جب 50 سال قبل جب عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا

50 سال قبل جب عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا

،تصویر کا ذریعہGETTY

اکتوبر میں حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سات دہائیوں پرانے طویل تنازع نے پھر سے سر اٹھا لیا ہے جس کے پیش نظر مغربی ممالک کو مشرق وسطیٰ کے دیگر مسلمان ممالک کی جانب سے ردعمل کا خدشہ ہے۔

رواں برس تیل کے نام نہاد بحران کو بھی 50 برس مکمل ہوئے ہیں جو توانائی کے اِس اہم ذریعے کا ایسا بحران تھا جس نے مشرق وسطیٰ میں تیل کی بنیاد پر چلنے والی بادشاہتوں کی خوشحالی کی بنیاد رکھی اور امریکی اجارہ داری کے خاتمے کا خطرہ پیدا کیا۔

تیل 1948 میں دنیا میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے بعد سے اسرائیل کی اپنے عرب پڑوسیوں کے خلاف لڑنے والی بہت سی جنگوں میں سے ایک کا محرک تھا۔

چھ اکتوبر 1973 کو مصر اور شام کے خلاف لڑی جانے والی یوم کپور جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرنے کی پاداش میں تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں پر تیل کی برآمد سے متعلق پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان پابندیوں کے باعث خام تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے امریکہ اور عالمی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

50 سال قبل جب عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا

،تصویر کا ذریعہGETTY

1973 میں دنیا کیسی تھی؟

سنہ 1973 کے دوران دنیا امریکہ اور سوویت یونین میں بٹے بلاکس کے درمیان ہونے والی سرد جنگ میں بھنسی ہوئی تھی۔ اگرچہ دونوں طاقتوں نے براہ راست فوجی تصادم میں کبھی ایک دوسرے کا سامنا نہیں کیا، لیکن انھوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں رونما ہونے والے مقامی تنازعات میں فریقین کی معاشی اور عسکری مدد کے ذریعے حمایت یا مخالفت کی۔

یہ ایک ایسی دنیا تھی جہاں دو سپر پاورز کے درمیان جوہری جنگ کا خوف موجود تھا اور اس کی معیشت پوری طرح سے تیل پر منحصر تھی، تیل یعنی وہ سیاہ سونا جس نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے معاشروں میں اپنا مقام بنایا تھا۔

اس وقت تک، تیل مغربی ممالک کے لیے نسبتاً سستا اور قابل رسائی تھا اور مغربی ممالک کی کمپنیاں اسے پیدا کرنے والے ممالک، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک، سے فائدہ مند قیمتوں پر حاصل کرتی تھیں۔

تیل کے اسی کردار نے اس خطے کو بڑھتی ہوئی اہمیت دی اور سنہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے بعد پیدا ہونے والے عرب اسرائیل تنازعہ کے ابتدائی دنوں میں دنیا کو اس کا تجربہ بھی ہوا۔

50 سال قبل جب عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا

،تصویر کا ذریعہGETTY

تیل کا بحران کیوں شروع ہوا؟

اکتوبر 1973 کے دوران نکسن نے یہودی سفارتکار ہنری کسنجر کو وزیر خزانہ لگایا جنھیں ویتنام جنگ کے نقصانات کم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مگر دنیا ایک دوسرے اعلان جنگ کی جانب متوجہ ہو گئی۔

6 اکتوبر سنہ 1973 کو مصر اور شام کی قیادت میں عرب اتحاد نے اسرائیل پر یوم کپور کے دوران حملہ کیا۔

مصری صدر سادات اور شامی ہم منصب اسد 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے زیرِ قبضہ علاقوں کی واپسی چاہتے تھے۔

شام اور مصر کے لیے ماسکو سے فوجی سامان آیا تو نکسن نے اسرائیل کے لیے امریکی فوجی سامان کا اعلان کیا جس نے عرب دنیا کو مشتعل کر دیا۔

11 روز بعد تیل برآمد کرنے والے عرب ملکوں نے اپنی پیداوار روک دی۔ اس نے امریکہ، نیدر لینڈز، پرتگال اور جنوبی افریقہ پر اسرائیل کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے انھیں تیل دینے پر پابندی لگائی۔

اس کے لیے سعودی عرب نے اوپیک میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کی وجہ سے امریکہ نے طویل عرصے تک معاشی، علاقائی اور سیاسی نتائج بھگتے۔

