ڈیوڈ بیوک: ’جنرل موٹررز‘ کی بنیاد رکھنے والے ذہین موجد جن کی موت انتہائی مفلسی میں ہوئی
- میگنس بینیٹ
- بی بی سی سکاٹ لینڈ نیوز
جب بھی بڑے موجدوں کا ذکر آئے گا، اُن میں ڈیوڈ ڈیونبر بیوک کا نام سرفہرست افراد میں ہو گا۔۔۔
اپنی زندگی میں انھوں نے باغیچے کو پانی دینے کا نظام، ٹوائلٹ فلش کرنے والے آلے اور زنگ لگے سنک اور باتھ ٹبس کو پینٹ کرنے کے طریقہ کار ایجاد کیے تھے اور اُن کے بعض طریقے آج بھی مستعمل ہیں۔
لیکن وہ دعویٰ جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا وہ اُس کار کی تخلیق کی تھی جس نے دنیا کی سب سے بڑی کار بنانے والی کمپنی ’جنرل موٹرز‘ کی بِنا رکھی۔
گذشتہ صدی میں فروخت ہونے والی پانچ کروڑ سے زیادہ گاڑیوں پر ’بیوک‘ کا نام کنندہ تھا۔ لیکن ان تمام تر ایجادات اور خوش قسمتی کے باوجود ڈیوڈ بیوک کی زندگی کا اختتام انتہائی غربت کے عالم میں ہوا۔
ان کی زندگی کی غیر معمولی کہانی نے ان کے ایک ہم عصر امریکی تاجر کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ’اس (ڈیوڈ بیوک) نے عظمت کے پیالے سے گھونٹ بھرا، اور پھر جو کچھ اُن کے پاس تھا اسے پھینک دیا۔‘
لیکن یہ سب کچھ ہوا کیسے تھا؟
بیوک کی کہانی سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہہ کہ وہ ایک اتنہائی ذہین اور شاندار موجد تھے لیکن اُن میں کاروبار کرنے کی سمجھ بوجھ قدرے کم تھی۔
سنہ 1904 میں ڈیوڈ بیوک کی تیار کردہ گاڑی کی نقل۔ اس کا نام ’بیوک رن آباؤٹ‘ رکھا گیا
وہ سنہ 1856 میں اپنے بچپن ہی میں سکاٹ لینڈ کے علاقے اربروتھ سے امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ وہاں بڑے ہو کر انھوں نے ایک پلمبنگ کے مشترکہ کاروبار کی بنیاد رکھ لی۔
یہ اُن کی واحد شاندار کامیابیوں میں سے ایک کو ثابت کرنا تھا، لیکن بیوک اس سے خوش نہیں تھے۔
19ویں صدی کے اختتام تک انھوں نے ایک اور شوق پال لیا تھا۔ وہ شوق تھا موٹر انجن تیار کرنے کا۔ انھوں نے پلمبنگ کے کاروبار میں اپنا تمام حصہ فروخت کر کے اُس دور میں ایک لاکھ ڈالرز اکھٹے کیے اور اپنی ایک گاڑیوں کی کمپنی کی بنیاد رکھ دی۔
بیوک آٹو وم گاڑیوں کے اووہیڈ والو انجن تیار کرتی تھی جو آج بھی استعمال ہوتے ہیں لیکن سنہ 1902 میں انھوں نے اس انجن کی صرف ایک کار تیار کی اور اس کار کی تیاری میں اُن کے سارے پیسے ختم ہو گئے۔
اس کی مالی مدد ولیم کراپو ڈیورنٹ نے کی جنھوں نے بیوک کی ڈیٹوریٹ میں قائم کمپنی کو خرید لیا اور بعدازں اسے ’جنرل موٹرز‘ کا نام دیا جو حال میں دنیا کی سب سے زیادہ گاڑیاں بنانے والی کمپنی ہے۔
جنرل موٹرز نے بیوک کو اس کے اوور ہیڈ والو انجن کی ایجاد کے لیے خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ’موجودہ دور میں بیوک برانڈ اور جنرل موٹرز کے لیے ان کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔’
ان کی ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘اگرچہ ڈیوڈ بیوک کی اپنی کہانی خود کافی پیچیدہ ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ کہانی نہ ہوتی ہوتی تو پھر کبھی بیوک آٹو موبل بھی نہ ہوتی۔‘
جنرل موٹرز کی بیوک ماڈل گاڑی جو گذشتہ صدی میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑی تھی
بیوک کو چند برسوں بعد مزید ایک لاکھ ڈالرز دے کر کمپنی سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اگر وہ اس وقت کمپنی میں اپنا حصہ برقرار رکھتے تو یہ اس کے مقابلے میں بہت معمولی رقم تھی جو وہ شاید مستقبل میں کمپنی کے ساتھ رہ کر بنا سکتے تھے۔
لیکن انھوں نے اپنی دوسری خوش قسمتی کو بُری طرح سے خراب کرتے ہوئے ملنے والے ایک لاکھ ڈالرز کو بنا سوچے سمجھے کیلیفورنیا میں تیل کے کاوربار اور فلوریڈا کی زمینوں پر لگا دیا۔
سنہ 1934 میں 69 برس کی عمر میں وہ ڈیٹوریٹ واپس لوٹے اور وہ اس قدر مفلس ہو چکے تھے کہ وہ اپنے گھر ٹیلیفون کرنے کی بھی مالی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔
