن علی حسن الماجد، جو ’کیمیکل علی‘ کے نام سے مشہور تھے، نے ان کو عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
عراقی فضائیہ نے اس قصبے پر بمباری کے دوران مختلف قسم کی گیسوں اور کیمیکلز کا استعمال کیا تھا جن میں اعصاب شکن ایجنٹ ’وی ایکس‘، ’سارن‘ اور ’تابن‘ تھے جبکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک مسٹرڈ گیس کا استعمال بھی کیا گیا تھا جس کی تاریخ ہمیں پہلی عالمی جنگ سے بھی ملتی ہے۔
خلبجہ میوزیم میں اس بمباری کی منظر کشی کی گئی ہے
اس وقت حلبجہ پر جو بم استعمال کیے گئے تھے انھیں آج کل شہر کے عجائب گھر میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے بموں میں پنکھے لگے ہوئے تھے جو مختلف کیمیکلز کو آپس میں مکس کرتے تھے۔
حلبجہ پر گیس حملے سے پہلے دو دن تک اس علاقے پر روایتی بمباری کی گئی تھی، ایسا لگتا تھا کہ جیسے علی حسن الماجد شہر کے درو دیوار اور کھڑکیاں توڑنا چاہتے تھے تاکہ گیس کے پھیلاؤ میں کوئی رکاوٹ نہ ہوں۔
میں ایرانی فضائیہ کے ذریعے دیگر غیر ملکی صحافیوں کے گروہ کے ساتھ حلبجہ پہنچا تھا۔
ایرانی حکومت کو دنیا کو وہ جرائم دکھا کر جو صدام حسین نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیے تھے، پراپیگنڈے کا ایک موقع ملا تھا۔
ایرانی حکام نے بمباری سے زندہ بچ جانے والوں کو اپنے عزیزوں کو دفنانے سے روک دیا تھا تاکہ ہمارے پہنچنے پر وہ ہمیں یہ سب دکھا سکے۔
حلبجہ میں کتنے لوگ مارے گئے تھے؟ میں نے بیلجیئم کے ایک کیمیائی جنگ کے ماہر کے ساتھ گھومتے پھرتے لاشوں کی گنتی کی۔
ہمارے پاس وقت کم تھا کیونکہ عراقی جانتے تھے کہ ہم وہاں پر موجود ہیں، جب ہم آ رہے تھے تو ہمارے ہیلی کاپڑوں پر فائرنگ کی گئی تھی اور شاید ہمارے خلاف مزید کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے لیے ان کی فضائیہ کے وہاں حملے کا خطرہ تھا۔
لامحالہ جلد بازی میں ہماری لاشوں کی گنتی نامکمل رہ گئی لیکن ہمیں ایسا لگا کہ شہر بھر میں کم از کم پانچ ہزار لاشیں پڑی ہوئی تھیں جبکہ دیگر افراد پہاڑوں کو عبور کر کے ایران جانے کی کوشش میں شہر کے مضافات میں مارے گئے تھے۔
اگرچہ ہلاکتوں کی یہ تعداد مبہم اور نامکمل تھی لیکن اس حملے کے مختلف ماہرین نے اس تعداد کو تسلیم کیا تھا لیکن آج بھی اتنا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی اس حملے کی دہشت ختم نہیں ہوئی۔
اس حملے میں استعمال کی جانے والی مسٹرڈ گیس کے کچھ آثار آج بھی شہر کی ان کوٹھریوں میں موجود ہیں جہاں اس وقت لوگوں نے ببماری کے دوران پناہ لی تھی۔
اعصاب شکن گیس جو بہت تیزی سے بخارات بن کر اڑ جاتی ہے، کے برعکس مسٹرڈ گیس ہوا سے زیادہ بھاری ہوتی ہے اور یہ نیچے بیٹھ جاتی ہے جو آج بھی خطرناک ہے۔
جب میں اور میری ٹیم ایک گھر کی سیڑھیوں سے نیچے تہہ خانے میں گئے تو وہاں پرانے قالین میں موجود گیس کی باقیات سے ہماری آنکھوں میں چبھن شروع ہو گئی اور گھنٹوں بعد تک ہمیں سر درد میں مبتلا کر دیا۔
وہاں فرش پر چند چوہوں کی گلی سڑی لاشیں اور ایک بلی کا ڈھانچہ پڑا تھا جو گیس میں سانس لینے سے مر گئے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ حال ہی میں ایک قریبی تہہ خانے میں ایک شخص گیس سونگھنے سے ہلاک ہوا تھا۔
کیمیائی جنگ کے معروف برطانوی ماہر، ہمیش ڈی بریٹن گورڈن، جو برطانیہ کی فوجی سائنسی سہولت پورٹن ڈاؤن میں کام کرتے تھے، کرد حکومت کے ساتھ اس بات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ حلبجہ کو کیمیائی گیس کی باقیات اور آلودگی سے پاک کیسے کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہاں بہت مسئلہ ہے خاص کر نئی عمارتیں بناتے وقت جب ہم بنیاد کھودتے ہیں تو مسٹرڈ گیس کی باقیات نکل آتی ہیں اور حال ہی میں ایسا کرتے ہوئے مزدور ہلاک ہوئے ہیں۔‘
’یہ ایک ایسا کام ہے جس میں ہمیں امید ہے کہ ہم ان کی مدد کریں گے۔ ہم یہاں اپنا نگرانی کا نظام قائم کریں، تاکہ اگر ہمیں علاقے میں گیس کا اشارہ ملتا ہے تو ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں کہ لوگ اس سے متاثر نہ ہوں۔‘