50 سال قبل جب عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

سعودی بادشاہ فیصل بن عبدالعزیز نے اس اقدام کی حمایت کی جبکہ کچھ لوگ اس کے حوالے سے مصری صدر سادات کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ انھوں نے حملے سے کئی ماہ قبل سعودی عرب کو رضامند کیا کہ اگر امریکہ نے جنگ میں اسرائیلی فوج کا ساتھ دیا تو اس صورت میں منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔

ماضی میں امریکی محکمۂ خارجہ کے لیے مشرق وسطیٰ میں بطور تجزیہ کار کام کرنے والے گریم بینرمین نے کہا ہے کہ ’یہ پابندی عائد نہ کی جاتی اگر سادات اور فیصل میں اتفاق نہ ہوا ہوتا۔‘

کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو میں مشرق وسطیٰ کی ماہر بسمہ مومنی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت آج کے مقابلے میں عرب اتحاد کا احساس زیادہ تھا۔ جو ملک فلسطینیوں کو آزادی دلوانا چاہتے تھے ان کے پاس مصر کے فوجی راستے کے علاوہ دوسرے راستے بھی تھے۔ انھیں احساس ہوا کہ اس کام کے لیے تیل کا ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔‘

درحقیقت عرب ممالک کے پاس امریکہ کے ساتھ تناؤ کی کئی وجوہات تھیں۔

نکسن نے 1971 میں سونے کے معیار کی روایت ترک کر دی، یعنی ایک ڈالر ایک اونس سونے کے برابر تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت دنیا کا معاشی نظام اس بنیاد پر کھڑا تھا۔

اس سے تیل برآمد کرنے والوں کو نقصان ہوا۔ وہ اسے ڈالروں میں فروخت کرتے تھے اور انھیں لگا کہ اس اقدام سے اس کی قدر کم ہوئی ہے۔ اس کی قدر کی پیشگوئی کرنا مشکل ہو گئی کیونکہ امریکی کرنسی میں اتار چڑھاؤ آ سکتا تھا۔

عرب ممالک کئی سالوں سے ’تیل کو بطور ہتھیار‘ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ عالمی منظر نامے پر ان کی بات سنی جائے۔ مگر اس وقت تک سعودی عرب خود اس معاملے پر چپ رہا۔ اسے شاید ڈر تھا کہ امریکہ متبادل ذرائع اور سپلائر تلاش کر لے گا۔

سپین میں عرب اور اسلامی تعلیمات کے پروفیسر اگناسیو الویرز اسوریو نے کہا کہ ’شاہ فیصل نے سوچ سمجھ کر پابندی کا فیصلہ کیا۔

’ان پر موجودہ حالات کا دباؤ تھا۔ سوویت یونین کے قریبی ممالک جیسے الجزائر نے مزید کڑے اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔‘

جب نکسن حکومت نے اسرائیل کے لیے فوجی مدد بھیجنے کا اعلان کیا تو عرب ممالک کے لیے ’تیل کے ہتھیار‘ کا استعمال ناگزیر ہو گیا۔

50 سال قبل جب عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

تیل کے بحران نے کیا اثرات چھوڑے؟

امریکہ میں اس پابندی کے فوری اور طویل مدتی اثرات برپا ہوئے۔ اس سال جولائی میں فی بیرل خام تیل کی قیمت 2.9 ڈالر تھی جو دسمبر میں 11.65 ڈالر تک جا پہنچی۔

پیٹرول پمپس پر تیل ختم ہو گیا، گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں اور پیٹرول بھروانے میں کئی مہینوں کا انتظار عام ہو گیا۔ کئی ریاستوں میں تیل کے استعمال کی حد مقرر کی گئی۔

امریکہ میں گاڑیوں کے شوقین بہت زیادہ تھے۔ گاڑیوں کو آزادی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور یہ ’امریکی ڈریم‘ کا حصہ تھا۔ ایندھن کی کمی نے عوام کو پریشان کر دیا۔ یہ وہ بحران تھا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جبکہ اس کے بے پناہ معاشی نقصانات تھے۔

سنہ 1975 تک مجموعی قومی پیداوار چھ فیصد تک گری، بے روزگاری دگنی ہو گئی۔ بحران سے لاکھوں شہری متاثر ہوئے۔

سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار اور ایجنٹ بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب کی پابندی نے سنہ 1815 کے دوران برطانیہ کی جانب سے واشنگٹن کی آتشزنی کے بعد امریکہ کا سب سے زیادہ نقصان کیا۔‘

اس لمحے کے بعد سے کسنجر بار بار عرب دارالحکومتوں کے دورے کرتے اور پابندی ہٹوانے کے راستے تلاش کرتے۔ ایسا مارچ 1974 میں ہی ممکن ہوا جب یوم کپور جنگ کب کی ختم ہو چکی تھی۔