بالاخر انھیں ڈیٹوریٹ کے ہنر کے سکول میں ایک انسٹرکٹر کی نوکری مل گئی لیکن ان کی صحت مسلسل بگڑتی جا رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
’چھوٹے قد کا بوڑھا آدمی‘
سکاٹ لینڈ کے علاقے ابروتھ میں مقیم ایک ریٹائرڈ صحافی این لیمب جنھوں نے قصبے میں بیوک کا مجسمہ لگانے کی مہم میں حصہ لیا تھا، بیوک کی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’جب وہ مزید کمزور اور عمررسیدہ ہو گئے تھے تو انھیں ہنر سکھانے کے سکول کے انفارمیشن ڈیسک پر معمولی کام کرتے دیکھا جا سکتا تھا، جہاں انھیں ایک کمزور چھوٹے بوڑھے شخص کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ جو آنے والوں کو اپنے موٹے موٹے چشموں کے پیچھے سے گھورتے تھے۔‘
مارچ 1929 میں ان کی موت ڈیٹرائٹ کے ہارپر ہسپتال میں نمونیا کی وجہ سے ہوئی جہاں وہ بڑی آنت میں موجود ٹیومر کے علاج کے لیے داخل تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر 74 برس تھی۔
ہسپتال داخل ہونے سے کچھ عرصے قبل پی اپنے ایک انٹرویو میں بیوک نے کہا تھا ’میں پریشان نہیں ہو، ناکامی اس شخص کے لیے ہوتی ہے جو گرنے کے بعد بیٹھا رہے اور پریشان ہو کہ کل کیا ہوا تھا بجائے اس کے کہ وہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہو اور یہ دیکھے کہ آج اور آنے والے کل میں کیا کرنا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’یہ ہی کامیابی ہے، کل کو دیکھنا۔ میں کسی پر اپنے ساتھ دھوکا کرنے کا الزام نہیں لگاتا، یہ قسمت کا کھیل تھا کہ میں نے اس کمپنی کو کھو دیا جس کی بنیاد میں نے رکھی تھی۔‘
ڈیوڈ بیوک کی نام کی یادگاری تختی
جون 1994 میں ایک یادگاری تختی آربروتھ کے سابقہ میسونک ہال کی دیواروں پر لگائی گئی تھی، یہ اس گلی میں واحد بچ جانے والی عمارت تھی جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔
اس یادگاری تختی کی رونمائی کی گئی تو جنرل موٹرز کے سینیئر ایگزیکٹیو ربرٹ کولیٹا نے کہا تھا ’بیوک کا نام تقریباً پوری 20 ویں صدی میں امریکہ کی گاڑیوں کی صنعت کے بڑے ناموں میں سے ایک رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے یقیناً اس شخص کی عزت کرنا مناسب ہے، نہ صرف اس لیے کہ اس کا نام ہماری گاڑیوں کی شناخت سے جڑا ہے بلکہ اس لیے کہ اس کی ذہانت اور محنت نے آٹوموبیل کی کامیابی کی ایک بے مثال کہانی کا آغاز کیا جو ابھی تک لکھی جا رہی ہے۔‘
دو سال پہلے نیویارک ٹائمز نے خبر دی تھی کہ بیوک کا نام اب جنرل موٹرز کے شمالی امریکہ کے ماڈلز کے پیچھے نہیں لگایا جا رہا ہے۔ چین میں بھی جہاں سب سے زیادہ بیوک ماڈلز کی گاڑیوں کی فروخت ہوتی ہیں ا،ن کے نام کی تختی ان گاڑیوں سے پہلے ہی ہٹائی جا چکی ہے۔
اور این لیمب اور دیگر کی کوششوں کے باوجود سکاٹ لینڈ کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ تاریخ کے کتابوں میں بیوک کا نام شامل کرے اور اس کے آبائی قصبے میں اس کا ایک مجسمہ نصب کرے۔
’اہم پیشرفت‘
ان کی یاد میں جو صرف ایک چیز بچی ہے وہ آبروتھ میں عمارت کی دیوار پر لگی وہ یادگاری تختی ہی ہے جو زیادہ تر مقامی افراد کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔
این لیمب کا کہنا ہے کہ ان کا مجسمہ نصب کرنا گاڑیوں کے موجد کے شان شایان خراج تحسین ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ڈیوڈ بیوک کی صورت میں ہمارے پاس کوئی ایسا شخص تھا جو موٹر کاروں کی ترقی میں اہم پیشرفت کے لیے ذمہ دار تھا، ترقی جو آج تک پوری دنیا میں استعمال ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’کتنے لوگ جانتے ہیں کہ وہ ذہین موجد یہاں آبروتھ میں پیدا ہوا تھا؟ ہاں ہمارے پاس یہاں اس گلی کی آخری عمارت کی دیوار پر اس کی یادگاری تختی لگی ہوئی ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا لیکن اس قصبے میں رہنے والے زیادہ لوگوں کو بھی اس بارے میں علم نہیں ہے۔‘
’بیوک کا حق ہے کہ انھیں یاد رکھا جائے۔‘
Comments are closed.