’ایک دفعہ حلبجہ صاف ہو گیا تو اس علاقے میں ترقی ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ممکن بنائی جا سکتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے:
ہمیش ڈی بریٹن گورڈن کا کہنا ہے کہ اس بات کی نشاندہی بھی ممکن ہو سکتی ہے کہ حلبجہ میں استعمال ہونے والے بنیادی کیمیکل کس نے صدام حسین کی حکومت کو فراہم کیے تھے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہم مسٹرڈ گیس کے نمونے اجتماعی قبروں سے حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں جیسا ہم نے شہر میں گھروں کے تہہ خانوں سے حاصل کیے تھے۔‘
’اور اگر ہم اس کا بنیادی کیمیائی تجزیہ کرنے کے قابل ہو سکے تو ہم اس کی خصوصیات کو دیکھ سکیں گے اور اس کو مختلف نمونوں کے ساتھ ملا کر جانچ کر سکیں گے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اس سے یہ ممکن ہو سکے گا کہ کس ملک یا فیکٹری نے مسٹرڈ گیس بنانے کے لیے صدام حسین کو بنیادی کیمیکلز فراہم کیے تھے تاہم اعصاب شکن گیسز میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کے بارے میں جاننا ممکن نہیں۔
’ان مینوفیکچررز سے نمونہ حاصل کرنا مشکل ہو گا جنھوں نے مبینہ طور پر اسے بنایا تھا۔۔۔ اگر وہ یہ نمونہ دے دیتے ہیں اور یہ اس کی اس گیس سے مماثلت ہوتی ہے تو یہ ناقابل تردید ثبوت ہے جس پر بین الاقوامی فوجداری عدالت اور دیگر اپنا نقطہ نظر دیں گے۔‘
لیکن ابھی کردوں کی علاقائی حکومت نے اس منصوبے کی منظوری دینی ہے۔ اس کا کہنا ہے وہ بہت سی اجتماعی قبروں کی کھدائی کی اجازت دینے سے پہلے کئی کمپنیوں اور قصبوں کے لوگوں سے مشورہ کرنا چاہتی ہے۔
لیکن ایک سیاسی شعور ضرور موجود ہے کہ جب تک ان غیر ملکی کمپنوں کو سزا نہیں دی جاتی جنھوں نے جانتے بوجھتے یہ مہلک ہتھیار عراق کو فراہم کیے تھے یہ ہولناک باب کبھی ختم نہیں ہو گا۔
علاقائی حکومت کے سینیئر وزیر اور عراق کے سابق صدر کے بیٹے قباد طالابانی کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہم پر متاثرین کا قرض ہے کہ ہم اس کا گہرائی میں جائزہ لیں کہ اس وقت کیا ہوا تھا اور کیسے ہوا تھا۔‘
اور اگر ان غیر ملکی کمپنیوں جنھوں نے یہ ہتھیار فراہم کیے تھے کی نشاندہی ہو جاتی ہے تو کیا ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا سوچا جا سکتا ہے۔
اس پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بالکل بالکل، اس بارے میں ہم بہت سنجیدہ ہیں، متاثرین کے خاندان بھی اس بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔‘
مغربی جرمنی کی کیمیائی صنعت کو اس وقت بون حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کے بین الاقوامی معاہدوں سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ اس میں دوسرے ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
تو کیا حلبجہ کے ہولناک واقعے سے کچھ مثبت چیز سامنی آئی ہے؟ حیران کن طور پر ہاں۔ جو کچھ ہوا اس کے انکشاف نے بیرونی دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور تین سال بعد برطانیہ اور امریکہ نے شمالی عراق کو نو فلائی زون قرار دے دیا۔
اس نے صدام حسین کو کردوں پر حملے کرنے سے روکا اور کردوں کو آزادانہ طور پر پنپنے کا موقع فراہم کیا۔
1990 کی دہائی میں تیل کی دولت نے کردستان کے مرکزی شہروں کی حالت کو یکسر بدل دیا جن میں حلبجہ بھی شامل تھا لیکن کوئی بھی 1988 میں ہونے والے اس دن کو آج تک نہیں بھول سکا۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے آج بھی سکول کے تمام بچے رو پڑتے ہیں۔
حتیٰ کہ آج جب بھی کسی مرد یا عورت میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے تو اس کی وجوہات بمباری کے کیمیائی اثرات سے جوڑا جاتا ہے اور اس واقعے میں ہزاروں افراد ناقابل یقین اور ہولناک انداز سے مارے گئے تھے۔
بی بی سی کے نامہ نگار جان سمسن نے سنہ 2012 میں یہ تحریر حلبجہ بمباری کے تقریباً 25 برس بعد اس علاقے کا دوبارہ دورہ کرنے کے بعد لکھی تھی۔
Comments are closed.