اس نے کئی امریکی خاندانوں اور کمپنیوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا جنھیں امید تھی کہ اب روزمرہ کی زندگی معمول پر آ سکے گی۔

پابندی لگانے والے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی دوستی کو نہ توڑ سکے جو کئی سال بعد بھی جاری ہے۔ مگر ان کے اقدام دنیا میں وسیع تبدیلی لائے اور یہ ان رویوں میں عیاں ہے جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔

50 سال قبل جب عرب دنیا نے امریکہ کے خلاف تیل کو ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا

،تصویر کا ذریعہGETTY

تیل کے بحران کا انجام کیا ہوا؟

اگرچہ مصر کے صدر انور سادات اسرائیل پر حملے کے مقاصد حاصل نہیں کر پائے تاہم اس جنگ کی وجہ سے امریکی ثالثی میں مزاکرات کے دور کا آغاز ہوا اور سنہ 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت اسرائیل نے سینائی مصر کو واپس کر دیا جبکہ مصر نے عرب دنیا میں پہل کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

انور سادات کو اس فیصلے کی وجہ سے جہاں عرب دنیا میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہیں مغرب میں ان کو ایک امن پسند کے طور پر دیکھا اور سراہا گیا۔ انور سادات بھی سویت یونین کے مقابلے میں امریکہ سے تعلقات دوبارہ استوار کرنے کے خواہش مند تھے اور اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔

تیل بحران کے پانچ ماہ بعد امریکی صدر رچرڈ نکسن نے واٹر گیٹ سکینڈل کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل کو ان کے ایک بھتیجے نے ریاض میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ان کا قاتل کچھ عرصہ امریکہ میں رہائش پذیر رہا تھا جس کی وجہ سے سی آئی اے کے ملوث ہونے کے نہ ختم ہونے والے شکوک پیدا ہوئے۔

تیل بحران کے دور رس نتائج

سستے تیل کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا اور تیل کی قیمت مشرق وسطی کے استحکام کی علامت بن گئی۔

جب بھی اس خطے میں کوئی بحران پیدا ہوا جیسا کہ 1979 کا انقلاب ایران یا 1991 کی عراق جنگ، تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا اور دنیا کی معیشت متاثر ہوئی۔

اوپیک نے اس بحران کے بعد نئے اراکین شامل کیے اور دنیا کی توانائی منڈی میں ایک طاقت بن کر ابھرا جو تیل کی پیداوار کی مقدار طے کرتا اور یوں مغربی دنیا کے لیے اسے نظر انداز کرنا مشکل ہو گیا۔

امریکہ میں عوام نے ایسی گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ ہوا جو کم کھپت کرتی ہوں اور یوں دنیا میں چھوٹی اور سستی گاڑیوں کا رواج شروع ہوا۔ دوسری جانب عرب دنیا پر انحصار کے خطرات کا اندازہ ہونے پر دنیا میں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش بھی شروع ہوئی۔

ہائڈرالک فریکچرنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے امریکہ سنہ 2005 کے بعد خام تیل کی درآمدات میں کمی لانے میں کامیاب ہوا۔ 2020 میں امریکی تیل کی برآمدات اس کی مجموعی تیل کی درآمدات سے بڑھ چکی تھیں۔

تاہم دنیا کا جو خطہ سب سے زیادہ تبدیل ہوا، وہ مشرق وسطیٰ تھا خصوصا خلیج فارس جہاں 1960 اور 1970 میں تیل کی بڑھتی قیمت نے کویت، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کو دولت سے مالامال کر دیا اور یہاں خوشحالی بڑھی۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس بحران کے بعد سے امریکہ نے ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر رکھے ہیں جو اوپیک کی جانب سے پیداوار میں کمی لانے کے منصوبوں پر ایک بریک کا کام کرتا ہے ورنہ تیل کی قیمت اور زیادہ ہو سکتی ہے۔

ریڈل کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور سعودی عرب کی دوستی بھی اسی بحران کی وجہ سے ہے اور ہر امریکی صدر نے سعودیوں سے اچھا تعلق رکھا تاکہ تیل بہتا رہے۔‘

دوسری جانب اسلامی دنیا میں سعودی عرب ایک نئی طاقت کے طور پر ابھرا اور رفتہ رفتہ ایران کے مقابلے میں آ کھڑا ہوا۔

50 سال بعد آج سعودی تیل کمپنی آرامکو دنیا میں ایپل کے بعد دوسری سب سے زیادہ مالیت والی کمپنی ہے جس کا سالانہ منافع 2023 میں 161 ارب ڈالر تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