آئی جی پنجاب انعام غنی نے لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن کے بم دھماکے میں ملوث تمام چہروں سے نقاب کھینچ دیا۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف کے ہمراہ میڈیا بریفنگ میں انعام غنی نے بتایا کہ دھماکے میں ملوث پاکستان میں موجود تمام لوگوں کو پکڑ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پردے کے پیچھے موجود لوگوں سے بھی واقف ہوگئے ہیں، جنہوں نے پکڑ گئے ملزم کو انڈر گراؤنڈ ہونے کے ہدایت کی لیکن وہ چھپنے سے ہی ہماری گرفت میں آگئے۔
آئی جی پنجاب نے مزید کہا کہ کچھ لوگ باہر بیٹھ کر پوری کارروائی پلان کر رہے تھے، فنانس کر رہے تھے، کچھ لوگوں نے پاکستان میں تمام کارروائی پر عمل کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہاں دھماکے کو عمل میں لانے والوں میں افغانستان کا عید گل اور کراچی کا پیٹرپال ہے، جس کی عمر 56 سال ہے، جسے پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
انعام غنی نے بتایا کہ پیٹر پال زیادہ تر وقت باہر ممالک میں رہا اس کے ماسٹر مائنڈ سے روابط ہیں، اسی ہی نے دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی کا بندوبست کیا۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی چوری کی گئی تھی، گاڑی کے انجن اور چیچز نمبر کو ٹمپر کیا گیا تھا، ملزمان نے دھماکے سے پہلے گاڑی چلا کر ٹیسٹ بھی کی تھی۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ پیٹر کا تمام ٹیلی فونک اور واٹس اپ ڈیٹا موجود ہے، گاڑی میں دھماکا خیز مواد پیٹر نے اسلام آباد میں نصب کیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ21 تاریخ کو گاڑی میں دھماکاخیز مواد نہیں تھا، اسی دن عید گل نے گاڑی کے ذریعے علاقے کی ریکی کی، 22 تاریخ کو اس نے رکشے سے علاقے کی ریکی کی۔
انعام غنی نے بتایا کہ عید گل ویسے تو پٹھان ہے لیکن پنجابی روانی سے بولتا ہے، یہی وجہ ہے کسی کو علاقے میں اس کے گھومنے پر شک نہیں ہوا، ملزم کی بیوی بھی اس کی معاون ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملزم عید گل 23 جون کو اسلام آباد سے گاڑی لے کر آیا، ملزم موٹر وے کے ذریعے لاہور گاڑی لایا، ملزم نے موٹروے پر 12 گھنٹے سفر کیا، ایک جگہ ریسٹ بھی کیا۔
آئی جی پنجاب نے مزید کہا کہ ملزم نے کالے رنگ کی 2010 کے ماڈل کی گاڑی کھڑی کی، جو زیر تعمیر عمارت کے نیچے کھڑی کی گئی، دھماکے میں پولیس کی پکٹ اور گاڑی بھی نشانہ بنے۔
انہوں نے کہا کہ 23 جون کے جوہر ٹاون کے دھماکے میں 3 شہری شہید ہوئے، 12 گاڑیوں اور 7 گھروں کو نقصان پہنچا، دھماکے میں 20 کلو مواد استعمال ہوا، سی ٹی ڈی صرف 16 گھنٹے میں پورے پلان تک پہنچ گئی۔
انعام غنی نے یہ بھی کہا کہ دھماکے کے بعد گاڑی کا ایک ٹکڑا بھی موقع پر موجود نہیں تھا، دھماکے سے گاڑی کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوگئے تھے، عموماً دھماکے میں ایسا نہیں ہوتا، یہ شخص بہت ماہر تھا۔
Comments are closed.